Topics

بیعت کا قانون


                جتنے بھی انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں سب کا ایک ہی باپ ہوتا ہے۔ کسی شخص کا اپنے باپ کا باپ ہونے سے انکار کرنا نہایت بے شری اور غلط بات ہے۔ جس طرح صلبی باپ کی اولاد ہوتی ہے اسی طرح روحانی استاد (پیر و مرشد) بھی روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ دنیاوی قوانین کے تحت جس طرح کوئی اپنے صلبی باپ کو نہیں بدل سکتا اسی طرح روحانی قوانین کے تحت روحانی باپ بھی نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر استاد کی تربیت کا طریقہ مختلف ہوتا ہے اور مزاج و طبیعت میں بھی فرق ہوتا ہے۔

                ایک انسان جب کسی کو پیر و مرشد یا استاد بنا لیتا ہے یعنی بیعت کر لیتا ہے تو اس کی تربیت استاد اپنی ذہنی ساخت کے مطابق شروع کر دیتا ہے اب انسان اگر کسی دوسری جگہ چلا جائے تو بیعت میں فرق آ جائے گا اور وقت ضائع ہو گا۔ کیونکہ جگہ تبدیل کرنے سے نئے استاد کی ذہنی ساخت تربیت میں زیر بحث آ جاتی ہے۔ روحانی علوم بطور ورثے میں منتقل ہوتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ آپ نے اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کے بعد بی اے کیا اور ڈگری حاصل کر لی۔

                روحانی علوم اور دنیاوی علوم کے طریقہ حصول میں بہت فرق ہے۔ جس طرح صلبی باپ کی عام جائیداد اولاد کو ہی منتقل ہوتی ہے اسی طرح روحانی علوم کا ورثہ بھی روحانی اولاد کو ہی منتقل ہوتا ہے۔ بیعت کرنا کوئی ایسا فریضہ نہیں کہ لازمی بیعت کی جائے۔ نماز روزے کی پابندی کرنے سے، استغفار کرنے سے، قرآن کریم اور درود شریف پڑھنے سے بھی فیض و برکات حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ استاد کے بغیر کسی علم کو مکمل طور پر حاصل کرنا ناممکن ہے اور روحانی علوم کا ورثہ اس وقت منتقل ہوتا ہے جب کہ کسی ایسے شخص کو استاد بنایا جائے جس کے پاس روحانی علوم کا ورثہ موجود ہو۔ روحانی علوم کی منتقلی کے لئے بیعت کرنا لازمی ہے۔ ایک شخص بیعت ہو گیا، تین چار سال مرشد سے تربیت لی اور یہ سوچ کر دوسری جگہ بیعت ہو گئے کہ یہاں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ دوسری جگہ بیعت کرنے سے اس شخص کے تین چار سال ضائع ہو گئے۔ نئی جگہ بیعت ہونے سے نئے سرے سے تربیت شروع ہوئی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کچھ عرصہ یہاں تربیت لے کر کوئی اور اچھا شخص نظر آیا وہاں بیعت کر لی اور مزید اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ظاہر ہے کہ نتیجہ کیا ظاہر ہو گا۔ ‘‘دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔’’ چنانچہ کچھ حاصل بھی نہ ہوا اور اس وقت الگ برباد ہوا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بیعت کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اگر بیعت کر لی ہے تو ایک جگہ مستقل مزاجی سے ٹھہرا جائے۔

                اگر پیر و مرشد کا وصال ہو جائے تو اس صورت میں بھی بیعت دوسری جگہ نہیں کی جا سکتی۔ اتنی رعایت ہے کہ اگر مرشد کے وصال کے بعد کوئی ایسا بندہ مل جائے جس کی طرز فکر مرشد کے قریب ہو تو اس بندہ سے شاگردی اختیار کی جا سکتی ہے۔ مرشد کے وصال کے بعد بھی بیعت توڑی نہیں جا سکتی کیونکہ وصال کے بعد بھی اس کے روحانی فیض جاری رہتے ہیں۔ اگر کسی دوسری جگہ بیعت کرنے کی روحانی استاد خود اجازت دے تو اس صورت میں کوئی جواز نکالا جا سکتا ہے کہ کوئی دوسرا روحانی استاد قبول کرے۔

                حضرت خواجہ محبوب عالم نقشبندی توکلیؒ اپنی کتاب ذکر کثیر میں لکھتے ہیں کہ کامل مرد کی بیعت قلب کی بیع ہے مرد کامل کے ہاتھ پر۔ اگر کوئی بیوقوف پیر سے بدظن و منحرف ہو کر چاہے کہ میں بیعت سے آزاد ہو جا ؤں یا فرض کرے کہ ہو گیا تو یہ اسکی سراسر غلطی اور نفس و شیطان کی حماقت، روح کی کمزوری و نالائقی ہے۔ شرعی مسئلہ ہے کہ بالغ کی مرضی سے بلا رضا بیع فسخ نہیں ہو سکتی۔ پیر کامل کا قبضہ مرید کے قلب پر اسی وقت ہو جاتا ہے جب کہ اس نے محبت و خوشی سے اپنا ہاتھ پیر کے ہاتھ میں بیعت کے وقت دے دیا۔ اب چھڑانا اس کے بس کا نہیں۔ پیر عدالت سے اس بیع کا قبضہ ہر وقت لینے کا مجاز ہے۔ ایک وقت ہو گا کہ بے حد ذلت و خواری اور ندامت و رسوائی کے ساتھ ان کی (نفس و شیطان کی اغواء سے) ضد و ہٹ کے ساتھ جبراً بیع فسخ کر کے دل کو ان ہی کے قبضہ میں دے دینے کا ثمرہ ان کو ملے گا اور پھر پچھتائیں گے مگر بجز حسرت و افسوس کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

                مشائخ نے فرمایا ہے کہ جس کے ہاتھ پر ایک مرتبہ بیعت کر لی جائے پھر دوسرے سے بیعت کرنا اور متوجہ ہونا مرتد ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے وہ دوسرے سے بیعت نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی اس کی دستگیری کر سکتا ہے۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی