Topics

وجدان

کہا جا تا ہے کہ انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے کسی نہ کسی عقیدے کا پا بند رہنا ضروری ہے ۔گردوپیش کے حالات اور ماں باپ کی تر بیت سے جس قسم کے عقائد بچے کے ذہن میں پر ورش پا جا تے ہیں وہی بچے کا مذہب بن جا تا ہے ۔تمام نظر یات کی بنیاد ان ہی اصول پر کار فر ما ہے اس کے بغیر تاثرات ،واردات اور کیفیات کو عقیدے کے سلسلے میں کو ئی جگہ نہیں ملتی ۔ ہمار ے تمام فلسفے اور تمام طبعی سائنس اسی کلیہ پر قائم ہے لیکن جب ہم انسان کی ذہنی اور اندرونی زندگی پر غور کر تے ہیں ۔تو ہمیں ذاتی اور با طنی واردات و کیفیات میں نمایاں فرق نظر آتا ہے ۔جو کچھ ہے وہ بچپن میں سنی ہو ئی، دیکھی ہو ئی اور والدین سے ورثہ میں ملی ہو ئی کیفیات کا ثمر ہے ۔ہم جب اس مسئلے کو منطقی انداز میں حل کر نا چا ہتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر ما یو سی ہو تی ہے کہ عقل کا رعب اوروقار بہت ہے لیکن فی الواقع عقل بے بس ہےکیوں کہ جہا ں دلائل زیر بحث آتے ہیں وہاں محض الفاظ کے گورکھ دھندے سے مسئلہ حل نہیں ہو تا ۔ہم جب عقلی بنیادوں پر یا منطقی استدلال سے عقیدے کے بارے میں سو چتے ہیں تو ہمیں ما یوسی اور نا کا می کے علاوہ کچھ حاصلنہیں ہو تا ۔ایک زمانہ تھا کہ خدا کی ہستی کے ثبوت میں بہت کچھ لکھا گیا۔ بے شماردلائلنظم و نثر میں جمع کئے گئے اور ایک پو را گروہ اندلا ئل اور طر ز فکر کو پھیلا نے کی کوشش کر تا رہا لیکن جب انسانی شعور نے کروٹ بدلی صدیو ں پر انے منطقی استدلال کو رد کیا کہ و ہ ساری تقریریں ،تحر یریں موٹی موٹی کتابیں  طاقِ نسیاں ہو گئیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کو مذہب کے بارےمیں جو ثبوت چا ہئے تھا وہ اسے نہیں ملا۔ نتیجہ میں مذہب سے ان کا اعتماد اٹھ گیا اور نوجوان نسل  نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مذہب جس خدا کا تذکرہ کر تا ہے اگر خدا  ہے تو ہما را خدا ایسا نہیں ہے جس طر ح ہمارے آباؤ اجداد سمجھتے تھے ۔ مفکر جب فکر  کی گہرائیوں میں غو طہ زن ہو تا ہے ۔تو وہ کہتا ہے کو ئی بندہ اپنے عقیدے کی وجہ بیان نہیں کر تا ۔اس لئےکہ وجہ بیان کر نے میں عقلی دلا ئل کا سہا را لینا پڑتا ہے ۔

ان سب کے با وجود رواں دواں زندگی میں ہم سب یہ یقین رکھتے ہیں عقیدے کے بغیر کوئی  فرد زندگی کو صیحح خدوخال پر قائم نہیں رکھ سکتا ۔عقیدے سے مراد عام طور پر یہ لی جا تی ہے کہ بندہ یہ کہتا ہو کہ کو ئی ایسی ماورا ئی ہستی موجود ہے جس کے ہا تھ میں پو ری کا ئنات کا نظام ہے ۔ وہ جو چا ہتا ہے جس طر ح چا ہتا ہے ہو تا رہتا ہے ۔بد عقیدگی یا عقیدہ کا نہ ہو نا انسان کو اس طرف متوجہ کر تا ہے کہ جو کچھ ہے وہ سب اتفا قی حادثہ کا نتیجہ ہے ۔لیکن بہرحال عقیدہ ہویابے عقیدگی انسان اپنی ذات سے ہٹ کر اندر کی دنیا کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں بے عقیدہ ہو نا بھی ایک عقیدہ ہے ،۔ کو ئی شخص اگر خدا کی ہستی اور خدا کے وجود سے انکار کر تا ہے تو ہم اس کو دہر یہ کے عقیدہ کا عمل کہتے ہیں ۔جب تک مذہب اور خدا کے بارے میں ہمارا فلسفی انداز اور منطقی استدلال موجود رہتا ہے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے اس لئے کہ ما ورا ہستی کو سمجھنے کے لئے ما ورا شعو ر کا ہو نا بھی ضروری ہے ۔پس ثابت یہ ہوا کہ مذہب ماورائی ہستی اور صداقت کے اصل اساس ہمارا غیر شعوری عقیدہ اور وجدان ہے ۔جب ہم وجدان میں قدم بڑھا دیتے ہیں تو فطرت ہماری رہنما ئی کر تی ہے اور عقل اس کی پیر وی کر تی ہے ۔یہ بات مشاہدے میں ہے کہ جن لوگوں کے اندر وجدان کی دنیا رو شن ہو گئی ان لوگوں کے اوپر خدا کے عدم وجود کے بار ے میں خواہ کیسے بھی بلند دلائل پیش کئے گئے ان کے عقیدے میں اور ان کی طر ز فکر میں کو ئی تبدیلی پید انہیں ہو ئی۔ 

یہ حقیقت اس طر ف راہ نما ئی کر تی ہے کہ وجدان ایک ایسا عالم ہے جس عالم میں ہر لمحہ، ہر آن حقیقتیں عکس ریز ہو تی رہتی ہیں ۔ عالم وجدان میں سفر کر نے والا مسافر وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جو عقل کی پہنا ئیوں میں گم رہنے والا بندہ نہیں دیکھتا ۔انسانی جبلتاور فطر ت کا موازنہ کیا جا ئے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جبلت بے قرار اور بے سکون رکھتی ہے اور فطرت میں انسان کے اوپر سکون اور احت کی با رش بر ستی  رہتی ہے ،اس لئے کہ فطرت براہ راست خالق کائنات سے ہم رشتہ ہے اور تخلیق کر نے والی ہستی سراپا سکون اور رحمت ہے ۔

نسلی اعتبا رسے ہمارے بچے جس مذہب کے پیروکار ہیں انہیں جب اس مذہب میں سکون نہیں ملتا تووہ بغاوت پر آمادہ ہو جا تے ہیں ۔سکون ایک حقیقت ہے، ایسی حقیقت جس حقیقت کے ساتھ پو ری کا ئنات بندھی ہو ئی ہے ۔حقیقت فکشن نہیں ہو تی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بندے کے اندر وہ کون سی طاقت ہے جو ٹوٹ پھوٹ ، گھٹنے بڑھنے اور فنا ہو نے سے محفوظ ہے۔ وہ طاقت وہ ہستی ہر بندے کی اس کی اپنی رُوح ہے ۔ نسلی اعتبار سے اگر ہم اپنے بچوں کو ان کے اندرمو جود رُوح سے آشنا کر دیں تو وہ خدا کے دو ست بن جا ئیں گے خدا کا فر ما ن یہ ہے کہ اللہ کے دو ستوں کو خوف اور غم نہیں ہو تا ۔ زندگی کی ذہنی جسمانی اور رُوحانی تمام مسرتیں ان کے شامل حال ہو تی ہیں ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔