Topics

اللہ میاں

جب سے نوع ِانسانی نے زمین پر آنکھ کھو لی ہے لا کھوں ،اربوں آدم زاد اس زمین سےاُبھر ے اور جب ان کی رو حوں نے جسموں سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا، اس دھر تی نے ان کے خاکی جسموں کو خاص و عام کی تخصیص کے بغیر اپنی آغوش میں سمیٹ لیا، کیا با دشاہ، کیا فقیر سب سطحِ زمین کے نیچے جا چھپے ۔ 

اسی زمین کے ایک شہر لاہور میں جہاں ایک طر ف ملکہ نور جہاں فر ش ِخاک کے نیچے موجود ہیں وہاں دو سری طرف داتا گنج بخش ہجو یری ؒ بھی محوِاستر حت  ہیں۔نو رجہاں کی قبر پر جا یئے تو وہاں افسردگی اور ویرانی کا راج ہے ۔لوگ وہاں جا تے ہیں تو  تفریح  ودلچسپی کیلئے۔ یہ وہ نور جہاں ہے جو ایک زمانے میں ہندوستان کےسیا ہ سپید کی ما لک تھی ۔اس کے بر عکس داتا گنج بخش ؒکامزار ذکرو سلام کی آوازوں سے گو نجتا ہے۔ وہاں عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کئے جا تے ہیں ۔حالانکہ داتا صاحب اپنی زندگی میں نہ دنیا وی حکو مت کے ما لک تھے نہ آپ کے پاس مال وزر کا کو ئی ڈھیر تھا ۔

ایسا کیوں ہے ؟

اس لئے کہ جو شخص اپنے اندر موجود اس رُوح سے واقف ہو جا تا ہے جو ابدیت کا پر تو اور صفات ِالٰہیہ کا مظہر ہے تو زمان و مکان اس پر اپنا پہرا نہیں بیٹھا سکتے۔ مٹی کی چپک (Gravity)ا س کو قید نہیں کر سکتی ۔ وہ ہر زمانے میں زندہ اور پائندہ ر ہتا ہے، جب وہ دنیا میں ہو تا ہے تو اس کے پاس عرفان کی دولت کے سواکچھ نہیں ہوتا لیکن لوگ اس کی طر ف کھنچ کھنچ کر آتے ہیں اور لیکن جب وہ  اس دنیا سے پر دہ کر لیتا ہے تو مخلوق پر وانے کی طر ح اس کے مر قدکے گر د طواف کر تی ہے ۔ ابدال حق قلندر بابا اولیا ءؒ ایسے ہی پا کیزہ نفس بندوں کے سرگروہ اور سرخیل ہیں ۔

 انبیاء کرام کی شخصیات دراصل ایک طر زِ فکر سے عبا رت تھیں۔ نبوت کا یہ سلسلہ خا تم النبیین حضور علیہم الصلوۃ والسلام پر ختم ہو گیا  لیکن کیوں کہ اللہ کی سنت میں نہ کو ئی تبدیلی ہو تی ہے نہ تعطل اس لئے ہر زمانے میں حضور پاکﷺ کی طر زِ فکر اوران کے علوم کے وارث ایسے بندے پیدا ہو تے رہے تا کہ نورو ظلمت کا توازن قائم رہے اور نوعِ انسانی اس طر ز فکر سے رو شنا س ہو جا ئیں جو اسے خوف اور غم سے نجات دلا تی ہے ۔

مینا رۂ نور ہدایت  رسول اللہ ﷺ کے وارث  قلندر بابا اولیا ء ؒ نےاپنے پیچھے فکر کی وہ روشنی  چھو ڑی ہے جس کی رہنما ئی میں آج کی پر یشان ذہن اور پرا گندہ دل نسل اپنے مستقبل کو سنوارسکتی ہے۔ آج نو ع ِانسانی جس ذہنی کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر انبیا ء کی طر ز فکر کا انعکاس کم سے کم ہو تا جا رہا ہے اور اس کے اپنے بنا ئے ہو ئے مفروضہ حواس نےُاسے حقیقت آگا ہی سے محروم کر دیا ہے ۔ 

قلندربابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں:

انبیا ء اکرام جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کو ئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کر تے تھے ۔ہمیشہ ان کی طرزِ فکر یہ ہو تی تھی کہ کا ئنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے جب وہ کسی چیز کی طرف مخا طب ہو تے تھے تو اس چیز کی طر ف خیال جا نے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طر ف خیال جا تا تھا۔

انہیں کسی چیز کی طر ف تو جہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہو تا تھا یہ چیز ہم سے براہ راست کو ئی تعلق نہیں رکھتی ۔اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے ۔جب ان کی طر زِ فکر یہ ہو تی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حر کت میں پہلے اللہ تعالیٰ کا احساس ہو تا تھا ۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت محسوس کے ان کا مخا طب اور مدِنظر قرار پا تا تھا اور قانون کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی صفا ت ہی ان کا احساس بنتی تھیں ۔اور ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جا تا تھا ۔ ‘‘اس اجمال کی تفصیل میں آپ نے فر ما یا :

’’اگر ہم کسی شخص سے قربت حاصل کر نا چا ہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کر نا ہو گا جوہما را مطلوب کر تا ہے۔ اگر ہم اللہ تعا لیٰ سے دو ستی اور قربت حاصل کر نا چا ہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کر نا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کر تے ہیں ۔‘‘ 

با با صاحبسے عرض کیا گیا ۔ ’’حضور ! اللہ میاں بھی کو ئی کام کر تے ہیں اور اگر کر تے ہیں تو کیا بندہ وہ کام کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کر تے ہیں ؟"

فر ما یا ۔’’اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت میں مشغول ہیں۔  مخلوق کی حفا ظت کر تے ہیں اور ان کی زند گی کے لئے وسائل فراہم کر تے ہیں لیکن اس معاملے میں مخلو ق سے کو ئی صلہ یا بدلہ نہیں چا ہتے۔ بندہ اگر چہ خالق کی سطح پر مخلوق کی خد مت نہیں کر سکتا لیکن اپنی سکت، صلا حیت بساط کے مطا بق کسی صلے یا بدلے کے بغیر وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے ۔ وہ مخلوق ہو تے ہو ئے وسائل کی احتیاج سے ما ورا نہیں ہو سکتا لیکن اپنی ہر حاجت اور ضرورت کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے وابستہ کر سکتا ہے ۔ اس طر زعمل کی وجہ سے وہ اللہ کی با دشاہت کا ایک رکن بن جا تا ہے ۔‘‘

مزید فر مایا :

’’ہر کام پو ری جد وجہد اور کوشش سے کیا جا ئے لیکن نتا ئج کو اللہ تعالیٰ کے اوپر چھو ڑ دیا جا ئے ۔‘‘

بابا صاحب ؒنے نوعِ انسان کو یاد دلا یا کہ :

"تسخیرِ کا ئنات اور جنت کی زندگی اس کا ورثہ ہے لیکن اس ورثہ کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان اس صلاحیت سے متعارف ہو جو جنت کی زندگی میں اسے حاصل تھی ۔اس صلا حیت کا حصول رو ح سے قریب ہو ئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ جو شخص اپنے اِنّر سےواقفیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ ابدی سکون و راحت کو پالیتا ہے ۔"


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔