Topics

تاریخی پس منظر

 

                انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ خالق اور مخلوق کے علاوہ استاد اور شاگرد کا بھی ہے۔ عادت الٰہی اس طرح جاری ہے کہ ایک استاد ہو اور ایک شاگرد ہو، ایک مقتدر ہو اور دوسرا مصاحب، ایک پیشوا ہو اور دوسرا پیرو، یہ عادت الٰہی حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد علوم سکھائے یعنی اللہ نے بحیثیت استاد آدم کو علوم سکھائے پھر تعلیم و تہذیب سے آراستہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں معلم، استاد اور شیخ بنا دیا۔ جنت میں مقام عطا فرمایا اور ملائکہ کو ان کے گردا گرد قطار اندر قطار کھڑا کیا اور آدم سے فرمایا کہ وہ علوم ظاہر کرے، فرشتوں سے کہا:

                ترجمہ:‘‘الٰہی تو پاک ہے تو نے جو کچھ ہمیں نہیں سکھایا اس کا ہمیں علم نہیں، بے شک تو جاننے والا حکمت والا ہے۔’’

                گویا فرشتوں پر آدم کی فضیلت علوم ٹھہری۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کے قریب جا کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کام کرنے کے ارتکاب میں جنت سے نکال کر اور ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کر کے زمین پر بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

                ترجمہ:‘‘بے شک ہم ن ے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔’’

                زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطراب لاحق ہوا اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا یعنی بھوک، پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل ؑ کو آپ کے پاس بھیجا جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقدے آپ پر کھول دیئے اور گیہوں بونے کا حکم دیا اور دنیا کے دوسرے علوم اور آداب زندگی آپ کو سکھائے۔ زمین پر آنے کے بعد اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان حجاب آ گیا یعنی اللہ تعالیٰ ظاہر سے باطن میں چلا گیا گویا آدم کے حواس ایک نئے رخ سے متعارف ہوئے۔ یہاں سے شریعت اور طریقت کی بنیاد پڑی۔ انسان غیب بینی کے ساتھ ساتھ معاشرتی نظام بنتا چلا گیا پھر ایسا وقت آیا کہ معاشرتی نظام خراب ہونا شروع ہو گیا، انسان اللہ سے دور ہوتا چلا گیا اور لالچ، حرص، طمع، غصہ، نفرت، شہرت جیسی برائیاں انسان میں بڑھتی چلی گئیں اور انسان غیب سے دور ہونا شروع ہو گیا۔ جس وقت ایسی نوبت آئی تو اللہ نے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنا شروع کر دیا تا کہ غیب بینی کے ساتھ ساتھ معاشرتی نظام بھی ہاتھ میں رہے۔ غیب بینی کی یہ صورت حال حضرت نوح علیہ السلام تک چلتی رہی۔ حضرت نوح علیہ السلام نبی بھی ہیں اور رسول بھی۔ آپ غیب کی تعلیم بھی دیتے تھے اور لوگوں کو اچھے اور برے کا بھی بتاتے تھے۔ آبادی کی کثیر تعداد جب غیب کو بھول گئی اور غیب کے قاصد کے خلاف سرکشی شروع ہو گئی تو اس وقت طوفان نوح نازل ہوا۔

                طوفان نوح کے بعد پھر فرقے اور قبائل بنے اور آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس دور میں نبی اور رسول زیادہ آئے۔ اس دور کے بعد جو آخری دور شروع ہوتا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور شروع ہوتا ہے جو کہ ابو الانبیاء کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر جب کسی بھی قربانی کا تذکرہ آئے گا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبیوں کا سلسلہ تبدیل ہوا حضرت اسحاق علیہ السلام کی طرف جو لوگ گئے وہ شریعت کی طرف زیادہ زور رکھتے تھے کیونکہ ان کا یہ خمیر تھا کہ وہ سرکشی بہت کرتے تھے اس لئے وہاں قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں نبوت کا پیٹرن قائم رہا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کی طرف شریعت کی تعلیمات زیادہ چلتی رہیں جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نبوت کی تعلیمات زیادہ چلتی رہیں۔ آخر میں جو دور آیا اس میں عرب اور دوسرے قبیلے جو کہ ساری قبیلے کہلاتے تھے اس طرح اکٹھے ہو گئے کہ اب نبی کی بھی ضرورت تھی اور رسول کی بھی ضرورت تھی۔ کائناتی ضرورت یہ تھی کہ ایسا پیغمبر بھیجا جائے تو نبی بھی ہو اور رسول بھی اور جس سے ایسی جامع تعلیمات مل جائیں کہ نبی کی بھی ضرورت نہ پڑے اور نہ ہی رسول کی تو ایسی صورت میں سیدنا حضورﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ کی آمد سے دنیا کا نظام بالکل ہی بدل گیا۔ انہوں نے نبوت کی تعلیمات بھی دیں اور رسالت کی تعلیمات بھی دیں۔

                صحابہ کرام میں سے چند لوگوں کی خصوصی تربیت کا اہتمام کر دیا گیا جو روحانی اقدار کے ذوق سے متصف تھے۔ ان صحابہ کرام نے روحانی علوم کے حصول کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں تھیں۔ ان صحابہ کرام کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تربیت یافتہ قدسی نفس حضرات تھے جنہوں نے اپنی روحوں کو نور نبوت کی روشنیوں سے منور کر لیا تھا۔ اہل بیعت کے بعد مرتبہ احسان کے باعث روحانی بلندی انہی کو نصیب ہوئی۔

                صحابہ کرامؓ کے بعد معاشرتی قوانین اور دوسرے علوم تابعین کو منتقل ہوئے۔ اس کے بعد تبع تابعین کا دور شروع ہوا۔ اس دور میں حضورﷺ کی تعلیمات دھندلانہ شروع ہو گئیں۔ لوگوں نے ان تعلیمات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنا شروع کر دیا یہاں سے شریعتوں میں بگاڑ شروع ہو گیا۔ تابعین کے بعد یہ علوم خلفاء اور دیگران میں چلے گئے اور انہوں نے اپنی پسند کے فتویٰ دینے شروع کر دیئے۔ غیب بین لوگوں کی عوام میں دلچسپی ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے۔ خلفاء نے ان لوگوں کو کسی قدر اپنے قریب لانے کی کوشش کی مگر انہوں نے خود کو چھپانا شروع کر دیا۔ نتیجتاً انہوں نے علماء کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ بیشمار علماء ایسے تھے جو حضورﷺ کی تعلیمات کو اسی طرح آگے بڑھانا چاہتے تھے مگر انہیں قتل کر دیا گیا۔ خلیفہ مامون الرشید کو تاریخ ایک سند کی حیثیت دیتی ہے مگر انہوں نے سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح کیا۔ علماء نے اس کے لئے باقاعدہ فتویٰ دیا۔ اس کے بعد حجاج بن یوسف کا دور شروع ہوا حجرہ اسود جسے چومنا طواف کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے کو خانہ کعبہ سے اٹھا کر یہ بصرہ لے آئے اور تین سو سال تک یہ بصرہ میں پڑا رہا۔ اس دور میں بھی بہت سے علماء کا قتل ہوا۔ نتیجتاً ان میں غیب کے لوگوں نے عرب کی سرزمین چھوڑنا شروع کر دی کچھ روس کی ریاستوں میں چلے گئے، کچھ ایران اور کچھ نے دوسرے ممالک کا رخ کیا۔ اب حالات وہ نہیں رہے کہ علوم یکسر یا یکدم منتقل کر دیئے جاتے اب ضرورت اس بات کی تھی کہ ماحول کے مطابق ذہن کو صاف کیا جائے اس ذہن کو صاف کرنے کے لئے ریاضتیں، چلہ کشی اور دوسرے اشغال شروع ہو گئے۔

                حضرت حسن بصریؒ کے بعد ایسا دور شروع ہوا کہ سلاسل کی بنیاد رکھنا پڑی۔ ہر ماحول کے مطابق مختلف سلاسل کی بنیاد پڑی۔ ہر سلسلے کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح لوگوں کو غیب میں داخل کیا جائے اور غیب بینی کے ذریعے وہ یہ جان لیں کہ ہمارا اصل مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے مقصد تخلیق کی تعمیل ہو سکے۔ سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ تاجیہ نے عرب کی طرف ترقی پائی جبکہ ایران کی طرف سلسلہ سہروردیہ نے فروغ پایا۔ افغانستان میں سلسلہ چشتیہ نے فروغ پایا۔ برصغیر میں جن سلاسل نے فروغ پایا ان میں سلسلہ چشتیہ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ قادریہ، سلسلہ ملامتیہ، سلسلہ سہروردیہ اور سلسلہ قلندریہ شامل ہیں اور یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہے۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی شاگرد ایسا ہوا ہے جس نے ان تعلیمات کی رہنمائی کے مطابق زندگی کا رستہ طے کیا۔ تمام انبیاء، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ، ابدال اور صدیقین کا سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا ہے کہ کوئی استاد ہو اور کوئی شاگرد۔ حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد عقبد تھے۔ حضرت سری سقطیؒ کے شاگرد ان کے خادم خاص اور بھانجے ابوالقاسم جنیدؒ تھے۔ یہ مشائخ اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ اور راستہ ہیں۔ اسی دروازے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں راستہ ملتا ہے۔ ہر سالک کے لئے شیخ کی ضرورت ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کا خود انتخاب فرمائے اور اس کی تربیت کا بندوبست فرمائے۔

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی