Topics

مذہب اور ہماری نسل

حضرت عمر کی خد مت میں جب کہ وہ دربارخلافت میں تشر یف فر ما تھے ایک عورت اپنے بچے کو لیکر آئی اور اس نے کہا ۔

’’امیر المو منین ! میرا بیٹا گڑ زیادہ کھا تا ہے ۔ گھر میں گڑ نہیں ہو تا  توضد کر تا ہے ۔ اور مجھے بہت زیادہ پر یشانی اٹھا نی پڑتی ہے۔ ‘‘

امیر المومنین حضرت عمرؓ نے چند ساعت غور فرما یا اور کہا ۔’’اپنے بیٹے کو ایک ہفتے کے بعد لے کر آنا۔ ‘‘

خاتون ایک ہفتے کے بعد پھر آئی ۔ حضرت عمرؓ نے بچے کو مخا طب کر کے فر ما یا ۔

’’بیٹے گڑ کم کھا یا کرو اور ضد نہ کیا کر و۔ تمہا رے اس عمل سے تمہا ری ماں پر یشان ہو تی ہے ۔‘‘اور بچے کی ماں سے کہا ۔ ’’اس کو لیجا ؤ اب یہ پر یشان نہیں کر ے گا ۔‘‘

حاضرین ِمجلس نے عرض کیا۔

’’امیر المومنین ! اتنی سی بات کہنے کے لئے آپ نے اس عورت کو ایک ہفتےتک انتظار کی زحمت دی ۔ یہ بات آپ پہلے روز بھی فر ما سکتے تھے ۔ ‘‘

حضرت عمرؓ نے ارشاد فر ما یا ۔’’میں خودگڑ زیادہ کھا تا تھا میں نے گڑ کھا نا کم سے کم کر دیا۔ اور ایک ہفتے تک اس تر ک پر عمل کر کے اس عادت کو پختہ کر لیا ۔ پہلے ہی روز اگرمیں بچے سے یہ کہتا کہ تم گڑ کم کھا یا کرو تو اس کے اوپر میری نصیحت کا اثر نہ ہو تا۔ اب اس کے اوپر اثر ہو گا اور وہ عمل کر ے گا ۔ 

بے یقینی ، درماندگی ، پر یشانی اور عدم تحفظ کے اس دور میں جب ہم دیکھتے ہیں  کہ ہر شخص اپنے چھو ٹوں اور اپنے احباب کو برا ئی سے بچنے کی تلقین کر تا ہےاور خود اس پر عمل نہیں کر تا تو ہمارے سامنے یہ بات آجا تی ہے کہ نصیحت کا اثر اس لئے نہیں ہو تا کہ ہم خود بے عمل ہیں ۔ 

ہر طر ف یہ شور غوغا بر پا ہے کہ موجودہ نسل اسلام سے دور ہو گئی ہے ۔ اسلا ف کی پیر وی نہیں کر تی ۔ ہم کیوں نہیں سو چتے کہ موجودہ نسل کے اسلاف میں ہمارا بھی شمار ہے ۔ 

موجودہ نسل اگر تعلیماتِ رسول مقبول ﷺسے دور ہو گئی ہےتو اس میں اس کا قصور کم اور ہمارا زیادہ ہے۔ یہ کون نہیں جا نتا کہ جھو ٹ بولنا بری بات ہے نا جائز منا فع خوری چور با زاری اللہ کے بندوں کی حق تلفی ہے مگر جھو ٹ ہماری زندگی میں کا میابی  اور کامرانی کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ قرآن کی متعین کر دہ حدود سے زیادہ منافع خو ری نے ایک سائنس کا درجہ حاصل کر لیا ہے ۔ بچے جب یہ دیکھتے ہیں کہ  ہمارے والدین زبان سے اللہ اور ااس کے رسولﷺ کی تعلیمات کا پر چار کر تے ہیں اور ان کا عمل اس کے با لکل برعکس ہے تو اس کی تر قی یا فتہ ذہن میں اس کے بجز کو ئی بات نہیں آتی کہ  مذہب صرف اظہار و بیان کا نام ہے ۔عمل سے اس کا کو ئی ربط ضبط نہیں ۔ 

دنیا میں افراتفری کا ایک عالم بر پا ہے ۔ ہر شخص کسی نہ کسی الجھن میں گر فتار ہے ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے عدم  تحفظ کے احساس سے حزن و ملال کے سائے گہرے اور دبیز ہو گئے ہیں ۔ اخبارات میں آئے دن حا دثات اور انسانوں کی قیمتی جانیں ضا ئع ہو نے کی خبر یں شائع ہو تی رہتی ہیں ۔ کبھی فلک بو س عما رتوں کے سرنگوں ہو نے اور ان کے نیچے بند گا ن خدا کے ہلاک ہو نے کی دل د وز اور وحشت اثر خبر یں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ 

اس سے یہ اندازہ لگا نا دشوار نہیں ہے کہ ہم آفاتِ ارضی و سماوی کی یلغار کی زد میں ہیں ۔بظاہر ان المناک واقعات کے وقوع پذیر ہو نے کی ہم یہ توجیہہ کر تے ہیں کہ تعمیر کنند گان کی ہو س زر کی وجہ سے یہ نوبت  آئی ہے یا زمین کے اندر ردوبدل اس کا سبب ہے ۔ یہ با تیں بظا ہر کتنی ہی معقول اور وزنی ہوں لیکن ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جا ئے تو فر ما ن خداوندی کے بموجب انسانی معاشرہ میں آبا د لوگوں کے جرائم اور خطا کا ریاں ارضی و سماوی آفات اور ہلا کتوں کو دعوت دیتی ہیں ۔ 

جب کو ئی قوم قانونِ خداوندی سے انحراف اور گر یز کر تی ہے اور خیر و شر کی تفریق کو نظر انداز کرکے قا نون شکنی کا ارتکاب کر نے لگتی ہے تو افراد کے یقین کی قوتوں میں اضمحلال شروع ہو جاتا ہے ۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یقین کی قو ت بالکل معدوم ہو جا تی ہے اور عقائد میں شک اور وسواس در آتے ہیں ۔اس تشکیک اور بے یقینی کی بنا پر قوم تو ہمات میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ تو ہماتی قوتوں کے غلبے سے انسان کے اندر طرح طر ح کے اندیشے اور وسوسے پیدا ہو نے لگتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ حر ص و ہو س پر منتج ہو تا ہے۔ 

یہ حر ص و ہو س انسان کو اس مقام پر لیجا تی ہے جہاں بے یقینی اور تو ہماتی قوتیں مکمل طور پر اس کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہو جا تا ہے اور اس کی حیات کا محور اللہ تعالیٰ کے بجا ئے ظا ہری اور ما دی وسائل بن جا تے ہیں اور جب کسی قوم کا انحصار دروبست ما دی وسائل پر ہو جا تا ہے تو آفات ارضی و سماوی کا لا متنا ہی سلسلہ عمل میں آنے لگتا ہے اور با لآخر ایسی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جا تی ہیں ۔ 

ہمیں یہ نہیں بھولنا چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ شک اور بے یقینی کو دماغ میں جگہ دینے سے منع فر ما تے ہیں۔ یہ وہی شک اور وسوسہ ہے جس سے آدمؑ کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ بالآخر شیطان نے بہکا کر آدم کو شک اور بے یقینی میں گر فتارِ بلا کر دیا جس کے سبب آدم ؑکو جنت کی نعمتوں سے محروم ہو نا پڑا ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔