Topics

قلندر بابا اولیا ء ؒ

جمعہ کی نماز کے بعد نمازی مسجد سے با ہر آئے تو دیکھا کہ ایک صاحب مذہبی لٹیریچر تقسیم کر رہے تھے ۔ لوگ اس لٹر یچر کو حاصل کر نے میں کچھ ایسی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ لگتا تھا شیرینی تقسیم ہورہی ہے ۔ میرے ہاتھ بھی ایک کتاب لگی ۔ جب میں وہاں سے چلا تو پیچھے سے ایک دوست نے آواز دی اور کہا آئیے کہیں چل کر بیٹھتے ہیں ،ان مذہبی کتابچوں پر بحث کر یں گے ۔ میں نے کہا بھئی ،میں فقیر آدمی ہوں ۔ مجھے بحث سے کیاکام ، میرا مسلک انسانیت اور مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔خدمت کر نے والا بندہ اختلافی مسائل میں نہیں الجھتا ۔لیکن دو ست کے اصرار وزور زبر دستی سے ہم دونوں ایک ہو ٹل میں جا بیٹھے ۔دوست بو لاکہ مذہب محض پا بندی کانام ہے ، یہ نہ کر و،وہ نہ کرو اوریہ  پابندی بھی ایسی ہستی سے منسوب کی جا تی ہے جو نظر نہیں آتی اس نظر نہ آنے کو آپ غیب کہتے ہو ۔میں نے جا ن چھڑا نے کے لئے ان سے بہت معذرت کی اور کہامیرے بھا ئی، مذہب اور غیب یہ دونوں عنوان ایسے ہیں جو یقین سے تعلق رکھتے ہیں اور یقین اس وقت تک مکمل نہیں ہو تا جب تک کہ مشاہدہ نہ بن جا ئے ۔ جہاں تک اس ہستی کا تعلق ہے جس ہستی سے مذہب اور غیب کو منسوب کیا جا تا ہے وہ اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ جب چا ہے اپنا مشاہدہ کر ادے ۔نہ چا ہتے ہوئے بھی بحث کا آغاز ہو گیا اور مجھے قلندربابا اولیا ء ؒ کی ٹیپ شدہ ایک بات یاد آگئی۔

ابدال حق ،حسن اخریٰ محمد عظیم بر خیا قلندر بابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں :

رو حانیت میں لا تنا ہیت کی اَنا خصوصیت رکھتی ہے اور لا زمانیت کی اَنا بھی تذکرے میں آتی ہے۔ رو حانی اقدار سے متعلق جتنے علوم اب تک زیرِ بحث آئے ہیں، ان سب علوم میں کائنات جو مظاہر میں اہمیت رکھتی ہے وہ بعد کی چیز ہے۔ پہلے مخفی اور غیب کو زیرِ غو ر لا یا جا تا ہے اور مخفی اور غیب ہی کو سمجھنے کی کو شش کی جا تی ہے ۔ اگر مخفی اور غیب سمجھنے  میں آسانی ہو نے لگے تو مظاہر کس طر ح بنتے ہیں ، مظاہرکے بننے اور تخلیق ہو نے کے قوانین کیا ہیں۔ یہ ساری با تیں آہستہ آہستہ ذہن میں آنے لگتی ہیں اور فکر ان کو اسی طر ح محسوس کر تی ہے جس طر ح بہت سی با تیں جو انسان کے تجر بے میں نو عمری سے ہوش کے زمانے تک آتی رہتی ہیں ۔ان میں ایک خاص فکر کا ارتباط رہتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو جو غیب سے متعلق ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت سے نام دئیے ہیں اور انبیاء نے ان نا موں کا تذکرہ کر کے ان کے اوصاف کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے ۔قرآنِ پاک سے پہلی کتا بیں بھی ان چیزوں پر رو شنی ڈالتی ہیں لیکن ان کتابوں میں جستہ جستہ تذکرے ہیں ۔زیادہ تفصیلات قرآنِ پاک میں ملتی ہیں۔ قرآن پا ک کی تفصیلات پر جب غور کیا جا تا ہے تو یہ اندازہ ہو تا ہے کہ غیب مظاہر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ غیب کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔مذہب یا دین جس چیز کو کہتے ہیں وہ غیب ہی کے  BASE  پر منحصر ہے ۔ مظاہرے کا تذکرہ مذہب میں ضرور آتا ہے لیکن ثانویت رکھتا ہے ۔اس کو کسی دور میں بھی اولیت حاصل نہیں تھی ۔مادی دنیا اسے کتنی ہی اولیت دے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اسی طرز پر سوچنے لگی ہے مثلاً موجودہ دور کے سائنسداں بھی غیب کو اولیت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ وہ کسی چیز کو فرض کر تے ہیں فرض کر نے کے بعد پھر نتا ئج اخذ کر نے کی کوشش کر نے میں لگ جا تے ہیں ۔ اور جب نتا ئج اخذ کر تے ہیں تو ان تمام چیزوں کو حقیقی ، لا زمی اور یقینی قرار دیتے ہیں جیساکہ بیسویں صدی میں الیکٹران کا کردار زیرِ بحث ہے ۔ الیکڑان کےبارے میں سائنسدانوں  کی ایک ہی رائے ہے ۔کہ وہ بیک وقت AS A PARTICLE اور BEHAVE , AS A WAVE کرتا ہے اب یہ غور طلب ہے کہ جو چیز محض مفروضہ ہے وہ بیک وقت دو طر ز پر عمل کر رہی ہے اس کے عمل کو یقینی تسلیم کیا جا ئے ۔ وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہالیکٹران کو نہ آج تک دیکھا گیا ہے اور نہ آئندہ اس کے دیکھنے کی امید ہے ۔لیکن ساتھ ہی وہ الیکٹران کو اتنی ٹھوس حقیقت تسلیم کر تے ہیں جتنی ٹھوس کو ئی حقیقت اب تک نوع انسانی کے ذہن میں آسکی ہے یا نوع انسانی جس حقیقت سے اب تک رو شناس ہو سکا ہے ۔اب ظا ہر ہے کہ صرف مفروضہ ان کے ذہن میںہے ۔ اور مفروضہ سے چل کر وہ ایسی منزل تک پہنچ جا تے ہیں جس منزل کو اپنے لئے ایجاد ات اور بہت زیادہ اہمیت کی اور کا میابی کی منزل قرار دیتے ہیں ۔اس اہم منزل کو وہ نوع انسانی کے عوام سے رو شنا س کر نے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں ۔کئی مر تبہ ایسا ہو تا ہے کہ جن حقائق کو وہ حقائق کہہ کر ایک مر تبہ پیش کر چکے ہیں ۔چند سال کے بعد یا زیادہ مدت کے بعد وہ ان حقائق کو رد کر دیتے ہیں  اور رد کر کے نئے طوراطوار کے نئے فا رمولے لے آتے ہیں اور اننئے فا رمولوں کو پھر انہی حقائق کا مر تبہ دیتے ہیں ۔جن حقائق کا مر تبہ پہلے وہ ایک حد تک بر سہا برس کسی بھی ایک رد شدہ چیز کو دے چکے تھے ۔ظاہر ہے کہ غیب کی دنیا ان کے لئے اولیت رکھتی ہے حالانکہ وہ محض ما دہ پر ست ہے ۔اور خود کو ما دیت کی دنیا کا پر ستار کہتے ہیں ۔وہ ایک لمحے کے لئے یہ تسلیم کر نے کو تیار نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا غیب کی دنیا کو ئی چیز ہے یا کو ئی اہمیت رکھتی ہے یا اس کے کو ئی معنی ہیں یا قابل تسلیم ہے یا اس کو نظر انداز کر نا مناسب نہیں ہے ۔ اس قسم کے تصورات جن کو ما دیت کہنا چا ہئے ان کے ارد گر د جمع رہتے ہیں اور جب کبھی کسی غیب کا تذکرہ کیا جا تاہے تو وہ ہمیشہ ایک ہی مطا لبہ کر تے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب تک DEMONSTRATION نہ کیا جا ئے اس وقت تک ہم کسی غیب سے متعارف ہو سکتے ہیں اور نہ کسی غیب سے متعلق یقین کر نے کو اور یہ سمجھنے کو کہ غیب  کو ئی خبر ہو سکتا ہے ہم تیا ر ہیں یا یہ کہ ہم سائنس کی دنیا میں نظر یہَ غیب  کو یا غیب کے تذکرے کو کوئی جگہ دینے کے لئے آمادہ ہیں۔بہر کیف وہ جس طر ح بھی کہتے ہیں یہ  توصرف طر ز فکر ہے اور طر ز گفتگو ہے ۔ لیکن عملی دنیا میں اور تفکر کی عملی منزل میں وہ اسی مقام پر ہیں جس مقام پر ایک آدمی غیب پر یقین کر نے والااللہ تعالیٰ کی ذات کو پیش کر تا ہے اور ان تماما یجنسیوں کو تسلیم کر ناہےجن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کیا ہے اور وہ ایجنسیاں جو شرط ایمان ہیں اور کسی ایسے شخص کو جو اللہ کو مانتا ہے اپنا تسلط رکھتی ہیں ۔اور ان تمام ایجنسیوں ان تمام ہستیوں کو وہ ایسی زندہ حقیقت اور ایسی ٹھوس معنویت تسلیم کر تا  جیسےکہ مادہ پر ست کسی پتھر کی یا معدنی کسی ایسے مظاہر کے متعلق چیز کو تسلیم کر تے ہیں جو ان کے سامنے بطور مشاہدے کے ہمہ وقت سامنے رہتی ہے ۔ اور جس کو یہ چھو تے ، چکھتے، دیکھتے اور سمجھتےہیں۔ جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں تغیر ہے ،اس میں توازن ہے، اس میں ایک امتزاج ہے ،اس میں تا ثر ہے، اس میں قوت ہے اور جس قسم کی چیزیں وہ ما دیت کی دنیا میں دیکھتے ہیں ان تمام چیزوں کا وہ اسی طر ح تذکرہ کر تے ہیں  اور ان پر ایک خاص طر ز سے ایمان رکھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں ایک خدا کا پرستار جس طرح غیب پر ایمان رکھتا ہے ۔بالکل اسی طرح مادے کا پرستار مادیت کی دنیا پر یقین رکھتا ہے ۔نہ خدا پر ست کو غیب کی دنیا پر ایمان رکھے بغیر چا رہ ہے اور نہ ما دیت پر ست کو ما دے پر ایمان لا ئے بغیر مفر ہے ۔دونوں ایک نہ ایک طرز رکھتے ہیں۔ اور ان میں یہ چیز مشترک ہے کہ اس طر ز پر ان کا ایمان اور ایقان ہو تا ہے۔ اسی ایمان اور ایقان کو یہ زندگی کہتے ہیں۔ اصل میں کہنے کی بات یہ ہے کہ کو ئی زندگی بغیر ایمان و ایقان کے نا ممکن ہے خواہ کسی خدا پر ست کی زندگی ہو یا مادہ پرست کی۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔