Topics

آتش با زی

آئیے ! آج کی نشست میں اپنامحاسبہ کر یں اوریہ دیکھیں کہ ہمیں اطمینانِ قلب کیوں نصیب نہیں ہے ۔ اور عدم تحفظ کا احساس ہمارے اوپر کیوں مسلط ہے ۔ 

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر شخص خیالات میں غلطاں و پیچا ں ، اردگرد سے بے نیاز چہروں پر غم وآلام کی تصویریں سجا ئے اپنی دنیا میں مگن ہے تو دل بے قرار ہو جاتا ہے ۔ یہاں وہ بھی پر یشان ہے جس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ بھی دل گرفتہ ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہے ۔ بیماریوں ، پریشانیوں ، خود نمائی اور احساس کمتری کے دبیز سایوں نے ہمیں اپنی گر فت میں  لیا ہوا ہے ۔ غر ض جتنے لوگ ہیں ان کے اتنے ہی مسائل ہیں ۔ مگر ایک بات سب میں مشترک ہے کہ سکون کسی کو حاصل نہیں ہے۔ سب کے ما تھوں پر بے اطمینانی، عدم  تحفظ اور محرومی کی شکنیں پڑی ہو ئی ہیں ۔ سب شکست خوردہ اور نفرت وحقارت کی تصویر بنے ہو ئے ہیں ۔ دولت کی ہو س اور معیار زندگی بلند سے بلند ہو نے کے تقاضوں نے اولادِ آدم کے لئے دنیا کو دوزخ بنا دیا ہے ۔ اقوام عالم میں اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے انسانی فلاح و بہبود کے نام پر اربو ں کھر بوں روپے آسمانی آتش با زی میں تبا ہ کر دیے جبکہ نوع ِانسانی کی بڑی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے ۔ 

آج یہ منفی سوچ اتنی زیادہ عام کیوں ہے کہ آدمی ان چیزوں سے خوش نہیں ہو تا ۔جو اسے حاصل ہیں ۔ ان خواہشات کے پیچھے کیوں سر گرداں ہے جن کے حصول میں وہ اعتدال کی زندگی سے رو گردانی پر مجبور ہے ۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم صبرو استغنا کی نعمت سے محروم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے ۔

اس کا مفہو م یہ ہے کہ جو لوگ صابر و شاکر اور مستغنی نہیں ہیں وہ اللہ سے دور ہو جا تے ہیں ۔ اللہ سے دوری سکون و عافیت اور اطمینانِ قلب سے محرومی ہے ۔ یہ محرومی صبرو استغنا کی لذت سے نا آشنا کر دیتی ہے ۔ صبرو استغنا وہ تلوار ہے جس سے ہم مسائل و مشکلات اور عد م  تحفظ کی زنجیریں کا ٹ کر پھینک سکتے ہیں۔ جب کسی فر د کو صبرواستغنا ء کی دولت مل جا تی ہے تواس پر سے مصائب و مشکلا ت کی گر فت ٹوٹ جا تی ہے اور جب من حیثٖ القوم، صبر واستغنا کسی قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو  معاشرہ سدھر جاتا ہے۔ قومیں حقیقی فلاح و بہبود کے راستوں پر گامزن ہو جا تی ہیں ۔ 

یاد رکھئے ! سکون ِدل اور خوشی کوئی خارجی شئے نہیں ہے یہ ایک اندرو نی کیفیت ہے جب اس اندرونی کیفیت سے ہم وقوف حاصل کر لیتے ہیں تو ہمارے اوپراطمینان و سکون کی بارش بر سنے لگتی ہے ۔بندہ اس ہمہ گیر  طرزِ فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں ، پر یشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رستگاری حاصل کر کے اس حقیقی مسرت و شادما نی سے واقف ہو جا تا ہے جو اس طر زفکر کے حامل بندوں کا حق اور ورثہ ہے ۔

آسمانی صحائف اور تمام الہا می کتا بوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات محبت کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ تخلیقی کا ئنات کے فا رمولوں پر تفکر کیا جا ئے تو زندگی کا ہر شعبہ محبت اور خلوص کا پیکر نظر آتا ہے۔ انسان جس کے لئے یہ ساری کائنات بنا ئی گئی اس کی ساری زندگی ازل تا ابد دو رخوں پر قائم ہے ایک رخ وہ ہے جو انسان کو خالق کائنات سے قریب کر تا ہے اور دو سرا رخ وہ ہے جو بند ے کو  اپنے خالق سے دور کر دیتا ہے ۔ 

حدیث قدسی میں ہے کہ  اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں میں چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ میں پہچانا جاؤں ۔ یہ بات محلِ نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں کہ  میں نے محبت کے ساتھ تخلیق کیایعنی اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا واحد ذریعہ محبت ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور کر نے والا جذبہ محبت کے خلاف نفر ت ہے ۔ قرآن پاک کی تعلیمات اور حضور پاک ﷺ  کی زندگی نوعِ انسانی کے لئے مشعلِ راہ ہے ۔ انبیا ء اکرامؑ کا مشن یہ رہا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی ذہنی  تر بیت اس نہج پر کر یں کہ ان کے اندر آپس میں بھا ئی چا رہ ہو ، ایثار ہو ، خلوص ہو اور وہ ایک دو سرے سے محبت کر یں ۔ 

جس معاشرے میں محبت کا پہلو نما یاں ہوتا ہے وہ معاشرہ ہمیشہ پر سکون رہتا ہے اور جس معاشرے میں بیگا نگی اور نفرت کا پہلو نمایاں ہو تا ہے اس معاشرے کے افراد  ذہنی خلفشار اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں ۔ 

محبت سراپا اخلاص ہے ۔ نفرت مجسم غیظ و غضب اور انتقام کے خدو خال پر مشتمل ہے ۔ غصہ بھی نفرت کی ایک شکل ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے جو لوگ غصہ کو کھا تے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے احسان کر نے والے بندوں سے محبت کرتا ہے ۔نفرت کا ایک پہلو تعصب بھی ہے۔ حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص تعصب پر جیا اور مرا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ یعنی تعصب کر نے والا کوئی بندہ حضور  علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفا عت سے محروم رہتا ہے ۔

محبت کیوں کہ پر سکون زندگی اور اطمینان قلب کا ایک  ذریعہ ہے اس لئے کو ئی انسان جس کے اندرمحبت کی لطیف لہریں دورکرتی ہیں وہ مصائب اور مشکلات اور پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے چہرے میں ایک خاص کشش پید اہو جا تی ہے اسکے بر عکس نفرت کی کثیف ، شدید اور گر م لہریں انسانی چہرے کو جھلس دیتی ہیں بلکہ اس کے دما غ کو اتنا بو  جھل ،پریشان اور تاریک کر دیتی ہیں  کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ زندگی میں کام آنے والی لہریں مسموم اور زہر یلی ہو جا تی ہیں ۔اسزہر سے انسان طر ح طر ح کے مسائل اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جا تا ہے ۔ 

نفرت سے پیدا ہو نے والے امراض کی اگر تفصیل بیان کی جا ئے تو وہ بہت ہی بھیانک ہے ۔ نفرت سے پیدا ہو نے والی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ انسان اپنے خالق سے دور ہو جا تا ہے اور یہ دوری اسے اشرف المخلوقات کے دائرے سے نکال کر حیوانیت اور درندگی کی صف میں لا کھڑا کر تی ہے ۔ نفرت انسانی چہرہ کو مسخ کر دیتی ہے اور اس جذبہ شیطنت سے آدمی کے اندر  جو بیماریاں جنم لیتی ہیں وہ سرطان ہے ، بھگندر اور فسچو لا ہے اور ایسے لا علاج متعدد امراض ہیں جن میں گر فتار ہو کر آدمی سسک سسک کر مر جا تا ہے۔ 


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔