Topics

مر شد اور مر ید

زندگی کے بے شمار رخ  ہیں زندگی کا ہر رخ اپنے اندر کشش رکھتا ہے ۔شعوری زندگی میں رہتے ہو ئے زندگی کے اس پار لا شعور میں آدمی جب جھا نکتا ہے تو اس کے اوپر یہ عُقدہ کھلتا ہے کہ ساری دنیا گر وہوں میں بٹی ہو ئی ہے ۔ہر گر وہ کا اپنا ایک نظر یہ ہے ۔اور ہر گر وہ اپنی مخصوص خواہشات کے تا نے بانے میں خود اختیاری قیدی ہے۔ اور ایک جواری یہ جاننے کے باوجود کہ جوا کھیلنادولت کا ضیاع ہے، تنگ دستی میں بھی جوا کھیلتار ہتا ہے ۔ایک شرابی اس بات سے با خبر ہو تا ہے کہ شراب اس کے پھیپھڑوں کوگھن بن کر چا ٹ رہی ہے ،پھر بھی شراب پینا نہیں چھو ڑتا۔ شراب مصائب اورپر یشانیوں کے نجات پا نے کے لئے پی جا تی ہے ۔مگر یہ کیسی نجا ت ہے کہ یہی نجا ت آدمی کو کھوکھلا کر دیتی ہے ۔

مذہب کا پیروکار گر وہ عقائد کی بھول بھلیوں میں سفر کر تا رہتا ہے ۔عقائد کی اس طو فا نی دنیا میں بے شمار فر قے ہیں ۔ ہر فر قہ خود کو نا جی اور دو سروں کونا ری سمجھتا ہے ۔ لیکن جب کسی بھی فر قے کے کسی بھی فر د کو اندر سے ٹٹولا جا تا ہے تو اس کے اندر بے یقینی اور شک کا لاوا ابلتا ہوانظر آتا ہے ۔سترہ سال کی عمر سے اسی سال تک عبادت و ریا ضت کر نیو الے کسیشخص سے جب آسائش(جنت )اور آلام (دوزخ ) کی زندگی کا تذکرہ کیا جا تا ہے تو وہ بے یقینی کی اس منزل پر ہو تا ہے جس منزل کو دوزخ کے علاوہ کو ئی دو سر انام نہیں دیا جا سکتا ۔ مذہب انسان کو یقین کی دنیا کی تر غیب دیتا ہے۔ اور یقین کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہو تی جب تک یقین مشاہدہ نہ بن جائے ۔مذہب افراط و تفریط ، کبر ونخوت ، احساس کمتری اور احساس بر تر ی کے جذبات کی نفی کر تا ہے ۔ اور مذہبی  انسان پر یہ جذبات مسلط رہتے ہیں۔ مذہب نوع ِانسانی کو ایک پلیٹ فا رم پر جمع ہو نے کی دعوت دیتا ہے اور مذہبی دانشور اپنی پوری توانائی اس کی مخالف سمت میں صرف کر دیتا ہے۔

صو فیوں ، پیروں اور سجا دہ نشینوں کی دنیا عجیب طلسماتی دنیا ہے ۔زندگی کے با رے میں اس کے اپنے نظریا ت ہیں۔ اور اس کا اپنا ایک رخ ہے ۔ یہ گر وہ کہتا ہے کہ مر شد کی اطاعت مر ید پر لا زم ہے ۔مرشد کے حکم کی تعمیل میں فرق اور امتیاز کر نا درست نہیں ہے کیوں کہ مر شد خدا کا نما ئندہ ہے ۔مر شد کی اطاعت نہ ہو نے سے رُوح کمزور ہو جا تی ہے مر شد کے سامنے مر ید موم کی گڑیا ہے تا کہ وہ جد ھر چا ہے اسے موڑ دے۔ بولنا ، لکھنا ، پڑھنا ، چپ رہنا کو ئی کام کر نا یا نا کر نا سب مر شد کی مرضی پر چھو ڑ دیا جا ئے ۔مرید کو مرشد کے ہا تھ میں ایسا ہو نا چا ہئے جیسے بوڑھے ضعیف آدمی کے ہا تھ میں لا ٹھی ۔ایک بے جان ما دی چیز جس کو جہاں مر شد چاہے اٹھا کر رکھ دے ۔ کہا جاتا ہے کہ مر شد اگر مر ید  کو حکم دے کہ کنواں میں کودجا ۔مر ید تعمیلِ حکم میں کنواں میں کود گیا، مگر اسے خیال آگیا کہ  مر شد خود ہی بچا لے گا تو یہ پیر صاحب کی نظر میں حکم کی تعمیل نہیں ہو ئی ۔حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب اسرارو رمو زوہ لوگ بیان کر تے ہیں جن کی زندگی شک اور بے یقینی سے عبا رت ہے ۔

جب ہم زاہدانہ زندگی کو دیکھتے ہیں تو یہ باب کھلتا ہے کہ زاہدانہ زندگی دراصل جبلت کے خلاف جہاد اور جبلت کے منا فی کردار ہے ۔یہ گر وہ اس بات پر مصر ہے ،بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اعلیٰ جذبات کے  مقابلے میں ادنی اور اسفل جذبات کو سوخت کر دیا جا ئے ،خواہشات کو فنا کر دیا جا ئے، لباس ایسا زیب تن کیا جا ئے جو موٹا ، کھردرا ، بھدا اور بدصورت ہو غذا ایسی کھا ئی جا ئے جو رو کھی سوکھی ہو۔  زندگی کے شب و روز میں قنوطیت کا عمل دخل ہو۔ آدم کو بے نوا انسان بن کر زندہ رہنا چاہئے ۔ظاہر ہے بے نواانسان فقرو فا قے ہی میں زندگی بسر کر ے گا ۔اور بھوک پیا س ،گر می سر دی کی مصیبت اور تکلیف اس کا سر ما یہ حیات بن جا ئے گا ۔ خود ساختہ پُر مشقت زندگی کو وہ تسلیم و رضا کانام دیتا ہے ۔

قلندر با با اولیاءؒ فر ماتے ہیں مذہب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو ۔ ایمان یو منون بالغیب ہے۔ ایمان یقین ہے اور مشاہدے کے بغیر تکمیل نہیں ہوتی یقین کی دنیا میں داخل ہو کر انسان یہ جان لیتاہے کہ ساری انسانی برادری کا حاکم اعلیٰ اللہ ہے ۔اللہ چا ہتا ہے کہ انسان متحد ہو کر مضبوط ہو کر اس کی رسی کو تھا مے رہیں ۔اور آپس میں تفر قہ نہ ڈالیں ۔حاکم اعلیٰ اللہ کو جاننے اور پہچاننے والے اللہ کے دو ست ہیں ۔اور دوست اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دوست دو ست کو تکلیف نہیں پہنچاتا ۔ اس لئے اس کے با طن میں یہ بات راسخ ہو جا تی ہے کہ وہ جنتی ہے ۔

قلند ربابااولیا ء ؒ فر ما تے ہیں مر ید اور مر شد کا رشتہ استاد اور شاگر د ، اولاد اور باپ کا ہے ۔مر ید مرشد کا محبوب ہو تا ہے ۔ مر شد مر ید کی افتاد طبیعت کے مطا بق تربیت دیتا ہے ا س کی چھوٹی بڑی غلطیوں پر پر دہ ڈال دیتا ہے ۔نشیب و فراز اور سفر کی صعوبتوں سے گزارکر اسے اس مقا م پر پہنچا دیتا ہے جہاں پُر سکون زندگی اس کا احاطہ کر لیتی ہے ۔

قلندبا بااولیا ء ؒ فر ما تے ہیں زاہدانہ زندگی یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہشات کو فنا کر کے خود فنا ہو جا ئے ۔آدمی اچھا لباس پہننا ترک کر دے ۔ پھٹا پرانا اور پیوند لگا لباس پہننا ہی زندگی کا اعلیٰ معیار قرار دے تو دنیا کے سارے کا رخانے اور تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو جا ئیں گی ۔اور لاکھوں کروڑوں لوگ بھوک زدہ ہو کر ہڈیوں کا پنجر بن جا ئیں گے ۔

اللہ نے زمین کی کوکھ سے وسائل اس لئے نہیں نکا لے ان کی بے قدری کی جا ئے ۔ ان کو استعمال نہ کیا جا ئے ۔ اگر رو کھا سو کھا کھا نا ہی زندگی کی معراج ہے تو با رشوں کی کی ضرورت با قی نہیں رہے گی ۔زمین بنجر بن جا ئے گی ۔زمین کی زیبا ئش کے لئے اللہ نے رنگ رنگ کے پھولوں ، پتوں ، درختوں ، پھلوں کو ہساروں اورآبشاروں کو بنا یا ہے ۔ 

قلندر بابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں :

زاہد کو چا ہئے کہ اللہ کی دی ہو ئی ہر نعمت کو خوش ہو کر استعمال کر ے لیکن خود کو اس کا مالک نہ سمجھے ۔ اللہ روکھی سوکھی دے تو اسے بھی خوش ہو کر کھائے اور اللہ مرغ پلاؤ دے تو اسے بھی خوش ہو کر کھا ئے ۔جب سب کچھ ہے تواس سے پو راپورافا ئدہ اٹھا ئیے ۔دروبست میں اللہ کو اپنا کفیل سمجھے اور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنا رہے ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔