Topics

خود فرامو شی

ہم کیا تھے ، کیا ہیں اور کیوں ہیں ۔؟

یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر ذی فہم اور با شعور آدمی کے ذہن میں گشت کر تے رہتے ہیں ۔ اور جب اُن کا شافی اور کا فی جواب نہیں ملتا تو بہت سے لوگ گم کر دہ راہ ہو جا تے ہیں ۔ کچھ نہ سمجھنے کی پاداش میں نہ صرف یہ کہ خود فر اموشی ان کے اوپر مسلط ہو جا تی ہے، وہ اس ہستی کی بھی نفی کر دیتے ہیں جو اس سا رے کا رخانے کی مشینوں کے ایک ایک پر زے کو حیات  (Energy) بخش رہی ہے ۔ وہ لا زوال ہستی جو ایک قطرہ خون کو اتنا طا قتور اور عقل و شعور سے آراستہ و پیراستہ کر دیتی ہے کہ خلا اس کی گر فت میں آجا تا ہے ، ستاروں پر کمند ڈالنا اس کے لئے کھیل بن جا تا ہے۔ یہی قطرہ خون جب چا ہتا ہے تو ایک نا قابل تذکرہ ذرہ کو اتنی اہمیت دے دیتا ہے کہ ایک ذرے کی قیمت لا کھوں جیتے جا گتے آدمیوں سے زیادہ ہو جا تی ہے ۔

اور جب تعمیری شعور بر وئے کا ر آتا ہے تو یہی ایک قطرہ پھیل کر آسمانوں کی رفعت سے بھی اونچا او ر سر بلند بن جا تا ہے ، کا ئنات اس کے لئے مسخر ہو جا تی ہے اور یہ فر شتوں کا مسجود قرار پاتا ہے ۔ تعمیر و تخریب کے اس دو رخ پہلو میں بھی ذرہ بے  مقدار اسفل میں گر تا ہے تو اخلا قیات کی تمام حد بندیاں ریزہ ریزہ ہو جا تی ہیں۔ حرص و حوس اور معیارِزندگی کاعفریت اس کی کمزوری بن جاتا ہے ۔ہر اس کام میں اس کا ذہن مر کو ز ہو جا تا ہے جو اخلا قی دائرے سے با ہر ہے۔ ایسی ایسی اختراعات و ایجا دات ذہن میں آتی ہیں جوا بلیسیت کا شاہکار ہو تی ہیں ۔اور دماغ کی تمام تعمیری صلا حیتیں تخریب کا لباس پہن کر اللہ کی زمین پر فساد بر پا کر دیتی ہیں ۔

بلا شبہ آج کا دور اس کا بّین ثبوت ہے ۔ کس قدر المناک ہے یہ بات کہ رمضان المبارک کے مہینے میں رو زانہ ایسی خبر یں سامنے آتی رہیں کہ لگتا ہےکہ ہم معاشرے کے ٹھکرائے ہو ئے  اور کچلے ہو ئے افراد ہیں ۔اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کی زبوں حالی میں ہمارے نو نہال ملوث ہیں تو دل میں ایک ہو ک سی اٹھتی ہے اور  یہ آواز ابھر تی ہے  کہ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم نے اپنی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے ۔ ہم نہیں سو چتے کہ وہ کو نسی تعلیم ہے جس کے حاصل ہو نے کے بعد انسان کو سکون ملتا ہے ،راحت ملتی ہے اور سر شاری اس کے انگ انگ میں جذب ہو جاتی ہے ۔

وہ کون سی زندگی ہے جس کے حامل کو  عدم تحفظ کا احساس نہیں ہو تااور وہ احساس کمتری کے بھیانک تاثرات سے محفو ظ  و ما مون رہتا ہے ۔ اسکے اوپر کسی قسم کا خوف نہیں ہو تا اور نہ وہ خود کو غم و آلا م کی دبیز چا در میں لپٹا ہوا محسوس کرتا ہے ۔


پر یشانی یہ ہے ، مو جودہ نسل اتنی با شعور ہو چکی ہے کہ اس  کے لئے کو ئی بات اس وقت قابل قبول ہے جب اسے فطرت کے مطا بق پیش کیا جا ئے ۔ سائنس کی تر قی نے انسانی شعور کو بڑی حد تک بالغ کر دیا  ہے۔ ہماری نسل کے با لغ اور با شعور افراد جب اپنے اسلاف کے ورثۂ علم کو فطری قوانین اور سائنسی تو جیہات کے مطا بق سمجھنا چا ہتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا جا تا ہے کہ  مذہب چوں چرانہیں چاہتا حالانکہ قرآن کر یم ہر ہر قدم پر تفکر کی کھلی دعوت دے رہا ہے ۔ دو سری طر ف جب وہ اپنے ان بزرگوں کی زندگی کا مشاہدہ اور تجز یہ کر تے ہیں جن کے کندھوں پر تر بیت کی ذمہ داری ہے تو یہ دیکھ کروہ شدید احساسِ محرومی میں مبتلا ہو جا تے ہیں کہ قال اور حال میں ایک حد قائم ہے۔اس طر ح وہ کبیدہ خا طر ہو کر وہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں جو ہمارے حق آشنا بزرگوں سے ہم آہنگ نہیں ہو تا ۔ ہم بحیثیت بزرگ بار با راعلان کر تے ہیں کہ  نوجوان نسل کے ذہنوں سے بز رگوں کے لیے  ادب و احترام اٹھ گیا ہے۔ ان کے اندر وہ اخوت و محبت نہیں رہی جس کے اوپر ایک مثالی معاشرہ  تعمیر کیا جاتا ہے ۔

خدارا! اپنے گر یبان میں منہ ڈالئے یہ بھی تو دیکھئے کہ ہمارے قول و فعل میں کتنا تضاد واقع ہو چکا ہے۔ اس کے با وجود کہ ہم اپنا اختیار استعمال کر کے اس منا فقانہ زندگی کو بدل سکتے ہیں، ہم ہا تھ پر ہا تھ رکھے بیٹھے ہیں ۔ہم جو کچھ خود نہیں کر سکتے اس کی تو قع اپنی اولا د سے کیوں کر تے ہیں ۔ آج اگر ایک باپ جھوٹ کے ملمع شدہ زندگی میں قید ہے تو وہ اولاد سے کیوں کر توقع کر سکتا ہے  کہ وہ سچی اور حق آشنا زندگی گزارے گی ۔ 

ہمارا حو صلہ کم ہے۔ ہم ہیرا پھیری کر کے چو ری کر تے ہیں ۔ نوجوان خون اس منا فقانہ طر ز عمل کو مہمیز دیتاہے اور مسجد میں تر اویح پڑھنے والوں کی گا ڑیاں چرا لیتا ہے اور کسی قتل میں ملوث ہو جا تا ہے تو ہم شور کر تے ہیں نوجوان نسل بے راہ ہو گئی ہے ۔ ہمارے بچے ماں کے پیٹ سے قاتل ،چور ، ذخیر ہ اندوز ، منا فق، اسمگلر پیدا نہیں ہو تے انہو ں نے اپنے بزرگوں کو جو کچھ کر تے دیکھا ہے ، تر قی دے کر اسے فن بنا دیا ہے ۔ اخبارات کے پورے پورے  کالم اور کئی کئی سو صفحات کی کتا بیں لکھی جا رہی ہیں کہ اس سے نوجوان نسل کی اصلاح مقصود ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ رشدو ہدایت کے ان طوفان خیز دعووں کے ساتھ اگر نوجوان نسل کے بڑوں نے اپنی اصلاح نہیں کی تو حالات نہیں سدھریں گے ۔ ہم یہ بات کیوں بھول رہے ہیں کہ بچہ جب پیدا ہو تا ہے تو ا س کاذہن سادہ ورق کی طر ح ہو تاہے ۔ وہ وہی عادت و اطوار اختیار کر تا ہے جوماحول میں رائج ہیں ۔ایک فر د واحد بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ بچہ وہی زبان بو لتا ہے جو اس کے ماں باپ بولتے ہیں ۔ 

ماحول کو سنوارنے اور سدھارنے کے لئے یہ امر لا زم ہے کہ ہم پہلے اپنی اصلا ح کر یں ۔اپنے قول و فعل اور کر دار سے یہ ثابت کر دیں  کہ ہم معاشرے کے ان افراد میں سے ہیں جو ہدایت یا فتہ اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔ دراصل ہمارے نونہال من حیث القوم ہمارے کردار کی منہ  بولتی تصویر ہیں ۔


پاک و  بلند مرتبہ ہے وہ ذات  جس نے ہمیں معین مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور ان مقداروں کو ان اوصاف حمیدہ سے زینت بخشی جو بحیثیت خلق کل اسے پسند ہے۔ وہی ہے جس نے ہمیں بر گز یدہ گر وہ میں شامل کیا جس سے وہ خوش ہوا اور ہمیں تو فیق دی کہ ہم اپنے رب کو پکا ریں اور رو زہ رکھیں وہ رو زہ جس کی  جزا خود اللہ ہے ۔ 

سعید ہیں وہ لوگ جنہوں نے رمضان المبارک کی سعادتوں کو حاصل کیا ۔ دن میں اور رات میں حضور قلب سے اللہ کی طر ف متوجہ رہے اپنے بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور ان کی خدمت انجام دی ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔