Topics

نفس کی معرفت


                نفس کی صفت ہے کہ وہ شہوتوں میں منہمک رہتا ہے اور طاعتوں سے باز رہتا ہے۔ اس کو ریاضتوں اور مجاہدوں سے رام کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے مرید کا ثابت قدم ہونا ضروری ہے۔ مرید کو چاہئے کہ نفس کی مخالفت میں ثابت قدم رہے۔ بری عادتیں اس سے چھڑائے، جن باتوں سے وہ گریز کرتا ہے اس کو کرنے کے لئے آمادہ کرے اور شہوتوں سے اسے منع کرے۔ کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا یہ ایسی عادات ہیں جس سے نفس پر چوٹ پڑتی ہے۔ مرید کے لئے لازم ہے کہ نفس کو مجاہدات کا خوگر بنائے اور دیکھے کہ کہاں کچھ زیادتی ہے اور کون سی بات اس کے لئے مفید اور کونسی بات اس کے لئے مضر ہے۔

                مرید کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کی نگہداشت کرتا رہے اور اس کے اخلاق کو پہچانے۔ حضرت واسطیؒ نے بیان کیا ہے کہ نفس ایک بت ہے اس کی طرف رغبت سے دیکھنا شرک ہے اور اس کے بارے میں غور کرنا اور سوچنا عبادت ہے۔ نفس کو اگر چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنی خواہشات کا ارتکاب کرتا ہے اور بھلائیوں سے دو گراں ہو جاتا ہے۔ طالب کو یہ جاننا چاہئے کہ نفس اپنے دعویٰ میں اللہ کی ضد اور اپنے مطالبے میں اس کا ہمسر ہونا چاہتا ہے اور یہ اس طرح کہ اللہ نے اپنے بندوں سے کہا ہے کہ وہ اس کی حمد و ثناء کریں لیکن نفس اپنی تعریف پسند کرتا ہے۔ خدا نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے حکم کو مانیں اور اس کی منع کی ہوئی باتوں سے باز رہیں لیکن نفس یہ چیزیں اپنے لئے طلب کرتا ہے۔ خدا نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ بندے اس کی سخاوت و کرم کی توصیف کریں لیکن نفس یہ توصیف اپنے لئے چاہتا ہے۔ خدا نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ بندوں کے پاس مرغوب ہو اور بندے اس سے محبت کریں لیکن نفس اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ مرید پر لازم ہے کہ وہ اخلاق نفس کو بدلنے کی کوشش کرے جیسا کہ کبر، کینہ، حرص، لڑائی، جھگڑا، غیبت، اختلاف، بدگمانی، بے ایمانی، بے شرمی وغیرہ۔

                کہا گیا ہے کہ انسان کے نفس کی خود پسندی اس کی عقل کی خرابی کی دلیل ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین میں برتری نہیں چاہتے اور نہ فساد کے درپے ہیں۔

                امام شافعیؒ کا قول ہے کہ اپنے نفس پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ایسے شخص کی تواضع کرے جو اس کی عزت نہ کرتا ہو اور ایسے شخص کی محبت کی رغبت کرے جو اس کو کوئی فائدہ نہ پہنچاتا ہو اور ایسے شخص کی تعریف کو قبول کرے جو اس کو نہیں جانتا۔

                سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افعال کے عیوب پر نظر رکھے اور رعونت نفس کو دور کرے اور اس کے لئے عملاً جدوجہد کرے۔ اپنا محاسبہ کرنے کی عادت اپنائے اور دیکھے کہ کہاں کچھ زیادتی ہے۔

                نفس کی مثال ایک انگارے کی سی ہے جس کا رنگ تو اچھا ہے لیکن اس کا کام جلانا ہے۔ اگر نفس کے ساتھ سختی ہوتی ہے تو وہ توبہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اگر اس کو چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنی خواہشات کا ارتکاب کرتا ہے اور بھلائیوں سے روگرداں ہو جاتا ہے۔

                حضرت امام ربانی محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ حسنہ کا ایک مجموعہ آپ کے خلیفہ خاص حضرت عفیف الدین مبارک نے جمع کیا۔ ایک خطبہ میں آپ فرماتے ہیں:

                ‘‘اے وہ شخص! جس کا دین شکستہ ہو گیا ہے اولیاء اللہ کی طرف قدم بڑھا تا کہ وہ تیری شکستگی کی بندش کریں اور اپنی روحانی صحت و اصلاح سے ناامید نہ ہو کہ جس اللہ نے بیماری اتاری ہے وہی دوا بھی اتارتا ہے۔ باقی رہا بیماری میں مبتلا کرنا تو یہ خاص مصلحت کی وجہ سے ہے اور وہ مصلحت کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ تو اپنے رب پر اس کے فعل میں ہمت مت رکھ اور اپنی مرضی کو اللہ کی بے توجیہی مت قرار دے کہ الزامات اور ملامت کے لئے تیرا نفس دوسروں کی نسبت زیادہ مستحق ہے۔ پس اپنی مرضی کا سبب اپنے نفس کی گندگی و شرارت کو قرار دے۔ اور نفس سے کہہ دے کہ عطا تو اس کے لئے ہوتی ہے جو اطاعت کرے اور غصہ اس کے لئے ہوتا ہے جو مصیبت کرے۔ پس اگر تو مصیبت نہ کرتا تو امراض کی لاٹھیاں نہ کھاتا اور جو نیکو کار مبتلائے امراض و افکار ہوتے ہیں تو یہ ان کے مراتب کی ترقی کے لئے ہوتا ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی صحت اور دولت چھین لیتا ہے پس اگر وہ صبر کرتا ہے تو اس کو رفعت بخشتا، خوش عیشی نصیب فرماتا، عطا ؤں سے نوازتا اور سرمایہ عطا کرتا ہے۔

                اے مخاطب! شیطان نے جو تیرے اندر پھونک مار دی ہے اور یہ سمجھا کہ تجھ کو کپے کی طرح پھلا دیا ہے کہ تُو تو عالم ہے تجھے کسی کی غلامی و بیعت کی ضرورت ہی کیا؟ میری نصیحت مان اور اسی پر مغرور نہ ہو کہ یہ نفس کا حملہ ہے لہٰذا نفس کے تیروں سے شکست مت کھا اور خوب سمجھ لے کہ نفس تجھ پر تیر چلا رہا ہے کیونکہ شیطان کو تجھ پر نفس ہی کے راستے سے قدرت حاصل ہوتی ہے۔ پس اگر نفس کا چلایا ہوا خود پسندی کا تیر کارگر ہو گیا تو شیطان تجھ پر مسلط ہو کر تجھے برباد کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ نفس ہو یا بدہم نشین ان کو شیطان اپنی کارگزاری کا آلہ بنایا کرتا ہے۔

                حضرت ابوالقاسم نیشا پوریؒ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے نفس کو مؤدب نہ بنا سکے اسے واقف ادب نہیں کہا جا سکتا۔

                سید حسن رسول نما صاحب علیہ الرحمتہ کو بی بی صاحبہ نے ایک روز کہا کہ لوگوں کو حضرت رسول خداﷺ کی زیارت تم کرا دیتے ہو میں چاہتی ہوں کہ یہ سعادت مجھ کو بھی نصیب ہو۔ فرمایا کہ آج تم نہا ؤ اور اچھی پوشاک پہن کر دلہن کی طرح خوب بنا ؤ سنگھار کرو۔ انہوں نے حسب ایماء تعمیل کی اتنے میں اس نیک بخت بی بی کے بھائی تشریف لائے، سید حسن صاحب نے کہا۔ میاں زاد ذرا اپنی بہن کو سمجھا ؤ۔ دیکھو بڑھاپے میں کیا بنا ؤ سنگھار کیاہے۔ میں تو بڈھا ہو گیا۔ اب کیا دوسرا شوہر کرے گی۔ وہ جا کر دیکھتے ہیں تو فی الحقیقت نہایت سج دھج سے دلہن بنی بیٹھی ہے۔ کہا کہ اے بہن تم پر کیا پتھر پڑ گئے۔ یہ کیا روپ بنایا ہے۔ بھائی سچ فرماتے ہیں کیا تم کو اس بڑھاپے میں دوسرے خاوند کی ہوس ہے۔ یہ بات سنتے ہی اس نیک بخت بی بی نے چوڑیاں توڑ دیں، کپڑے پھاڑ ڈالے اور رو رو کر اپنا برا حال کر لیا کہ اس بڈھے نے مجھ سے تو کیا کہا اور بھائی سے کیا کہہ دیا۔ اسی رونے پیٹنے اور غم و غصہ کی حالت میں آنکھ لگ گئی اور آنحضرتﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئیں۔ اٹھیں تو نہایت بشاش و ہشاش اٹھیں۔ سید صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا بھید تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تیرے دل میں غرور تھا تو مجھ کو حقیر جانتی تھی۔ جب وہ جاتا رہا اور سوز و گداز تیرے دل میں پیدا ہوا تو زیارت ہو گئی۔ غرض یہ ہے کہ طالب جب تک انانیت سے نہیں گزرتا دراصل مطلوب نہیں ہوتا۔

نیست از خود شو کہ تایا بی نجات

چون تو برخیزی نشیند حق نجات

                ترجمہ: اپنی نفی کر تا کہ تو نجات پائے جب اٹھ گیا تو حق نجات پا گیا۔

                حضرت ابراہیم قندزیؒ نے دعا کی کہ بارخدایا میرے واسطے جو کچھ عذاب مقدر ہے سو دنیا ہی میں بھگت جاوے۔ چنانچہ ان کو مرض جذام ہو گیا۔ قبرستان میں ایک قبر کھودی وہیں پڑے رہتے۔ ایک دن کھجوروں کے باغ میں پہنچے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے باپ کا تھا۔ خواجہ صاحب ان دنوں نو دس برس کے تھے۔ کچھ کھجوریں توڑ کر پیش کیں۔ فرمایا کہ بیٹا میرے ہاتھ نکمے منہ زخمی ہے تو ہی اپنے ہاتھ سے کھلا دے۔ انہوں نے کھلانی شروع کیں جو گٹھلی پھینکتے یہ اس کو اٹھا کر کھا جاتے تھے۔ آپ نے معلوم کیا کہ یہ لڑکا ہونہار ہے۔ کھجوریں کھا کر فرمایا کہ جا ؤ مکہ معظمہ سے تحصیل علم کر کے واپس آ ؤ تا کہ تمہاری امانت جو ہمارے پاس ہے دی جائے۔ جب تحصیل علم کر کے واپس آئے تو درخواست کی کہ حضرت اب بیعت فرمایئے۔ جواب دیا کہ تم حضرت عثمان ہارونی کے پاس جا ؤ۔ ان کے پاس پہنچے بعد تعلیم کے ارشاد کیا کہ اب تم جا ؤ۔ حضرت ابراہیم قندزیؒ کا وقت قریب آ گیا ہے اور وہ تمہارے منتظر ہیں۔ ان کے پاس واپس آئے تو پہچان نہ سکے کیونکہ بیماری سے صحت پا چکے تھے۔ دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت آدمی بیٹھا ہے۔ سلام کیا۔ فرمایا کہ آ ؤ ہمارا بھی وقت قریب ہے تعلیم کی اور فرمایا کہ ہمارا کفن دفن کر کے اپنے پیر کے پاس چلے جانا چنانچہ خواجہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی