Topics

تا ج الدین بابا ؒ

چو پا ئے کسی کی نو کری نہیں کر تے  اورپر ندے دُ کا نیں نہیں سجا تے۔ لیکن زندگی گزارنے کے تمام وسائل قدرت انہیں مہیا کر دیتی ہے ۔

چو پا ئے ہوں یا پر ندے ان کی معاشی اور معا شرتی زندگی کا تجزیہ ہمیں بتا تا ہے کہ وہ بھی جذبات و احساسات کے تا نے با نے میں بنُے ہو ئے ہیں ۔  جنس ، غصہ ، مادری محبت پدری شفقت ان کے اندر بھی موجو د ہے ۔ پر ندوں کو اپنے بچوں کی مستقبل کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے ۔ بچے جب زندگی گزارنے کے لئے تعلیم و تر بیت کا دور پو را کر لیتے ہیں تو ما ں با پ اپنا گھر (گھو نسلہ ) بچو ں کے سپر د کر کے پر واز کر جا تے ہیں اور اپنے لئے ایک ایک تنکا جمع کر کے نیا گھر تعمیر کر تے ہیں ۔

چر ند ے ہوں ، درندے ہوں یا  پر ندے ، وہ عقل و شعو ر بھی رکھتے ہیں ۔حشرات الا رض (کیڑ ے مکوڑے )یہ جا نتے ہیں کہ ضروریا ت پو ری کر نے کے لئے پیشگی انتظام نہیں کیا گیا تو ہماری نسل با قی نہیں رہےگی۔ خطہ َارض پر ایسے چو پا ئے بھی مو جود ہیں جن میں مستقبل بینی کی صلا حیت عام آدمیوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ بلی اور کتے کو آنے والی مصیبتوں اور بلا ؤں کی یلغار کا پہلے سے پتہ چل جا تا ہے ۔

سوال پیدا ہو تا ہے کہ آدمی اور حیوان میں فرق کیاہے ؟آدمی اور حیوان میں کو ئی فر ق نہیں ۔ آدمی بھی چو پایوں کی طرح دو پیروں سے چلنے والا جا نور ہے۔ بصیرت سے دیکھا جا ئے تو آدمی حیوانات سے ہر لحاظ سے کم تر ہے ،جتنا یقین ایک چڑیا کو اپنے خالق کے اوپر ہے آدمی کے اندر اس کا عشر عشیر بھی نہیں  ہے۔ جتنا اِستغنا ایک چیو نٹی کو ہے  آدمی اس سے محروم ہے ۔جو کردارآدمی کوحیوانات سےممتاز کر تا ہے وہ فکر و شعور کے دائرے میں رہتے ہو ئے خالق حقیقی سے رابطہ ہے ۔اگر کسی بندہ کا اپنے خالق سے ربط نہیں ہے تو وہ دراصل دو پیروں سے چلنے والا جانور ہے ۔ایک جا نور چار پیروں سے چلنے والا ہے ،دو سرا دو پیروں سے چلنے  والاہے ۔ اڑنے والا جانور  اور تیرنے والا جا نور بھی چار پیروں سے چلنےوالے جا نوروں میں شامل ہیں ،اس لئے کہ وہ پر بھی استعمال کر تا ہے اور پیر بھی ۔نیز اس کے اڑنے کی صورت وہی ہو تی ہے جو چا ر پیروں سے چلنے والے جانور کی ہو تی ہے ۔

حیوانات کی نو عوں میں بے شمار دو سری نوعوں کی طرح ایک نوع آدمی بھی ہے لیکن جب کسی بندے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہو جا تا ہے تو وہ جانوروں کے گر وہ سے نکل کر انسان بن جا تا ہے اور انسانوں کی فکرو فہم یہ ہو تی ہے کہ وہ بر ملا پکار اٹھتے ہیں ہما را جینا ، ہمارا مر نا سب اللہ کی طر ف سے ہے اور اس کی یقینی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں پیدا کیا تھا تو پو چھ کر پیدا نہیں کیا تھا ۔دنیا میں ایک فر دِواحد بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی مر ضی سے پیدا ہو ا ہو یا اپنی مر ضی سے ہمیشہ زندہ رہے ۔ہم ان ہی وسائل سے استفادہ کرتے ہیں جو ہمارے لئے پہلے سے تخلیق کر دئیے گئے ہیں۔ اس نقطہ کو حضرت بابا تا ج الدین نا گپو ری ؒ نے اپنے ایک دو ہے میں اس طر ح بیان کیا ہے ؂

اجگر کر یں نہ چا کری پنچھی کریں نہ کام

داس ملو کا کہہ گئے سب کے داتا رام


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔