Topics
میرے مرشد کریم حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں روحانی استاد جو علم حاصل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ
بندے کا اللہ تعالیٰ سے ایسا ربط اور تعلق قائم ہو جائے کہ بندہ بہترین غذا کھائے،
بہترین لباس پہنے، بہترین گھر میں رہے، بہترین خوشبو لگائے، بہترین باغ، درختوں کے
سائے میں تیور میں آوازیں سنے، ہوا سے جھومتے درختوں کے ساز سنے لیکن ذہن اللہ سے
اِدھر اُدھر نہ ہو۔
آپ دن بھر کام کرتے ہیں،
کھانا بھی کھاتے ہیں، چلتے بھی ہیں، گاڑی میں سفر کرتے ہیں، دفتر بھی جاتے ہیں
لیکن دن کی روشنی سے آپ کا ذہن کبھی نہیں ہٹتا، اختیاری طور پر یا غیر اختیاری طور
پر اگر دن کی روشنی سے آپ کا ذہن ہٹ جائے تو آپ کے سامنے تاریکی آ جائے گی اور آپ
چل پھر سکیں گے نہ پڑھ سکیں گے۔ رات ہوتی ہے تو رات کی تاریکی بھی ایک روشنی ہے۔
جتنے رات کے کام ہیں مثلاً سونا، آرام کرنا، ذہن کا سکون وغیرہ اگر رات کی روشنی
سے آپ کا ذہن ہٹ جائے تو آپ رات کے کام نہیں کر سکتے۔ ہماری زندگی کا تجربہ ہے کہ
ہم دن میں رہتے ہوئے اختیاری طور پر اور غیر اختیاری طور پر روشنی سے الگ نہیں ہو
سکتے تو ایسی صورت میں جس اللہ نے روشنی بنائی ہے اس اللہ سے ہم کیوں رشتہ نہیں
رکھ سکتے۔ دراصل یہ ایک پریکٹس ہے اس بات کی کہ ہمارا ذہن یہ جان لے کہ ہم روشنی
میں چل رہے ہیں، روشنی میں کھا رہے ہیں، روشنی میں لکھ رہے ہیں، روشنی میں سو رہے
ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ روشنی ہمارے اوپر محیط ہے۔
روحانی استاد جو اپنے
شاگرد میں ایسی طرز فکر منتقل کر دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرے شادی کرے بچوں کی
تربیت کرے کاروبار کرے جس طرح دن کی روشنی اس پر محیط رہتی ہے اور وہ سارے کام
کرتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ اس پر محیط ہو جاتا ہے اور قرآن پاک کی ان آیات کی
تصدیق ہو جاتی ہے:
‘‘اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے
ہوئے ہے۔’’
روحانی استاد اگر اس کو
روحانیت آتی ہے تو مرید کو وہ طرز فکر منتقل کر دیتا ہے جس طرز فکر میں آپ کا اور
اللہ کا براہ راست رشتہ قائم ہے، آپ کچھ بھی کریں جہاں بھی جائیں آپ کا ذہن اللہ
تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہٹے گا اور آپ کے اندر یہ طرز فکر منتقل ہو جائے گی تو ظاہر
ہے آپ کو اللہ تعالیٰ سے جتنی قربت ہو گی اتنے ہی آپ اللہ کے دوست بن جائیں گے،
اللہ کے قریب ہو جائیں گے۔ دوستی کسے کہتے ہیں؟ دوستی کا مطلب ہے قربت اور دشمنی
کا مطلب ہے دوری۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے تو اللہ کے دوست ہو گئے تو
اللہ نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے کہ:
‘‘اللہ کے دوستوں کو غم و
خوف نہیں ہوتا۔’’
انسان جس طرح سوچتا ہے
وہی اس کا عمل بن جاتا ہے۔ طرز فکر میں اگر اللہ کا خوف ہے، ڈر ہے، بے یقینی ہے تو
بندہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے اور طرز فکر میں اگر محبت پیار خلوص یگانگت ہے تو
بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔
مخلوق میں سے قریب ترین
بندہ اللہ کا اگر کوئی ہوتا ہے تو وہ پیغمبر ہوتا ہے۔ پیغمبروں کی طرز فکر جب آپ
کو منتقل ہو گی تو آپ بھی اللہ تعالیٰ سے قریب ہو جائیں گے۔ روحانی استاد کا یہ
بہت بڑا وصف ہے کہ وہ اپنے شاگرد کے اندر وہ طرز فکر منتقل کر دیتا ہے جو طرز فکر
اس کو حضورﷺ سے منتقل ہوئی ہے۔
آدمی اپنے تمام گناہ اور
برے کام شیطان سے منسوب کر دیتا ہے حالانکہ انسان اپنے برے بھلے کا خود ذمہ دار
ہے۔ جب بھی کوئی آدمی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو اس برے ارادے سے
باز کرتا ہے، منع کرتا ہے۔ اگر آدمی ضمیر کی آواز پر لبیک کہے تو برائی سے بچ جاتا
ہے اگر ضمیر کی آواز نہ سنے اور ڈھٹائی سے برے کام کرتا رہے تو آہستہ آہستہ ضمیر
کی انسپائریشن بند ہو جاتی ہے۔ جب بندہ ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرے تو اس کے شعور
اور لاشعور کے درمیان کا پردہ کثیف تر ہوتا جاتا ہے اور آدمی سراپا گناہ بن جاتا
ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ارشاد ہے کہ ہم نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں پر۔ میرے
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ ایک طرز فکر یہ ہے کہ ایک
آدمی باوجود اس کے کہ ضمیر ملامت کرتا ہے اپنی روزی حرام طریقے سے حاصل کرتا ہے۔
رزق حلال سے بھی روٹی کھاتا ہے اور رزق حرام سے بھی شکم سیری کرتا ہے لیکن یہ بات
مسلمہ ہے کہ اس دنیا میں اسے جو کچھ مل رہا ہے وہ پہلے سے فلم کی صورت میں موجود
ہے۔
ایک آدمی محنت مزدوری کر
کے ضمیر کی روشنی میں روپیہ حاصل کرتا ہے، دوسرا ضمیر کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے
ہوئے روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے وہی روپیہ مل رہا ہے جو لوح محفوظ
پر اس کے لئے جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور انتہائی درجہ نادانی ہے
کہ ایک آدمی اپنی ہی حلال چیز کو حرام کر لیتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علیؓ اپنے
گھوڑے پر سوار کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ آپؓ گھوڑے سے اترے
قریب سے ایک بدو گزرا۔ اسے آواز دے کر بلایا اور کہا ‘‘تھوڑی دیر کے لئے گھوڑے کی
لگام پکڑو میں اتنے میں نماز ادا کر لوں۔’’ بدو نے حامی بھر لی اور حضرت علیؓ نے
نماز کی نیت باندھ لی۔ حضرت علیؓ نماز قائم کر کے دنیا و مافیا سے بے خبر ہو جاتے
تھے۔ بدو نے سوچا موقع اچھا ہے گھوڑا ہضم کرنا تو مشکل تھا لگام لے کر چلتا بنا۔
آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا گھوڑا موجود ہے لیکن لگام اور بدو دونوں غائب
ہیں۔ اتنے میں آپؓ کے ایک خادم کا ادھر سے گزر ہوا آپ نے انہیں دو درہم دے کر کہا
کہ بازار سے ایک لگام خرید لا ؤ۔
خادم بازار پہنچا تو
دیکھا کہ ایک بدو لگام لئے کسی خریدار کا منتظر ہے۔ خادم نے لگام کو پہچان لیا اور
پکڑ کر حضرت علیؓ کی خدمت میں لے آیا۔ آپؓ نے پوچھا اسے کیوں پکڑ لائے ہو؟
خادم نے جواب دیا۔
‘‘حضور! یہ آپ کے گھوڑے کی لگام ہے۔’’
حضرت علیؓ نے پوچھا۔ ‘‘یہ
اس کی کیا قیمت مانگ رہا ہے؟’’
خادم نے جواب دیا۔ ‘‘دو
درہم۔’’
آپؓ نے ارشاد فرمایا۔
‘‘اسے دو درہم دے دو۔’’ اور فرمایا۔‘‘میں نے یہ سوچ کر اسے لگام پکڑائی تھی کہ
نماز سے فارغ ہو کر اس خدمت کے عوض اسے دو درہم دوں گا۔ یہ اس کا ظرف ہے کہ اس نے
اپنا مقدر دوسری طرح لینا پسند کیا۔’’
سات مسافر ہمسفر تھے۔ راہ
میں ایک ندی آئی، جب پار ہو گئے تو سب کو خیال ہوا کہ گنتی کر لینی چاہئے کوئی ہم
میں سے کم تو نہیں ہوا۔ ایک شخص نے گنتی کی اپنے سوا باقیوں کو گنا تو چھ ہوئے فکر
ہوئی کہ لو بھئی ایک کم ہو گیا ہے۔ دوسرے نے کہا میاں تم کو حساب نہیں آتا میں
شمار کرتا ہوں اس نے بھی اپنے کو نہ گنا تو وہی چھ ہوئے۔ اسی طرح سے ہر ایک نے
حساب کیا وہی چھ کے چھ۔ جب یقین ہو گیا کہ ایک آدمی واقعی کم ہے ضرور غرق ہو گیا
ہے۔ سب جمع ہو کر رونے لگے۔ اتنے میں ایک سوار آیا پوچھا ارے تم پر کیا آفت نازل
ہوئی۔ انہوں نے تمام قصہ بیان کیا سوار کہنے لگا۔ اگر میں تمہارے سب آدمی جتنے تھے
پورے کر دوں تو کیا دو گے۔ بولے کہ صاحب اگر ہم پورے سات ہو جائیں تو سات روپے نذر
کریں گے۔ اس نے کوڑا سنبھالا اور کہا کہ لو گنتے جا ؤ۔ ایک ایک کو کوڑا مارتا گیا
اور الگ کھڑا کرتا گیا ساتوں پورے ہو گئے۔ بہت خوش ہوئے اور شکر گزاری کر کے
نذرانہ پیش کیا۔
اسی طرح انسان کا حال ہے
کہ اپنے آپ کو نہیں دیکھتا ادھر اُدھر خیال دوڑاتا اور جابجا ٹٹولتا ہے دربدر مارا
پھرتا ہے یہ نہیں جانتا کہ جو کچھ ہے میرے اندر ہے۔ اگر انسان اپنے باطن میں
جھانکے یعنی خود کو پہچانے تو وہ اللہ کو جان لیتا ہے۔
طرز فکر پہلا بیج ہے جو
کسی مرید یا سالک کے دماغ میں بو دیا جاتا ہے۔ پھر اس بیج کو پروان چڑھانے کے لئے
پیر و مرشد مزید جدوجہد اور کوشش کرتا ہے اور وہ ایسے برگزیدہ حضرات کو سامنے لاتا
ہے جن کی طرز فکر میں حقیقت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ اپنے
روحانی تصرف سے مرید کو خواب کی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جس دنیا میں اولیاء اللہ
اور پیغمبروں کی زیارت اسے نصیب ہوتی ہے۔ مسلسل اور متواتر خواب کے مشاہدہ کے بعد
اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرز فکر پر ایک ایسا
رنگ چڑھ جاتا ہے جو رنگ اولیاء اللہ اور پیغمبروں کے لئے خصوص ہے۔ اس کی باطنی
آنکھ پر پیر و مرشد ایسی عینک لگا دیتے ہیں کہ عینک کے اندر لگے ہوئے شیشے اسے وہی
کچھ دکھاتے ہیں جو پیر و مرشد کی طرز فکر ہے۔ عینک کے شیشے اگر سرخ ہیں تو اسے ہر
چیز سرخ نظر آتی ہے۔ عینک کے شیشے اگر پیلے ہیں تو اسے ہر چیز پیلی نظر آتی ہے۔
عینک کے شیشے اگر صاف اور مجّلے ہیں تو اسے ہر چیز صاف و شفاف اور مجلّہ نظر آتی
ہے۔ عینک کے شیشے اگر دھندلے ہیں تو ہر چیز دھندلی نظر آتی ہے اور اگر عینک کے شیشے
اندھے ہیں تو عینک لگانے کے باوجود آنکھ اندھی رہتی ہے حالانکہ عینک لگانے کے بعد
آنکھ کھلی ہوئی ہے۔ عینک کا شیشہ دراصل طرز فکر ہے۔ عینک کے اندر جس قسم کی طرز
فکر کا شیشہ فٹ کر دیا جاتا ہے دنیا اسی طرح کی نظر آتی ہے۔ عینک کے اندر فٹ ہوا
لینز اتنا صاف اور مجلّہ بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ آدمی میلوں پرے کی چیز
دیکھ لیتا ہے اور عینک کے اندر لگا ہوا شیشہ اتنا اندھا بھی ہوتا ہے کہ عینک لگانے
کے بعد آدمی کو اتنا بھی نظر نہیں آتا جتنا وہ عینک لگانے سے پہلے دیکھ رہا ہوتا
ہے۔ یہ دیکھنا، سمجھنا، چیزوں کی ماہیت کو معلوم کرنا، تفکر کرنا ہر آدمی کے اندر
موجود ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان صلاحیتوں کا اسے استعمال نہیں آتا۔ پیر و مرشد
چونکہ تفکر کی صلاحیتوں کے استعمال کو جانتا ہے اور اس کی تمام زندگی تفکر سے
تعبیر ہے اس لئے جب مرید کے اندر پیر و مرشد کی صلاحیت منتقل ہوتی ہے تو تفکر کا
بویا ہوا بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بن جاتا ہے۔ ایسے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے
وہ آدمی کا اپنا ذاتی ارادہ اور عقل و شعور ہے جس کو وہ سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا
ہونے سے اسے کامیابی حاصل نہیں ہوتی اس لئے کہ اس کے اندر جو عقل و شعور کام کر
رہا ہے اس کا تعلق اس طرز فکر سے ہے جس طرز فکر میں گہرائی نہیں ہے۔ حقیقت پسندی
نہیں ہے، جس طرز فکر کو ثبات نہیں ہے۔
پیر و مرشد یا مراد وہ
شخصیت ہے جس کا کردار عوام الناس سے اور ان لوگوں سے جو روحانی حقیقتوں سے بے خبر
ہیں ممتاز ہوتا ہے اس ممتاز شخصیت سے جس حد تک قربت ہوتی جاتی ہے اسی مناسبت سے
مرید کے اندر روحانی اوصاف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مراد کی طرز فکر کا ایک ایک
جزو مرید کے دماغ کی اسکرین پر نقش ہو جاتا ہے۔ یہی وہ طرز فکر ہے جس کا نام سلوک
ہے یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک اپنے اندر موجود روحانی قوتوں سے متعارف
ہوتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس کے اوپر اس بات کا دارومدار ہے کہ کوئی بندہ اللہ
تعالیٰ کی ذات اور صفات سے کتنا متعارف ہے اور اسے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
نسبت کس حد تک حاصل ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ پیغمبروں کے واقعات، پیغمبروں کی
زندگیوں، پیغمبروں کے مشن اور اوصاف پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو
کر سامنے آ جاتی ہے کہ پیغمبروں نے ایک مخصوص طرز فکر کا پرچار کیا ہے اس مخصوص
طرز فکر میں بہت گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ پیغمبرانہ وصف میں یہ
بات شامل ہے کہ ہر بندہ برائی اور اچھائی میں تمیز کر سکے، یعنی پیغمبروں نے نوع
انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آشنا کیا ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ جہاں
تک زندگی کے تقاضوں کا تعلق ہے تقاضوں ک ے اعتبار سے اللہ کی سب مخلوق یکساں حیثیت
رکھتی ہے۔ دوسری مخلوق کے سامنے اگر انسان کی ممتاز حیثیت ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان
اچھائی اور برائی کے تصور سے واقف ہے۔ اسے اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ زندہ رہنے
کے لئے مخصوص طرزیں انسان کو اچھا بناتی ہیں اور زندہ رہنے کے لئے مخصوص طرزیں
اچھائی سے دور کر دیتی ہیں۔ اچھائی کے تصور کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی انسان کا علم بن
جاتی ہے کہ اچھا فرد وہ ہے جو اپنی اصل سے واقف اور باخبر ہو۔ اصل باخبری اسے ایک
ایسے علم سے روشناس کراتی ہے کہ جو علم اسے اپنے اندر کام کرنے والی مخفی صلاحیتوں
سے واقف کراتا ہے اور یہ مخفی صلاحیتیں دراصل روحانی قدریں ہیں۔ جو بندہ جس مناسبت
سے روحانی قدروں سے واقف ہے اتنا ہی وہ کردار کے اعتبار سے مصفا اور پاکیزہ ہے اور
جو آدمی روحانی قدروں سے جس حد تک ناواقف ہے اسی مناسبت سے اس کا کردار غیر مصفا
اور دھندلا ہے۔
ایک بکری اور انسان کی
زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی بات کہنے پر آدمی مجبور ہے کہ بکری اور انسان
میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کو بکری سے ممتاز کرنے والی صلاحیت یہ
ہے کہ انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے واقف ہو جاتا ہے اور اگر کوئی انسان اپنے
اندر روحانی قدروں سے ناواقف ہے یا اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل نہیں ہے تو وہ ہرگز
بکری یا کسی دوسرے جانور سے ممتاز نہیں ہے۔ روحانی اقدار حاصل کرنے کے لئے ضروری
ہے کہ اسے ایسے باپ کی آغوش میسر ہو جس کے ماحول میں پاکیزگی موجود ہو۔ بچے کا
شعور والدین کی گود، گھر کی چار دیواری اور ماحول سے بنتا ہے۔ ماحول میں اگر کثافت
ہے، تعفن ہے، گھٹن ہے، گندگی ہے، بے سکونی ہے، اضطراب ہے تو بچہ بھی ذہنی طور پر
ذہنی سکون سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں سکون ہے، آرام ہے، والدین
کی آواز میں شیرینی اور مٹھاس ہے، لہجے میں پیار ہے اور دماغی اعتبار سے وہ پرسکون
ہیں۔ اس کا ماحول بھی پرسکون ہے بچہ بالکل غیر اختیاری طور پر پرسکون کردار کا
حامل ہوتا ہے۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں
ہے کہ چیخ کر بولنے والے ماں باپ کے بچے بھی چیخ کر بولتے ہیں۔ غصے اور نفرت سے
بولنے والے والدین کے بچوں کے اندر بھی غصہ اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ ندیدے اور
لالچی والدین کے بچے بھی ندیدے اور لالچی ہوتے ہیں۔ کبر و نخوت کے دلدادہ والدین
کے بچوں کے اندر بھی کبر و نخوت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ضدی اور سرکش والدین کے
بچے بھی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں اس کے برعکس حلیم الطبع والدین کی اولاد بھی حلیم
الطبع ہوتی ہے۔ پیغمبروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے مخصوص کردار کے لوگوں کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور جو لوگ اس
سلسلے سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان کی وابستگی قربت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو
ان کے اندر وہی قدریں منتقل ہو جاتی ہیں جو اس مخصوص کردار کے بامقصد لوگوں کا حصہ
ہیں۔ راہ سلوک میں چلنے والے سالک کو کسی شخص کا ہاتھ پکڑنا اس لئے ضروری ہے کہ
اسے ایک روحانی باپ کی شفقت میسر آئے اور اس روحانی باپ کی اولاد کا ایک ماحول
میسر آ جائے تا کہ اس ماحول میں رہ کر اس کی ذہنی تربیت ہو سکے۔
ذہنی تربیت کا تجزیہ کیا
جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تربیت کے مختلف پہلو ہیں۔ تربیت کا ہر مختلف پہلو
انسانی زندگی میں ایک مستقل کردار ادا کرتا ہے جس ماحول میں ہم لوگ رہتے ہیں اس
ماحول کے مطابق ذہن کا کم یا زیادہ متاثر ہونا ضروری ہے مثلاً ایک آدمی ایسے ماحول
میں رہتا ہے جس ماحول کے رہنے والے لوگ سب نمازی ہیں اور ان کی زندگی میں دین کا
عمل دخل پوری طرح موجود ہے تو وہ آدمی بھی انہی قدروں کو اپنے لے گا جو قدریں
ماحول میں رائج ہیں۔ ایک آدمی طبعی طور پر کتنا ہی خشک کیوں نہ ہو جب وہ ایسے
ماحول میں چلا جاتا ہے جہاں رنگ و روشنی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور گانوں کے
اونچے نیچے سروں سے فضا معمور ہوتی ہے تو بالآخر وہ بندہ گانے بجانے میں دلچسپی
لینے لگتا ہے اور گانے بجانے کے قواعد و ضوابط سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔ بزرگوں کا
کہنا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر ایک بچے کی ایسے ماحول میں
پرورش کی جائے جس ماحول میں گالی دینا معیوب بات نہ ہو تو بچہ اختیاری اور غیر
اختیاری طور پر گالیاں بکتا رہتا ہے۔ اگر پرورش ایسے ماحول میں کی جائے جس ماحول
میں خود غرضی کے علاوہ اور کوئی بات موجود نہ ہو، ہر کام اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس
کے ساتھ کوئی غرض وابستہ ہو، ذہنی طور پر ماحول میں سارے بندے کاروباری ذہن رکھتے
ہیں تو بچہ بھی کاروباری ذہن پر اٹھتا ہے۔ ماحول میں سخاوت کی بجائے بخیلی اور
کنجوسی ہو تو بچہ کا دل بھی کھلا ہوا نہیں ہوتا ہے۔
اس روزمرہ مشاہدے کے پیش
نظر یہ بات مسلمہ امر بن گئی کہ دنیا میں جتنے گروہ آباد ہیں ان کا تعلق اپنی اپنی
طرز فکر سے ہے اور اس طرز فکر کی بنیاد پر کسی گروہ کا کسی ذات کا کسی برادری کا
کسی کردار کا کسی شخص کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کا بھی کردار ہے۔
کسی عمل میں معانی پہنانا
اچھائی یا برائی ہے۔ معانی پہنانے سے مراد نیت ہے۔ عمل کرنے سے پہلے انسان کی نیت
میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اچھائی یا برائی کے پہلو میں ظاہر ہوتا ہے۔ انسان کو عمل
پر اختیار نہیں ہے مگر نیت کرنے پر اختیار ہے۔ آگ کا کام جلانا ہے۔ ایک آدمی آگ کو
لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کھانا پکانے میں استعمال کرتا ہے یہ عمل خیر ہے، ایک
آدمی اس آگ سے لوگوں کے گھر جلا ڈالتا ہے، یہ انتہا درجہ کی برائی ہے۔
شعور کا اگر تجزیہ کیا
جائے تو ہم یہ کہیں گے کہ ہر وہ چیز جو متحرک ہے، گردش کر رہی ہے اور ارتقائی
منازل طے کر رہی ہے۔ شعور رکھتی ہے یعنی کسی چیز کا متحرک رہنا، بڑھنا گھٹنا،
سرسبز و شاداب رہنا، پیدا ہونا، مر جانا، بولنا، سننا، چکھنا شعوری کیفیات ہیں۔
جیسے جیسے کیفیات میں تیزی آتی رہتی ہے شعور بڑھتا رہتا ہے۔ شعور کے بڑھنے سے مراد
یہ ہے کہ علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یعنی علم میں اضافہ دراصل شعوری ارتقاء ہے۔
شعور کے بھی دو رخ ہیں
ایک شعور مادی شعور ہے جو کہ مادیت سے وابستہ ہے اور مادیت میں رہنا پسند کرتا ہے
جبکہ دوسرا شعور روحانی شعور ہے جس کے نزدیک مشیت خداوندی اہم ہے اور جو غیب میں
اس طرح یقین رکھتا ہے کہ غیب اس کے مشاہدے میں آ جاتا ہے۔
یہ قانون قدرت ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے ہر تخلیق کو دو رخوں پر قائم کیا ہے۔ طرز فکر کے بھی دو رخ ہیں ایک
انبیاء علیہ السلام کی طرز فکر یعنی رحمانی طرز فکر اور دوسری شیطانی طرز فکر۔
شیطانی طرز فکر میں شک، بے یقینی، بخیلی، کنجوسی، شہرت و دولت سے محبت، نفرت جیسی
طرزیں کام کرتی ہیں۔ جبکہ رحمانی طرز فکر اس سے بالکل مختلف ہے۔ شیطانی طرز فکر
انسان کے اوپر غم خوف اور پریشانی کے دروازے کھول دیتی ہے۔ جبکہ روحانی استاد جو
ہمیں صحیح طرز فکر کی کسوٹی فراہم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر غم اور خوف
موجود نہ ہو۔ چونکہ انسان بحیثیت تخلیق بھی دو رخوں کا مجموعہ ہے۔ اس لئے اس کے
اندر بھی طرز فکر کے دونوں رخ موجود ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ایک رخ
غالب ہوتا ہے اور دوسرا رخ مغلوب۔ روحانی علوم سکھانے والا استاد شیخ یا مرشد قدم
بقدم چلا کر اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ انسان پیغمبرانہ طرز فکر حاصل کرے اور شک
اور وسوسوں کا رخ مغلوب ہو جائے اور یقین کا رخ غالب آ جائے اور بندہ الا ان
اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کی زندہ تفسیر بن جائے۔
انسان اپنی زندگی یا تو
منفی طرز فکر کے تحت گزارتا ہے یا پھر مثبت یا پیغمبرانہ طرز فکر کے تحت۔ طرز فکر
انسان کے عقائد سے بنتی ہے اور عقیدہ کی تعریف یہ ہے کہ خیالات انسانی میں سب سے
پرزور خیال جو باقی خیالات پر حاوی ہو جائے عقیدہ کہلاتا ہے۔ مختلف عقائد مل کر
زندگی گزارنے کا ایک لائحہ عمل انسان کو دیتے ہیں اور اسی لائحہ عمل کو طرز فکر
کہا جاتا ہے۔
ایسے علوم جو روحانیت کے
دائرہ کار میں نہ آتے ہوں اور طرز فکر بنیادی طور پر دنیاوی ہو تصوف کی اصطلاح میں
استدراج کہلاتے ہیں۔ اس میں شیطنت کا پہلو زیادہ ہوتا ہے۔ استدراجہ علوم بھی بطور
ورثہ منتقل ہوتے ہیں۔ اس کے لئے ایسے استاد کی ضرورت ہے جس کی طرز فکر میں شیطنت
ہے ۔استدراجی علوم کو حاصل کرنے کے لئے بھی ذکر و اشغال کرنے پڑتے ہیں، ریاضتیں
کرنی پڑتی ہیں، محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ جس طرح روحانی انسان سے کوئی کرامت صادر
ہوتی ہے اسی طرح شیطانی علوم یا استدراج کے وارث سے بھی خرق عادت صادر ہوتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بالوضاحت بیان
فرمایا ہے:
فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے مقابلے کے لئے ملک کے تمام جادوگروں کو بلایا۔ جادوگروں نے رسیاں
پھینکیں جو سانپ بن گئیں اور بانس پھینکے جو اژدھے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت
موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:‘‘اے موسیٰ! ڈرو مت اور اپنا عصاء پھینک دو۔’’ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کا عصاء ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا اور اس نے میدان میں موجود
تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے عصا سے بنا ہوا اژدھا اتنا طاقتور تھا کہ جادو یا استدراجی علوم کا وجود
تو ہے مگر علم حق ہمیشہ غالب رہتا ہے کیونکہ علم حق میں ماسوائے اللہ کے اور کبھی
بھی نہیں ہے جبکہ استدراج کی بنیاد زرپستی، جاہ طلبی اور دنیاوی عزت و وقار ہوتا
ہے۔ علم حق یا پیغمبرانہ طرز فکر کا حامل بندہ جو کچھ کرتا ہے جو کچھ کرتا ہے اور
جو کچھ سنتا ہے وہ صرف اور صرف حق ہوتا ہے دنیاوی جاہ و جلال نہیں۔
میرے مرشد کریم فرماتے
ہیں کہ معجزہ اور جادو میں یہ فرق بہت نمایاں ہے کہ جادو کے زور سے کوئی چیز قائم
کی جائے یا کسی کے اندر تصرف کیا جائے چونکہ وہ اس ذہن کی پیداوار نہیں جو ذہن
حقیقت سے آشنا ہے اس لئے جادو کی تخلیق یا جادو کا یہ مظاہرہ عارضی ہوتا ہے۔ قانون
یہ ہے کہ حقیقت ادلتی بدلتی رہتی ہے حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے۔ طرز فکر اگر غیر حقیقی
ہو تو وہ عارضی ہوتی ہے اور اس سے آدمی ذہنی طور پر فرار حاصل کر لیتا ہے۔ طرز فکر
اگر حقیقی ہو تو حقیقت آشنا طرز فکر جہاں بھی منتقل ہو جائے حقیقت آشنا رہتی ہے
اور حقیقت میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ گویا استدراجی طرز فکر سے چھٹکارا پایا جا سکتا
ہے۔ تاریخ میں ہمیں بے شمار مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ طالب نے استدراجی علوم حاصل
کرنے کے بعد مثبت یا پیغمبرانہ طرز فکر کی طرف رجوع کیا مگر ہمیں ایک مثال بھی
ایسی نہیں ملتی کہ کسی پیغمبرانہ طرز فکر کے حامل بندے نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے
کی کوشش کی ہو اور علم استدراج کی طرف رجوع کیا ہو۔
دراصل انسان کا کردار اس
کی طرز فکرسے تعمیر ہوتا ہے۔ طرز فکر میں اگر پیچ ہے تو کسی بندے کا کردار بھی
پرپیچ بن جاتا ہے۔ طرز فکر سادہ ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی کارفرما ہوتی ہے۔
طرز فکر اگر سطحی ہے تو ایسا بندہ ہر چیز کو بالکل سطحی طریقہ پر سوچتا ہے۔ طرز
فکر میں اگر گہرائی ہے تو بندہ ہر چیز کے اندر گہرائی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں اللہ تعالیٰ نے اس طرز فکر کی نشاندہی کی
ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سورج کو دیکھا تو سبھی کہ یہی خدا ہے لیکن جب اسے
زوال پذیر ہوتے دیکھا تو طرز فکر کی گہرائی نے ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ
گھٹنے والی چیز کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماحول کے جتنے
اور لوگ تھے ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ بدلنے والی چیز اور گھٹنے والی چیز
کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔
اس سے ایک بات کی وضاحت
ہوتی ہے کہ بہت برے ماحول میں ایک خاص طرز فکر کے لوگوں میں رہتے ہوئے بھی انسان
کی طرز فکر دوسروں سے الگ ہو سکتی ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حقیقت
پسندانہ طرز فکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاں سے حاصل کی حالانکہ ان کے ماحول
میں یہ بات نظر نہیں آتی؟
دراصل حقیقت پسندانہ طرز
فکر اور منفی طرز فکر کے دونوں رخ انسان کے اندر موجود ہیں۔ بات صرف توجہ دینے اور
اپنانے کی ہے۔ تصوف میں سالک جب راہ سلوک اختیار کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی طرز
فکر میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور رحمانی طرز فکر کی داغ بیل اس طرح پڑتی ہے کہ
روحانی استاد یا پیر و مرشد اپنے مرید سے بتدریج اس طرح کی باتیں کرتا ہے جو کہ
ماحول میں موجود نہیں ہوتیں یا پھر ماحول میں رہنے والے لوگ اپنے اختیار سے ان
باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ مثلاً اگر کسی روحانی انسان کی مجلس میں بیٹھا جائے تو
ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ جو کہ عام طور پر دوسری مجلسوں میں نہیں کہی
جاتیں۔
سب سے پہلا کام جو پیر و
مرشد یا روحانی استاد اپنے مرید یا سالک کے ساتھ کرتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مرید
کے اندر اس بات کو راسخ کر دیتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی مفروضہ فکشن اور عارضی ہے
اور جو چیز مفروضہ فکشن اور عارضی ہے اس کو حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات وہ
الفاظی طور پر سمجھاتا ہے اور مرید کی روزمرہ زندگی میں مختلف حالات و واقعات کے
ذریعے عاداتی طور پر بھی سمجھاتا ہے۔ اگر مرید کی طرز فکر سطحی ہے تو وہ اس بات کو
سمجھنے میں وقت لیتا ہے اور اگر مرید کی طرز فکر میں سوچنے، سمجھنے، پرکھنے اور
تفکر کرنے کی عادت ہے تو وہ اس بات کو جلدی سمجھ جاتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ آدمی
چاہے جتنا بھی بااختیار ہو زندگی کے شب و روز میں کہیں بھی اس کا اختیار زیر بحث
نہیں آتا۔ وہ پیدائش کے بعد بالکل غیر ارادی طور پر بڑھتا رہتا ہے، وہ بوڑھا نہیں
ہونا چاہتا مگر وہ بوڑھا ہوتا ہے وہ مرنا نہیں چاہتا مگر وہ مر جاتا ہے۔ وہ کھانا
کم کر سکتا ہے مگر کھائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لمحات، وقت، گھنٹے، دن، مہینے
اور سالوں کا یہ ایک ایسا تغیر ہے جس سے کوئی بھی فرد انکار نہیں کر سکتا۔
ان تمام تفسیرات کی
نشاندہی کر کے پیر و مرشد یہ بات بتاتا ہے کہ اس تفسیر کے پیچھے یہ حقیقت چھپی
ہوئی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جس کے ہاتھ میں اسی تغیر و تبدل کی ڈوریاں ہیں جو کہ
اسی سارے کھیل کو چلا رہا ہے۔ جب سالک کے ذہن میں مادی طرز فکر کی گرد چھٹتی ہے
اور یہ باتیں اس کے ذہن میں راسخ ہو جاتی ہیں تو پھر اس کا ذہن خود بخود اس ہستی
مطلق کی طرف رجوع کرتا ہے۔ روحانی استاد سے جس حد تک ذہنی قربت ہوتی ہے اسی مناسبت
سے مرید کے اندر روحانی اوصاف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مراد کی طرز فکر کا ایک ایک
جزو مرید کی دماغ کی اسکرین پر نقش ہو جاتا ہے۔ یہی وہ طرز فکر ہے جس کا نام سلوک
ہے، یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک اپنے اندر موجود روحانی قوتوں سے
متعارف ہوتا ہے۔ یہی وہ تشخص ہے جس کے اوپر اس بات کا دارومدار ہے کہ کوئی بندہ
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے کتنا متعارف ہے اور اسے حضورﷺ کی نسبتیں کس حد تک
حاصل ہیں۔
شیطانی طرز فکر میں زندگی
گزارنے والا بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل نہیں ہو سکتا اور پیغمبرانہ طرز فکر سے
آشنا بندہ کبھی شیطانی گروہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ شیطانی طرز فکر میں بڑی خرابی
اور لایانی بات یہ ہے کہ بندے کے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے یعنی
وہ اپنے ہر عمل کا صلہ چاہتا ہے اور اس صلے کا نام اس نے ثواب رکھتا ہے۔ تصوف ایسے
عمل کو جس عمل کے پیچھے کاروبار ہو جس عمل کے پیچھے کوئی ذاتی غرض وابستہ ہو ناقص
قرار دیتا ہے اور یہی انبیاء کی بھی طرز فکر ہے۔ جہاں تک قرآن پاک میں اس بات کا
تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھے لوگوں کے اعمال کی جزا کے سلسلے میں اپنے انعامات
کا تذکرہ فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہیں لیکن اس بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا
کہ کوئی بندہ نیک عمل اس لئے کرے کہ اس کا اسے ا جر ملے گا۔
زندگی کی بنیاد یا زندگی
کی بساط ایک طرز فکر کے اوپر قائم ہے اگر وہ طرز فکر ایسی ہے جو بندے کو اللہ سے
دور کرتی ہے تو اس کا نام شیطانیت ہے اور وہ طرز فکر جو بندے کو اللہ سے قریب کرتی
ہے اس کا نام رحمانیت ہے یعنی اس دنیا میں دو گروہ ہیں جن میں سے ایک گروہ انعام
یافتہ ہے اور دوسرا گروہ باغی اور ناشکر اہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ
پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور ایک
طرز اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔
روحانی استاد یا پیر و
مرشد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح بندے کو رحمانی طرز فکر، براہ راست طرز فکر،
پیغمبرانہ طرز فکر میں داخل کرے۔ بندے اور اللہ کے درمیان واسطوں کو ختم کیا جائے
اور بندے کا براہ راست اللہ کے ساتھ تعلق بحال کیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا بہت
ضروری ہے کہ سالک کا مرشد کے ساتھ ذہنی رابطہ ہوتا ہے۔ مرید ذہنی طور پر جتنا
زیادہ اور محبت سے رجوع کرتا ہے اسی لحاظ سے وہ طرز فکر حاصل کرتا ہے۔ جبکہ دوسری
طرف اگر مرید ساری عمر بھی مرشد کی خدمت کرتا رہے مگر ذہنی طور پر وہ اپنے آپ کو
مرشد کے سپرد کرنے کو تیار نہ ہو تو گویا اس نے اپنی عمر برباد کر دی۔ یہاں ایک
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیر و مرشد سالک میں اتنی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے کہ وہ
اپنا ذہنی رابطہ ہر وقت مرشد کے ساتھ رکھے۔
یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ
بے شک پیر و مرشد ایسا کر سکتا ہے مگر اس کے نزدیک مشیت خداوندی زیادہ اہمیت رکھتی
ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بااختیار بنایا ہے اور انسان خیالات کا
مجموعہ ہے اس لئے جب تک سالک اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مرشد کے اختیار میں
بے اختیار نہیں ہو جاتا مرشد اپنا کام شروع نہیں کرتا۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی