Topics

شیخ کی مخالفت


                روحانی شاگرد یا طالب پر واجب ہے کہ شیخ کی مخالفت نہ کرے اور نہ دل میں اس پر اعتراض کرے۔ ظاہر میں شیخ کی نافرمانی کرنے والا گستاخ اور بے ادب ہے اور باطن میں اس پر معترض ہونے والا خود اپنی تباہی اور ہلاکت کا خواستگار ہے۔ طالب کو چاہئے کہ شیخ طریقت کی طرفداری میں اپنے نفس کو مصروف رکھے اور ظاہر و باطن میں شیخ کی مخالفت سے اپنے نفس کو باز رکھے۔ اگر پیر طریقت سے خلاف شروع کوئی عمل سرزد ہو تو اس کی حکمت تلاش کرے نہ کہ شیخ سے علیحدگی اختیار کرے۔ کسی بھی صورت میں اپنے دل میں کوئی بات نہ لائے اور یقین رکھے کہ شیخ جو کچھ کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے۔

                شیخ طریقت اگر ناراض ہو جائے یا کسی قسم کی بے اتفاقی ظاہر ہو تو شاگرد اس سے کنارہ کش نہ ہو بلکہ اپنی حالت کا جائزہ لے اور دیکھے کہ کہیں شیخ کے حق میں اس سے کوئی گستاخی اور بے ادبی تو سرزد نہیں ہو گئی یا حق کی ادائیگی میں اس سے کچھ کوتاہی تو نہیں ہوئی۔ اگر حقوق اللہ میں کچھ قصور ہوا ہے توپہلے اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرے اور دوبارہ اس کا اعادہ نہ کرنے کا عہد کرے۔ پھر اپنے شیخ سے معذرت چاہے اس کے سامنے عجز و انکساری کا اظہار کرے اور آئندہ شیخ کے حکم کے خلاف نہ کرنے کا عہد کرے اور شیخ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ شیخ کے حکم کی ہمیشہ اطاعت کرے اور شیخ کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ اور سبب سمجھے۔ اسے اس مثال سے سمجھنا چاہئے کہ اگر بادشاہ کے حضور میں پہنچنا چاہے اور بادشاہ اسے پہچانتا نہ ہو تو اسے کسی درباری، بادشاہی خدمتگار یا بادشاہ کے مقرب کا وسیلہ ڈھونڈنا ہو گا، تا کہ شاہی آداب اور حضوری کے طور طریقوں سے واقف ہو جائے، پیشی اور خطاب کے آداب معلوم ہو جائیں اور اسے آگاہی ہو جائے کہ کون کون سے تحفے بادشاہ کے حضور پیش کرنے کے قابل ہیں اور کون سی چیزیں بادشاہ کو پسند ہیں۔ اس لئے اس کو سب سے پہلے اسی طریقے کو اختیار کرنا ضروری ہو گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس وسیلہ اور آگاہی کے بغیر داخل ہو جائے اور اسے ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑے اور بادشاہ سے جو غرض و مطلب واسطہ تھا وہ حاصل نہ ہو سکے۔ ہر نئے داخل ہونے والے پر ایک خوف طاری ہوتا ہے اور اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو آداب کی یاد دہانی کراتا رہے اور اسے اس کے مرتبے کے لائق مقام پر کھڑا کرے یا اس کا مناسب مقام اسے بتا دے تا کہ وہ بدتہذیبی اور بیوقوفی کا نشانہ نہ بنے۔

                طالب یا سالک کو چاہئے کہ وہ شیخ کی مخالفت کسی بھی حالت میں نہ کرے۔ مشائخ کی مخالفت طالب کے حق میں زہر قاتل ہے۔ اس لئے نہ صراحتاً مخالفت کرے اور نہ ہی کسی تاویل کے ساتھ۔ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ فرماتے ہیں کہ طالب کو چاہئے کہ اپنے استاد کو رسوا نہ کرے اور نہ غلطی سے بھی اپنے آپ کو اس کے اوپر ترجیح دے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ اسلام سے ایک رشتے کو توڑ دیتے ہیں۔ طالب کو چاہئے کہ اپنے شیخ کے سامنے ‘‘کیوں’’ کا لفظ بھی استعمال نہ کرے۔ کیونکہ اس لفظ میں اعتراض کی گنجائش ہوتی ہے۔

                ایک مرتبہ شاہ ابوالمعالیؒ بہت حیران پریشان اور رنجیدہ خاطر تھے۔ آپ کو حضرت پیران پیر دستگیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے دیدار کے شوق نے بے کل و بے چین کر رکھا تھا۔ آپ کی اس اضطراری کیفیت سے آپ کے مرشد عالی مقام شیخ دا ؤدؒ بذریعہ کشف مطلع ہوئے۔ انہوں نے آپ کو فوراً طلب کیا اور فرمایا:‘‘تم اپنی بے چینی کو ختم کرو وہ مبارک گھڑی عنقریب آ جائے گی۔ جب تم اپنے دل کی بات کو اپنے سامنے پا ؤ گے۔’’

                شاہ ابوالمعالیؒ ہر وقت اس نیک ساعت کے منتظر رہنے لگے۔ ایک رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے مرشد شیخ دا ؤدؒ آپ کے پاس آئے ہیں اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر ایک محفل میں لے گئے۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگوں کے علاوہ حضرت غوث الاعظمؒ بھی تشریف فرما ہیں۔ اس وقت حضور غوث اعظمؒ کی دائیں طرف ایک صاحب تشریف فرما تھے۔ ان کا نام بھی ‘‘ابوالمعالی عراقیؒ’’ تھا۔ شاہ ابوالمعالیؒ پیران پیرؒ کی بائیں طرف فروکش ہو گئے۔

                شاہ ابوالمعالیؒ کے دل میں شاہ ابوالمعالی عراقیؒ کے بارے میں خیال آیا کہ یہ بزرگ شاید شیخ دا ؤدؒ سے زیادہ مرتبے کے ہیں جو انہیں پیر صاحبؒ کے دربار میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ابھی یہ خیال آپ کے دل ہی میں تھا کہ حضرت پیران پیرؒ نے فرمایا۔ ‘‘شاہ ابوالمعالی! تمہارا مرشد تو میرا دل ہے اور دل جسم کے اندر ہوتا ہے۔’’ یہ سن کر شاہ ابوالمعالیؒ کی آنکھ کھل گئی۔

                حضرت غوث علی شاہؒ صاحب فرماتے ہیں کہ آگرہ میں ہماری شاہ ابو ابرکات صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ایک دن ہم شاہ صاحب کے ہمراہ باہر سیر کو گئے۔ دور سے ایک گروہ فقیروں کا نظر آیا۔ شاہ صاحب نے بڑی حقارت سے دیکھا اور فرمایا لاحول ولا قوۃ یہ بھی کوئی فقیری ہے۔ یہ لوگ فقیر تو کیا مگر ننگ فقراء ضرور ہیں۔ اتنے میں ایک فقیر اس گروہ سے آگے بڑھ کر ہماری طرف کو متوجہ ہوا۔ اس کا قریب آنا تھا کہ شاہ صاحب کی نسبتیں سلب ہو گئیں پھر اس نے قریب آ کر شاہ صاحب سے کہا کہ صاحبزادے آپ نے یہ بھی پڑھا ہے:

خاکساراں جہاں رابحقارت مگر

توچہ دانی کہ دریں گرد سواری باشند

نظر سے نہ دیکھ تجھے کیا معلوم

اس گروہ میں کسی کی سواری ہے

                اور فرمایا صاحبزادے کیا کریں ہم مسافر ہیں ورنہ چند روز آپ کی خدمت میں رہ کر انسان بنا جائے۔

                حضرت عبدالحق مولویؒ تشنگی طلب میں جا بجا پھرتے رہے۔ مخدوم جلال الدین کبیر الاولیاءؒ کا نام سن کر پانی پت میں آئے۔ اس وقت مخدوم صاحب قوالی سن رہے تھے چونکہ حضرت عبدالحقؒ عالم باعمل اور متبع شریعت تھے۔ یہ بدعت دیکھ کر واپس چل دیئے۔ دن بھر قطع مسافت کی شام کو پہنچے تو وہی پانی پت تین روز یہی کیفیت رہی۔ چوتھے دن چلے تو جنگل میں ایک آدمی نظر آیا اس سے پوچھا میاں ہم راہ بھول گئے ہیں ہم کو راہ بتا دو۔ وہ بولا کہ صاحب جو راہ تم ڈھونڈتے ہو وہ تو مخدوم جلال الدینؒ کے دروازے پر ہے۔ آخر واپس ہوئے اور مخدوم صاحب کی خدمت میں آ کر بیعت کی۔ مخدوم صاحب نے اسی دم خرقہ خلافت عطا کیا اور رخصت فرمایا۔

                جب بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ، خواجہ معین الدین چشتیؒ کی خدمت میں باارادہ بیعت حاضر ہوئے تو اس وقت خواجہ صاحب ایک درخت خشک سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ بابا صاحب کو خیال آیا کہ تعجب ہے جس درخت کو خواجہ صاحب نے کمر لگائی وہ خشک رہے۔ ایک نظر جو ڈالی تو درخت سرسبز ہو گیا۔ خواجہ صاحب نے نگاہ کی تو وہ پھر خشک ہو گیا۔ غرض دوبارہ اسی طرح الٹ پلٹ ہوئی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میاں فرید تم فقیری کرنے آئے ہو یا خدا سے لڑنے۔ مرضی الٰہی تو یوں ہے کہ درخت خشک رہے تم اس کو ہرا بھرا کئے چاہتے ہو۔جا ؤ قطب الدین کے پاس وہ ذرا تمہاری خبر لے گا اور وہیں تمہارا حصہ ہے۔ حسب ارشاد پرانی دلی میں آئے اور قطب الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی عمر کم تھی بچوں کے کھیل کود کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ بابا فرید کے دل میں خیال آیا کہ پیر تو ملا مگر لڑکا ہے ان کو یہ ضمیر منکشف ہوئی فوراً حجرہ کے اندر گئے اور بوڑھے بن کر نکل آئے فرمایا کہ لو اب میں تمہاری پیری کے قابل ہو گیا۔ بابا صاحب فوراً ہی بیعت ہوئے۔

                مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ کفار جب کسی رسول کو نہیں مانتے تو اس میں نقصان رسول کا نہیں بلکہ ان کا اپنا نقصان ہے۔ اسی طرح اگر بیمار طبیب کا، شاگرد استاد کا، مرید پیر کاور دھوبی سورج کا دشمن بن جائے تو غور کرو نقصان کس کا ہے۔ اگر تم بدصورت ہو تو بدعادت نہ بنو۔ کوئی حاسد اگر امیر سے حسد کرے تو یہ اس کے لئے اس کی غربت سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ ابوجہل کا نام ابوالحکم تھا مگر رسول اللہﷺ کی ذات سے ذلت محسوس کرتا تھا اور ایسا احساس پیدا کرنے کے باعث اور حسد سے ابوجیل بن گیا۔ حسد سے بہت سے لوگ ناہل بن جاتے ہیں مگر نیک عادت والا کبھی نقصان میں نہیں رہتا۔

                کچھ مریدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو اپنے شیخ سے جب تک کچھ مفادات حاصل ہوتے رہیں تو ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور جب کبھی مرضی کے خلاف کوئی بات ہو گئی یا کوئی مراد پوری نہ ہوئی تو فوراً رابطہ توڑ لیا۔ ایسے مریدین خود اپنا نقصان کرتے ہیں۔

                حضرت ابو علی دقاقؒ فرماتے تھے کہ جو شخص اپنے شیخ کی صحبت میں آئے اور پھر اس پر اعتراض کرے بلاشبہ اس کی بیعت ٹوٹ گئی۔ اس پر واجب ہے کہ تجدید بیعت کرے۔

                حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ کی خدمت میں ایک بزرگ تشریف لائے۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے کہ حضرت میں تو آپ کی بڑی تعریف سن کر آیا تھا لیکن آپ تو بالکل خالی ہیں۔ اس وقت ارشاد ہوا کہ صاحب ہمیں تو ااج تک یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ ہم خالی ہیں یا بھرے۔ بہت سے فقراء سے ملے اکثر بزرگوں کی خدمت میں گئے۔ کسی نے یہ پتہ نہ دیا الحمدللہ آپ کی زبان سے یہ عقدہ حل ہو گیا۔ اتنی بات کہہ سن کر وہ بزرگ قلندر صاحب کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئے۔ وہاں سے روتے پیٹتے ہوئے بھاگے آئے اور جناب و قبلہ کے قدموں میں سر رکھ دیا اور عذر و معذرت کرنے لگے کہ برائے خدا میرا قصور معاف فرمایئے۔ مجھ کو کو یہ حال معلوم نہ تھا۔ حضرت نے فرمایا صاحب وہ بھی تمہارا ہی گمان تھا اور یہ بھی تمہارا خیال ہے۔ ہم تو جیسے تب تھے ویسے ہی اب ہیں۔ نہ آپ کے اقرار سے کچھ بیشی ہوئی نہ انکار سے کچھ کمی۔ ہمارا قصور تو آپ نے کچھ کیا ہی نہیں جس کی معافی واجب ہو۔

                فقیر کے بارے میں کوئی رائے اپنے ذہن میں اس قسم کی نہیں لانی چاہئے کہ یہ خالی ہیں یا ان کے پاس کچھ نہیں۔ اور نہ ہی ان کی صحبت میں اس نیت سے جانا چاہئے کہ ان کی آزمائش کریں۔ کوئی آدمی اتنی جلدی کسی کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا۔ کیونکہ بندے کی کثیف روشنیاں فقیر کی صحبت میں آہستہ آہستہ لطیف ہوتی ہیں۔ ایک دم سے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا اور جلدی میں بندہ یہ سمجھتا ہے کہ فقیر خالی ہے یا اس کے پاس علوم نہیں ہیں۔

                حضرت بابا بلھے شاہؒ ایک دن مرشد کی جستجو میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ اونگھ آ گئی کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کی پانچویں پشت کے جدامجد سید عبدالحکیم کا تخت نیچے اترا ہے۔ انہوں نے پوچھا۔ ‘‘تم کون ہو؟’’آپ نے جواب دیا۔ ‘‘میں سید عبداللہ بن سید درویش محمد ہوں۔’’ انہوں نے کہا۔ بیٹا ہمیں پیاس لگی ہے۔ بلھے شاہ نے دودھ کا پیالہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے کچھ خود پیا کچھ بچا کر بلھے شاہ کو عنایت فرمایا اور کہا ‘‘لو بیٹا، پی لو۔’’ اس دودھ کا پینا تھا کہ آپ سرمست اور بے خود ہو گئے اورنور معرفت ے ان کا قلب منور ہو گیا۔ اس پر سید عبدالحکیم نے فرمایا۔ ‘‘بیٹا ہمارے پاس یہ تمہاری امانت تھی جو ہم نے تمہیں عنایت کر دی ہے۔ آج سے دس روپیہ تمہارا روزینہ مقرر ہے۔ اب مرشد کی تلاش کرو جو تمہیں علوم معرفت سے آگاہ کرے۔’’

                اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی۔ آپ گھر واپس آئے اور اپنے محترم والد کو یہ واقعہ سنایا۔ انہوں نے فرمایا۔ ‘‘بیٹے تم سے بھول ہو گئی۔ اگر ایسے بزرگ سے ملاقات ہو گئی تھی تو ان سے کہنا تھا کہ آپ کو چھوڑ کر اور کون سا مرشد تلاش کروں۔’’ آپ نے والد صاحب سے عرض کی۔ ‘‘اب فرمایئے وہ کہاں مل سکتے ہیں۔’’ آپ کے والد صاحب نے مراقبہ کے ذریعے معلوم کر کے بتایا کہ وہ اس وقت ساندہ میں مقیم ہیں۔ حضرت بلھے شاہؒ اسی وقت گھر سے روانہ ہوئے اور ساندہ کی مسجد میں آ کر لیٹ گئے۔ چنانچہ سید عبدالحکیم سے پھر ملاقات ہوئی تو انہوں نے بلھے شاہؒ کو مولوی شاہ عنایت قادریؒ سے رجوع کرنے کو کہا۔ وہاں سے آپ گھر تشریف لائے اور اپنے والد کو حقیقت سے آگاہ کیا اور بیعت کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے اجازت دے دی اور دستار مرشد کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے اور کچھ رقم دی اور ساتھ نصیحت بھی کی کہ کہیں تکبر میں نہ آ جانا۔ بلکہ نہایت عجز و عقیدت کے ساتھ مرشد کی خدمت میں حاضری دینا اور جو تعلیمات وہ دیں ان کو غور سے سن کر ان پر عمل کرنا۔

                والد صاحب سے رخصت ہو کر حضرت بلھے شاہؒ لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انہیں خیال آیا کہ میں تو سید ہوں اور جد امجد کی طرف سے میرا روزینہ بھی مقرر ہے اس لئے شاہ عنایت کو مجھے بیعت میں لینے کے لئے کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔

                ان دنوں مولوی شاہ عنایت قادریؒ بھاٹی دروازہ میں اونچی مسجد کے پیش امام تھے اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ جب آپ شاہ عنایتؒ کی خدمت میں پہنچے اور اپنا مدعا بیان کیا تو آپ نے فرمایا۔ ‘‘پہلے ایک کام کرو پھر مرید کریں گے۔ اب دوپہر کا وقت ہے وہ کام کر کے مغرب کی نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھنا۔ کام یہ ہے کہ پانچ سو نقد روپیہ، پانچ سو کا گھوڑا، پانچ سو کی ایک پوشاک اور پانچ سو روپے کے طلائی کنگن لے آ ؤ پھر بیعت کریں گے۔’’

                آپ وہاں سے نکلے تو بہت پریشان تھے کہ ان شرائط کو کیسے پورا کروں اتنی تو میری اوقات بھی نہیں اور گھر سے کچھ نقد لے کر بھی نہیں آیاہوں جو دو ہزار روپیہ کی شرائط پوری کر سکوں۔ اسی ادھیڑ بن میں دریائے راوی کے کنارے آ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے۔ یہاں تک کہ بہت ہی مایوس ہو گئے اور دل میں آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ دریا میں ڈوب مروں تا کہ شرمندہ ہونے سے بچ جا ؤں۔ اسی وقت کسی نے آواز دی۔ ‘‘لڑکے ذرا میری بات سنو۔’’

                آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نقاب پوش سوار گھوڑے سے اتر رہا تھا۔ اس نے قریب آ کر کہا کہ میں نہانا چاہتا ہوں ذرا میرا گھوڑا تھام رکھو اور میرے سامان کی حفاظت کرو۔ اس نقاب پوش نے پہلے آپ کو پانچ سو روپے کی تھیلی پکڑائی۔ پھر ہاتھوں سے طلائی کنگن اتار کر دیئے اور پھر اپنی قیمتی پوشاک جو پانچ سو روپے کی تھی آپ کے حوالے کر کے دریا میں غوطہ زن ہوا اور ایسا غوطہ لگایا کہ پھر نہ ابھر سکا۔ آپ ظہر سے عصر تک وہاں بیٹھے رہے۔

                بالآخر یہ سوچ کر وہاں سے اٹھ آئے کہ وہ بیچارا تو دریا میں ڈوب گیا ہو گا اور قدرت نے یہ چیزیں مجھے مہیا کر دی ہیں۔ جو مرشد نے مانگی تھیں۔ چنانچہ آپ یہ چیزیں لے کر شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں نے مولوی شاہ عنایتؒ کی پوشاک اور گھوڑے کو پہچان لیا اور مولوی صاحب کے پاس لے گئے۔ مولوی صاحب نے آپ سے سب چیزیں لے لیں اور فرمایا۔ ‘‘برخوردار! بس یہی شیخی تھی کہ ڈوب مرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے تم تو سید ہو اور بڑے خوبرو ہو اور تمہارا دس روپیہ روزینہ بھی مقرر ہے جبکہ میں ایک باغبانی کرنے والا آرائیں ہوں۔ میں تمہیں کیا فیض دے سکتا ہوں۔

                آپ نے عرض کی۔ ‘‘جناب! میرا سب کچھ آپ کی نظر اور آپ پر نچھاور ہے۔’’ بلھے شاہ کی یہ عقیدت مندی اور خلوص دیکھ کر شاہ عنایتؒ نے آپ کو بیعت کر لیا اور باطنی علوم سے بہرہ ور کیا۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی