Topics

سالک کی تربیت


                یہ بات ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ روحانی علوم سیکھے نہیں جاتے بلکہ منتقل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان علوم کے لئے اپنے بندوں پر اپنی رحمت خاص کرتا ہے مگر اس کے لئے بہت ضروری چیز ہے ذہن کی تیاری، کیونکہ دودھ کبھی بھی گندے برتن میں نہیں ڈالا جاتا۔ اگر برتن گندا ہے اور اس میں دودھ ڈال دیا جائے تو دودھ پینے کے قابل نہیں رہتا۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ ذہن سے شیطانی طرز فکر کو ختم کیا جائے تا کہ ذہن میں اتنی صلاحیت اور وسعت پیدا ہو کہ وہ روحانی علوم کو جذب کر سکے اگر ذہن تیار نہ ہو اور علوم منتقل کر دیئے جائیں تو بندہ جذب کی کیفیت میں چلا جاتا ہے یا پھر اسے جسمانی طور پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

                اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

                ‘‘میں تو تمہاری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔’’

                دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

                ‘‘میں نے چھ روز میں آسمان کو بنایا اور عرش پر جا کر متمکن ہو گیا۔’’

                ان دونوں آیات سے ہمیں علم کی دو طرزیں حاصل ہوتی ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہمیں دو راستے ملے ہیں یعنی علم (اللہ) ایک ہی ہے مگر اس کے حصول کی طرزیں مختلف ہیں، منزل ایک ہی ہے مگر راستے مختلف ہیں۔ روحانیت کے علوم بھی دو طرزوں میں حاصل ہوتے ہیں:

                قرب نوافل کے ذریعے

                قرب فرائض کے ذریعے

                قرب فرائض کا علم یا علم جذب ایک دم حاصل ہوتا ہے۔ سیدنا حضورﷺ غار حرا گئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کو گلے لگایا اور تمام علوم منتقل کر دیئے یعنی انہوں نے باقاعدہ کسی سے کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ لینے گئے تو وہاں ان کو نبوت مل گئی۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن کیفیات میں یہ علم حاصل ہوتا ہے اسے جذب کہتے ہیں۔ قرب فرائض کا علم آسانی سے حاصل نہیں ہوتا اس کے لئے ذہن کو اس حد تک تیار کرنا پڑتا ہے کہ بندہ مادی جسم مادی تقاضوں کو چھوڑ دے۔ مثلاً اگر کسی کو قرب فرائض کے ذریعے علم دینا مقصود ہو تو اسے کہا جائے گا کہ یہ کشکول پکڑو اور جنگلوں میں نکل جا ؤ۔ اگر بندہ خلوص دل کے ساتھ وہ کام کرتا ہے تب جا کر قرب فرائض کی طرف اس کا ذہن بنتا ہے ورنہ وہ تباہ و برباد ہو سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم سلسلہ چشتیہ کے بانیوں میں سے تھے ان کو جو علوم حاصل ہوئے وہ قرب فرائض کے ذریعے حاصل ہوئے مگر اس کے لئے انہیں اپنی بادشاہت کو ترک کرنا پڑا۔ حضرت ذوالنون مصریؒ ایک بزرگ گزرے ہیں جو کہ قرب فرائض کی کیفیات سے گزرے مگر ان کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ وہ یہ کہتے تھے کہ مجھ سے زیادہ دنیا میں کوئی اور ذلیل و خوار نہ ہو گا یعنی انہوں نے اس قدر تکلیفیں اٹھائیں تب جا کر انہیں قرب فرائض کا علم حاصل ہوا۔

                قرب نوافل ایسی کیفیت ہے جس میں حصول علم کے ساتھ ساتھ زندگی کے باقی معاملات بھی چلتے ہیں۔

                حضرت نصیر الدین چراغ دہلویؒ کا ارشاد ہے کہ مرشد کامل یہ جانتا ہے کہ مرید کو سلوک کی راہ میں چار مقامات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اول عالم ناسوت سے جو نفس کی دنیا ہے اور جس میں حواس خمسہ سے افعال صادر ہوتے ہیں۔ سالک اپنی ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے اس عالم سے گزرتا ہے۔ دوسرا علم ملکوت ہے جہاں اس کے افعال تسبیح، قیام، رکوع اور سجود تک محدود ہوتے ہیں۔ عالم ملکوت کے بعد سالک عالم جبروت میں داخل ہوتا ہے یہاں ذوق و شوق، محبت، اشتیاق، طلب، وجد، سکر کے سوا کچھ نہیں۔ چوتھا عالم جس میں سالک داخل ہوتا ہے عالم لاہوت ہے جو لامکاں میں شامل ہے جہاں نہ گفتگو ہے نہ جستجو۔

                آپؒ فرماتے ہیں کہ حصول شریعت سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اس کے لئے کم کھانا اور رات کے وقت نوافل کی ادائیگی ضروری ہے۔ حصول طریقت سے تزکیہ دل ہوتا ہے اس کے لئے نماز پڑھنا، روزے رکھنا، ذکر جلی کرنا لازمی ہے۔ حصول حقیقت سے تجلیہ روح ہوتا ہے اور اس کے لئے روزے کی کثرت اور ذکر خفی کرنا ضروری ہے اور تجلی روح سے سات گوہر روشن ہو جاتے ہیں مثلاً گوہر ذکر، عشق، محبت، سِر، روح معرفت اور فقر۔

                کامل مرشد پہلے مرید کی توجہ کو دنیا سے ہٹا کر اپنی طرف کرتا ہے۔ شیخ مختلف تجربات سے مرید کو گزار کر اس کے ذہن سے دنیا کی محبت ختم کر کے رسول اللہﷺ کی محبت کی طرف لاتے ہوئے اللہ کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ شیخ مرید کے رشتے کو اللہ کے ساتھ اس قدر مضبوط کر دیتا ہے کہ دنیاوی یا شیطانی وسوسے اس سے رشتے کو توڑ نہ سکیں۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو اسی رسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس طرح جوڑا کہ وہ بڑے بڑے طوفانوں سے بھی ٹکرا جاتے اور اپنی جان و مال قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔

                علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے

نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی

                حضرت مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات شریف میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ شیخ کامل کی ذات مطلوب اور مقصود (یعنی اللہ تعالیٰ) تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

                مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ پیر بغیر کسی آلے کے باطنی طور پر تصرف کرتا ہے۔ وہ مریدوں کو ظاہری گفتگو کئے بغیر بھی سبق دیتا ہے، یعنی ان کا تصرف قلبی توجہ سے ہو سکتا ہے یا نظروں سے بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت شیخ سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ کے پاس ایک عالم آیا اور کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھا رہا مگر اس دوران حضرت مجدد الف ثانیؒ نے قطعاً کوئی کلام نہ فرمایا۔ جب وہ شخص باہر آیا تو لوگوں کو کہنے لگا کہ ہم تو اس لئے آئے تھے کہ حضرت سے کچھ فیض ملے گا مگر آپ نے تو ہم سے کوئی کلام ہی نہیں فرمایا۔ حضرت مجددؒ کو جب علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔ ‘‘جو ہماری خاموشی سے فیض حاصل نہیں کر سکتا وہ ہمارے کلام سے بھی فیض اخذ کرنے کے قابل نہیں۔’’ اولیاء کرام کی خاموشی کو مولانا نے بے گفتہ سبق فرمایا ہے۔

                حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ فقیری ایک بات ہے کان میں کہنے کی یا تو انسان ادھر تھا یا ادھر ہو گیا گویا کہ آگ میں پھونک مار دی نہ اس کے لئے وقت نہ زمانہ درکار ہے، نہ نماز نہ روزہ نہ درود و وظائف کی شرط۔

                کسی شخص نے سوال کیا کہ حضور جب فقیری ایسی آسان ہے تو پھر مشقت و مجاہدہ کیوں کرواتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم کو ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک شخص کے پاس تیل کے دو ہنڈے تھے، نہایت میلے کچیلے اور تیل میں چکٹے ہوئے۔ ایک ہنڈا ایک کاریگر کو دیا اور پوچھا اس کو کتنے عرصہ میں صاف کر دو گے کہا کہ پورے چالیس روز میں۔ دوسرا ہنڈا ایک اور کو دیا اس نے کہا کہ لو آج ہی صاف کئے دیتا ہوں۔ پہلے شخص نے کیا کیا کبھی تو اس ہنڈے کو کھرچا اور کبھی کھار دے کر دھوتا، کبھی نرم آنچ میں اس کو گرم کرتا اسی طرح چالیس روز میں صاف و شفاف کر دیا اور ٹھوک بجا کر حوالہ کیا۔ دوسرے شخص نے کیا ترکیب کی کہ ہنڈے کے چاروں طرف اپلوں کا انبار چُنا اور آگ لگا دی۔ ہنڈا جھٹ صاف ہو گیا لیکن کسی کام کا نہ رہا جہاں ذرا ٹھیس لگی اور چور چور ہو گیا۔ بیشک صاف تو دونوں ہو گئے مگر ایک کارآمد رہا اور دوسرا نکما ہو گیا۔

                ایک سالک کی تربیت کے دوران پیر و مرشد اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ سالک میں فیض قبول کرنے کی کتنی استطاعت ہے۔ دوسرے الفاظ میں سالک کا ظرف کتنا ہے، کیونکہ فیض یا توجہ کو قبول کرنے کے لئے سالک کے قلب میں قبولیت کی استعداد کا ہونا ضروری ہے ورنہ بیعت سے پہلے موجود خاندانی یا معاشرتی طرز فکر کی چھاپ کو دور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

                میاں شیر محمد شرقپوریؒ صاحب کا ایک واقعہ ہے کہ آپ ایک دن لاہور ریلوے اسٹیشن کے باہر تشریف لا رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک سکھ پر پڑی۔ آپ اس کے قریب آئے اور اس کی داڑھی کو دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے فرمایا۔ ‘‘یہ داڑھی تو مسلمانوں جیسی داڑھی ہے۔’’ اس بات کا کہنا تھا کہ سکھ نے فوراً کلمہ پڑھ لیا۔

                اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت میاں شیر محمد شرقپوریؒ پر ایک خاص کیفیت طاری تھی اور دوسرا سکھ کے دل میں فیض کو قبول کرنے کی استطاعت موجود تھی وگرنہ آپ صبح سے شام تک تمام سکھوں کی داڑھیوں کو ہاتھ لگا کر مسلمان کرتے جاتے۔ گویا جب تک سالک ذہنی اور جسمانی طور پر کسی بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو پیر و مرشد کوشش نہیں کتے۔

                الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون

                ‘‘اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے نہ ڈر۔’’

                اللہ تعالیٰ نے کائنات کو دو رخوں پر قائم کیا ہے۔ زندگی گزارنے کی بھی دو طرزیں متعین ہیں۔ ایک قدر وہ ہے جس میں آدمی شیطانیت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری انبیاء کی طرف ہے جس کے اندر داخل ہو کر آدمی سراپا رحمت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شریک ہو جاتا ہے۔ وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں اور وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں۔ پیغمبرانہ طرزوں اور شیطانی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ رحمانی طرزوں میں داخل ہو جاتا ہے اس کے اندر پیغمبروں کے اوصاف منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پیغمبروں کے اوصاف اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں یعنی جب کوئی بندہ پیغمبرانہ زندگی میں سفر کرتا ہے تو دراصل وہ ان صفات میں سفر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور جب کوئی بندہ ان پیغمبرانہ صفات سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ ان طرزوں میں اور شہوت میں زندگی گزارتا ہے جو دراصل تاریک، کثیف اور جہالت سے معمور شیطانی طرزیں ہیں۔ شیطانی طرز یہ ہے کہ آدمی کے اوپر ڈر اور خوف مسلط رہتا ہے۔

                ڈر اور خوف ایسی کیفیت کا نام ہے جو زندگی کے ہر مقام کو ناقابل شکست و ریخت زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہے۔ اس کیفیت میں آدمی دن ہو یا رات ایک خوف میں بسر کرتا ہے۔ کبھی اسے زندگی ضائع ہونے کا خوف ہوتا ہے، کبھی وہ معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہوتا ہے۔

                پیغمبرانہ طرزوں میں آدمی کے اوپر غم اور خوف مسلط نہیں ہوتا وہ عدم تحفظ کے احساس سے دور رہتا ہے۔ موت چونکہ ایک اٹل حقیقت ہے اس لئے وہ مرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ جب وہ مرنے کے لئے تیار رہتا ہے تو اسے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ موت کوئی بھیانک شئے نہیں ہے بلکہ موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام ہے۔

                جو لوگ پیغمرانہ طرز فکر میں داخل ہو جاتے ہیں وہ اللہ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ کہا ہے۔ انہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں اور دوستوں کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو بندہ ہمارا دوست بن جاتا ہے ہم اس کے اوپر سے خوف اور غم اٹھا لیتے ہیں۔ خوف اورغم جس شخص کی زندگی سے نکل جائے تو پھر خوشی اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔

                حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ انسان اپنی جنت اور دوزخ ساتھ ساتھ لئے پھرتا ہے۔ دوزخ کے متعلق جو اطلاعات ہمیں انبیاء علیہ السلام سے ملی ہیں وہ پریشان حالی ہے۔ درماندگی ہے۔ منتشر خیالی ہے۔ تکلیف و اذیت ہے۔ اب ایک انسان جو ڈر اور خوف میں مبتلا ہے پریشان ہے، ذہنی خلفشار کا شکار ہے تو اس کی اس کیفیت کو کیا ہم دوزخ کی کیفیت نہ کہیں گے۔ دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کے ذریعے جو جنت کی اطلاع ہمیں ملی ہیں وہ یہ ہیں کہ راحت ہو گی، سکون ہو گا، خوشی ہو گی، آرام ملے گا، طرح طرح کی نعمتیں ملیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اب ایک شخص جو اللہ کی رضا میں راضی ہے صبر اور شکر اس کا اوڑھنا بچھونا ہے، عدم تحفظ اور ڈر کے جذبات سے آزاد ہے اس کی اس کیفیت کو کیا ہم جنت کی کیفیت نہ کہیں گے۔ لہٰذا جو لوگ دنیا میں اللہ سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ڈر اور خوف سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں بھی سکون میں ہیں اور آگے بھی سکون کی کیفیت میں زندگی گزاریں گے کیونکہ جنت کے باسی وہ لوگ ہیں جن کے سروں پر اللہ نے دست شفقت رکھ دیا ہے جو اللہ کے دوست ہیں۔

                اگر کسی کے اندر خوف اور غم ہے تو اللہ کے بیان کردہ قانون کے مطابق وہ جنتی نہیں ہے۔ روحانی قدروں میں کسی شاگرد یا راہ سلوک پر چلنے والے مسافر کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس کے دل سے خوف اور غم نکل جائے۔ خوف اور غم انسان کے اندر سے اس وقت تک نہیں نکتے جب تک انسان کے اندر قناعت اور استغناء موجود نہ ہو۔ جس آدمی کے اندر جس مناسبت سے قناعت اور استغناء موجود ہے اس آدمی کے اندر اسی مناسبت سے ڈر، خوف اور غم بھی کم ہوتا رہتا ہے۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی