Topics

پیو ند کا ری

ہوا یوں کہ رات کے وقت سو تے سوتے آنکھ کھلی تو تجر بے میں یہ بات آئی کہ سو کر اٹھنے کے بعد دماغ خا لی خالی رہتا ہے ۔ جب تک پلکوں کی جنبش با ر بار آنکھوں کے ڈیلوں کو مضروب نہ کر ے ،دما غ میں کو ئی خیال نہیں آتا ۔کیوں کہ آنکھ اچانک کھلی تھی،اس لیے  پلکوں کی جنبش میں کچھ تا خیر ہو ئی ۔ اسی منا سبت سے دماغ خالی رہا۔ شعوری طور پر دماغ خالی تھا لیکن لا شعور کی جھلک دما غ کی اسکرین(Screen) پر کچھ اس طر ح پڑی کہ پہلے ایک چکا چوندسی ہو ئی ۔پھر  اس چکا چوند میں ایک رال کا گو لہ سا پھٹا ۔ یہ رال کا گو لا کیا ہے ؟ اس کا مشاہدہ میں نے ۲۵ء اور ۷۱ء کی جنگ میں کیا تھا ۔جب ریڈار (Radar)کے اوپر تصویر منعکس ہو تی ہیں کہ ہوا ئی جہاز حملہ کر نے والے ہیں تو آسمان کے اوپر آسمان کو رو شن کر نے کے لئے گو لے پھینکے جا تے ہیں اور یہ گولے نہا یت سفید روشنی سےفضا کو روشن اور منور کر دیتے ہیں ۔اور یہ گولے دراصل رال کے ہو تے ہیں ۔

مر کر ی ( MERCURY)رو شنی جب دماغ سے پھو ٹی تو اندر کی آنکھ نے یہ دیکھا کہ تخلیق ڈائیوں(DYES) میں ہو رہی ہے ۔ یعنی کا ئنات میں موجود جتنی اشیاء ہیں ،ان سب کے لئے ایک ایک ڈائی (DYE) مخصوص ہے ۔ جس طر ح چڑیا کی ڈائی(DYE)میں پلا سٹک ڈال کر چڑیا بنا لی جا تی ہے اور کبو تر کی ڈائی میں یہی پلا سٹک ڈال کر کبوتر بنا لیا جا تا ہے ۔اسی طر ح قدرت کی بنا ئی ہو ئی ڈائیوں میں مصالحہ(MATTER) ایک خاص طریقہ کار(PROCESS)سے  منتقل ہوتا رہتا ہے اور نئی نئی چیزیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ 

تخلیق کر نے والی ایک واحد ہستی ہے جس نے ایک دو سری ہستی کو تلاش کر نے کی صلا حیتوں سے نوازا   ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ نا قابل تر دید ہے کہ جو دوسری ہستی ہے ،تخلیق میں وہی چیزیں یا وہی عنا صر وہی موجودMATTERاستعمال کر نے پر مجبور ہےجو پہلی واحد اور یکتا ہستی نے بنا دی ہیں ۔

اس دو سری ہستی کا نام انسان ہے انسان جب بھی کو ئی نئی  چیز وجود میں لا تا ہے یا تخلیق کر تا ہے تو اس ذیلی تخلیق میں کسی نہ کسی صورت  اللہ کی بنا ئی ہوئی اشیاء کا داخل ہو تا ہے ۔یعنی اللہ کی تخلیق سے ذیلی تخلیقات عمل میں آتی ہیں ۔ جب وہ تخلیقات آپس میں ایک دو سرے کے اندر جذب ہو تی ہیں یا جذب کر دی جا تی ہیں تو نتیجہ میں تیسری شئے وجود میں آجا تی ہیں ۔مثلاً تخلیق کا ایک مظہر پا نی ہے ۔اور تخلیق کا دو سرا مظہر مٹھاس ہے ۔مٹھاس اور پا نی کو باہم دیگر ملا دیا جا ئے تو شربت بن جا تا ہے ۔ 

دو تخلیقات میں پیو ند کا ری کر کے تیسری چیز بھی بنا ئی جا تی ہے ۔ جانوروں میں پیوند کا ری سے خچر کا وجود سامنے آتا ہے آم کے درختوں میں پوند کا ری ہو تی ہے تو عام کی بے شمار قسمیں بن جا تی ہیں ۔ اعلیٰ ہذالقیاس اس قسم کی پیو ند کا ری کا ایک نظام ہے جو دنیا میں جا ری وساری ہے۔ اس پیو ند کا ری کے شعبے پر نظر ڈالی جا ئے تو دیکھا یہ جا تا ہے پیوند کار ی کی صلا حیت اللہ تعالیٰ کی بنا ئی ہو ئی تخلیق، انسان کے اندر نمایاں طور پر موجود ہے ۔کسی انسان اور درخت اور یا کسی انسان اور جا نور میں یہ حدِ فا صل قائم ہے کہ انسان پیو ند کا ری کر سکتا ہے لیکن درخت پیو ند کا ر ی نہیں کر سکتے ۔ 

جو لوگ نظر کے قانو ن سے واقف ہیں وہ جا نتے ہیں  کہ جب رُوح کی آنکھ وا ہو تی ہے تو فا صلے معدوم ہو جا تے ہیں ۔لا کھوں سال کا وقفہ سیکنڈوں میں سمٹ جا تا ہے آدم سے لیکر  مو جو دہ سائنسی دور تک تمام ارتقائی منازل فلم کی طر ح سامنے سے گزر جا تے ہیں ۔

غاروں ، پتھروں کے دور سے نکل کر نظر نے موجود ہ سائنسی زما نہ کا احاطہ کیا تو یہ دیکھ کر اضطرابی کیفیت طا ری ہو گئی کہ  انسان نے جن ارتقائی مراحل کا نام ترقی رکھا ہے وہ دراصل تر قی نہیں ہے ۔تر قی کا محور انسانی فلا ح و بہبود نہیں بلکہ ہلا کت ہے۔ اس ہلا کت خیز تر قی کے پس منظر میں کو ئی معقول جوا ز بھی نہیں ہے۔ صرف دولت کے انبارجمع کر نا ہے جب نظر یہاں ٹھہری کہ انسان انسان کی پیو ند کا ری(TEST TUBE BABY) میں بھی مصروف ہیں تو ظلم و جہا لت کی گھٹا ئیں اٹھتی ہو ئی محسوس ہو ئی ہیں ۔تحت الشعور نے بتا یا کہ نا شکر ے انسان نے اپنی حیثیت کم کر کے خود کو درختوں کی صفت میں شامل کر لیا ہے ۔

درخت قدرت کی ایسی تخلیق ہیں جو ایندھن بنتے ہیں ۔ مطلب یہ نکلا کہ زمین کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ انسان کو ایندھن کے طور پر استعمال کر ے ۔چو نکہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو پا بند کر دیا کہ وہ انسان کے حکم کی  تکمیل کرے، اس لئے کرۂ ارض مسلسل اور متواتر آتش فشاں بنتا جا رہا ہے ۔ یقیناًانسان نے اگر اپنی حالت نہیں بدلی تو عنقریب زمین اس کی نوع کو جلا کر خاکستر کر دے گی ۔ 

فا عتبرو ویا اولی الابصار


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔