Topics

روحانی آنکھ

اللہ تعالیٰ ایک وجود ہے ایک ہستی ہے ، جزو لا تجزیٰ وجود، ماورا ء ہستی۔ اس جزو لا تجزیٰ وجود اور ما ورا ئی ہستی کو خیال آیا کہ میں پہچا نا جا ؤں۔ پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ جزو لا تجزیٰ وجود کے علاوہ اور بے شمار وجود موجود  ہوں۔جزو لا تجزیٰ   ما ورا ہستی نے اپنے ذہن میں موجود پرو گرام کو  جب وجود بخشا تو کہا ’’کن ‘‘اور موجودات ایک کنبے کی شکل میں تخلیق ہو گئیں ۔

مشاہدے میں فتح کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ اللہ کا یہ سارا کنبہ ایک نقطے میں بند ہے۔جس طر ح ٹھہرے ہوئے پا نی میں جھا نکنے سے پا نی کے اندر اپنی شکل نظر آتی ہے، اسی طرح اس نقطے کے اندر دیکھنے سے یہ نظر آتا ہےکہ کا ئنات کے سارے افراد با ہم دیگرجڑے ہو ئے  ،ملے ہو ئےاور ایک دو سرے میں پیوست ہیں۔ اس نقطے میں انسان بھی ہے ، فر شتے اور جنات بھی ہیں ۔ جمادات ، نبا تا ت اور حیوانات بھی ہیں۔ ان سب  کی ہیئت کذائی اس طر ح واقع ہے کہ ہر نوع کے ہر فر د میں ایک روشن نقطہ ہے اور اس روشن نقطے میں پوری کائنات منعکس ہے یعنی آدمی کے اندر بکر ی ، بکری کے اندر نباتات وجمادات کے اندر فر شتے، جنا ت ارض و سماوات سب یکجا طور پر موجود ہیں ۔

فتح کے بعد شہود کی دو سری نظر سیر ہے ۔ سیر کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ یہ سا را یکجا ئی پرو گرام لو ح ِمحفوظ پر منقوش پروگرام خالقِ کا ئنات ،کی تجلی سے بے شمارزمینو ں(screen) پر ڈسپلے(Display) ہو رہا ہے ۔تقریباً ساڑے گیا رہ ہزار نوعیں اور انسانی شماریات سے ماورا ء ان نوعوں کے افراد کائنات کے کل پر زے ہیں ۔یہ کائناتی مشین ایک دائرے(Circle) میں چل رہی ہے ۔ جزولاتجزیٰ وجود سے اس کی حر کت شروع ہو تی ہے ۔اور ما ورا ء ہستی کی طر ف لوٹ جا تی ہے۔ آپ چا ہیں تو اس کی مثال دنیا کی کسی بھی مشین میں تلاش کر سکتے ہیں۔

اب آپ اپنے ہا تھ میں بندھی ہوئی گھڑی دیکھیے یہ چند پر زوں سے مل کر وجود میں آنے والی مشین ہے لیکن ان میں قدرت کے راز سر بستہ ہیں ۔ گھڑی کے اندر لیور ، اسپر نگ اور گراری واضح نظر آرہے ہیں ۔لیکن ان کے با ہمی اشتراک سے حرکت کا  ایک نہ رکنے والا سلسلہ جا ری ہے ۔ کو ئی آگے پیچھے حر کت کر رہا ہے،کو ئی دائرے میں گھوم رہا ہے، کو ئی لخطہ بہ لخطہ اپنے حجم کو زیادہ کر رہا ہے۔بیک و قت کئی حر کتوں پرگھڑی کی زندگی قائم ہے ۔بظاہر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ الٹی سیدھی حر کت کیوں ہو رہی ہے۔کچھ دیر کے لئے حرکت کے اس عمل پر غور کر نے سے آنکھ پس پردہ چھپے ہو ئے راز کو دیکھ لیتی ہے ۔کل پر زے کا با ر بار ایک CYCLE میں چلنا اور پلٹنا ایک ہی حر کت ہے ۔

گھنٹے ، منٹ اور سیکنڈ کی سو ئیاں ڈائل پر موجود ہیں ۔سیکنڈ کی سو ئی تیزی سے حر کت کر رہی ہے ۔اس تیزی سے کہ ہماری آنکھیں اس حرکت کو محسوس کر رہی ہیں ۔منٹ اور گھنٹے کی سو ئیاں بھی حر کت میں ہیں لیکن ہماری نگا ہوں کی کمزوری اس رفتار یا حرکت کو محسوس نہیں کر تی۔ ایک وقفے کے بعد جب ہم ان سو ئیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو انکشاف ہو تا ہے کہ حرکت کا عمل جا ری ہے ۔۔ اس سسٹم میں اگر ایک پرزے کی کار گزاری بھی متا ثر ہو جا ئے یا کسی وجہ سے اس کی حر کت معطل ہو جا ئے تو حرکت کا سلسلہ رک جا ئے گا ۔

قدرت کا کا ر خانہ بھی کل پر زوں سے مرکب ہے آسمان ، زمین ، درخت ، پہاڑ ، چرندے ، پر ندے ، حشرات لارض ،فر شتے ، جنات اور انسان سب اس عظیم الشان نظام کے اجزاء ہیں جن کے اشتراک سے حرکت کا منظم سلسلہ جا ری و ساری ہے ۔ فطرت کا اصول ہر نوع ، ہر فر د ،ہر ذرہ کے لئے یکساں ہے ، البتہ انسان کا ئنات کی مشین کا ایسا پر زہ ہے جو اس مشین کے میکا نزم سے واقف ہے ۔ با قی مخلوق کل پر زے کی حیثیت میں حرکت کرنے پر مجبور ہے۔ میکانزم کے اس علم کو اللہ تعالیٰ نے امانت قرار دیا ہے۔

یہ مضمون قرآنِ پاک کی چار آیتوں اور ایک حدیث ِ قدسی کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے:

۱۔ اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا رادہ کرتا ہے تو کہتا ہے " ہو" اور وہ ہو جاتی ہے۔ (قرآن)

۲۔ وہ اعلیٰ و ارفع ذات اللہ ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ۔ (قرآن)

۳۔ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔(قرآن)

۴۔ میں نے اپنی امانت سماوات اور زمین اور پہا ڑوں کو پیش کی۔ سب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں 

ہو سکتے ۔ اگر ہم نے اس امانت کو اُٹھا لیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جا ئیں گے(ہمارا شعو ر بکھر جا ئے گا)۔اور اس اما نت کو انسا ن نے اٹھا لیا۔ (قرآن)

۵۔ میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ پس میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔(حدیثِ قدسی)


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔