Topics

مرشد سے محبت

            

عقل گوید دنیا و عقبٰی بجو

عشق میگوید بجز مولیٰ مجو

                ترجمہ: عقل کہتی ہے کہ دنیا و آخرت کی تلاش کر۔ عشق کہتا ہے کہ خدا کے سوا اور کسی کی تلاش نہ کر۔

عقل میگوید کہ خودرا پیش کن

عشق میگوید کہ ترک خویش کن

                ترجمہ: عقل کہتی ہے کہ اپنے آپ کو پیش کر۔ عشق کہتا ہے کہ اپنے آپ کی نفی کر۔

                حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ تیری بارگاہ میں میرا کون سا فعل پسند ہے تا کہ میں اس کو زیادہ کروں۔ حکم ہوا کہ تمہارا یہ فعل ہم کو بہت پسند آیا کہ زمانہ طفلی میں جب تمہاری ماں مارا کرتی تھی تو تم مار کھا کر بھی اسی طرف دوڑتے تھے پس طالب خدا کو بھی یہی لازم ہے کہ گو کیسی ہی مصیبت و سختی ذلت و خواری پیش آئے لیکن بہرحال خدا کی طرف متوجہ رہے۔ پس سالک کو بھی مرشد سے ایسی ہی محبت ہونی چاہئے کہ گو کیسی ہی مصیبت و سختی، ذلت و خواری پیش آئے لیکن ہر حال میں مرشد کی طرف متوجہ رہے۔

                حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ مرید اور مرشد کا رشتہ استاد شاگرد، اولاد باپ کا ہے۔ مرید مرشد کو محبوب ہوتا ہے۔ مرشد مرید کی افتاد طبیعت کے مطابق تربیت دیتا ہے۔ اس کی چھوٹی بڑی غلطیوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ نشیب و فراز اور سفر کی صعوبتوں سے گزار کر اسے اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں پر سکون زندگی اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔

                جس وقت بابا فرید الدین شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت مخدوم علی احمد صابر اپنے ہمشیرہ زادہ کو تعلیم کیا تو ان پر ایک ایسی حالت طاری ہوئی کہ حضرت کا طواف کرتے تھے اور یہ شعور ورد زبان تھا:

کعبہ خوانم یا پیمبر مصحف ست ایں یا خدا

اصلاح شوق بسیار ست و من دیوانہ ام

                ترجمہ: بلند (آواز سے) پڑھوں کہ یہ پیر مصحف ہے یا خدا! اصلاح کا شوق بہت ہے اور میں دیوانہ ہوں۔

                ایک روز حضرت جنیدؒ کو بادشاہ نے کسی مسئلہ کی تحقیق کے واسطے طلب فرمایا ان کے ہمراہ حضرت شبلیؒ بھی گئے۔ بادشاہ نے حضرت جنیدؒ سے سخت کلامی کی چونکہ حضرت شبلیؒ جوان آدمی تھے اور نئی فقیری کا جوش تھا۔ آپؒ کو غصہ آ گیا قالین کو تھپکا وہ شیر مجسم بن کر اٹھنے لگا۔ حضرت جنیدؒ نے اس پر نظر کی تو پھر اصلی حالت پر آ گیا۔ دوبارہ بادشاہ نے پھر بے ادبانہ کلام کیا۔ حضرت شبلیؒ نے پھر قالین پر ہاتھ پھیرا غرض تین بار یہی معاملہ پیش آیا۔ آخری دفعہ بادشاہ نے بھی شیر کو اٹھتے ہوئے دیکھا تو خوف کے مارے بدحواس ہو گیا فوراً تخت سے اترا حضرت جنیدؒ کے قدموں پر گر پڑا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اس لڑکے کی بات کا کچھ خیال نہ فرمائیں۔ یہ بچہ ہے آپ کو وہی بات زیب دیتی ہے اور ہم کو یہی بات لازم ہے یعنی ‘‘اطاعت کرو تم اللہ کی اور اللہ کے رسول کی اور حاکم متشرح کی۔’’ الغرض بادشاہ نے اپنا قصور معاف کرایا اور عزت کے ساتھ ان کو رخصت کیا پس وجہ تسمیہ حضرت شبلیؒ کی یہ ہے کہ شبل شیر کے بچے کو کہتے ہیں جب سے یہ ماجرا گزرا تو ان کا لقب شبلی یعنی شیر والا ہو گیا ورنہ اصل نام ان کا ابوبکر تھا اور حضرت جنیدؒ کے مرید بھی تھے اور ہمشیرہ زادہ بھی۔

                جب کسی مرید کو شیخ سے کامل محبت ہو جاتی ہے تو شیخ کی طرز فکر میں کام کرنے والی روشنیاں مرید کے اندر منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جب محبت کامل اور دائمی ہوتی ہے تو شیخ کے کمالات متواتر اس میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اسے عروج نصیب ہوتا رہتا ہے۔ مرید کو چاہئے کہ اپنا احتساب کرتا رہے کہ وہ شیخ سے محبت میں کس حال پر ہے۔

                اگر مرید کو شیخ سے اس کی ولایت، عہدہ، مقام یا ربط کی وجہ سے محبت ہو تو اس کو اس محبت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا جب تک کہ یہ محبت بغیر کسی غرض کے ذات شیخ سے نہ ہو جس طرح بچوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قسم کی محبت مرید اور مراد کے درمیان ہونی چاہئے تا کہ یہ محبت مرید کو اغراض کی طرف نہ لے جائے کہ اغراض کے آنے سے شیطانی وسوسے پیدا ہو جاتے ہیں جس سے کبھی تو محبت منقطع ہو جاتی ہے اور کبھی رک جاتی ہے۔ محبت صادق اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ محض شیخ کی ذات سے ہو نہ کہ اس کے اسرار کی خاطر محبت کرے۔ ذات کی محبت سے مراد یہ ہے کہ محبت خالص اللہ کے لئے ہو۔

                مرید جب روحانی طور پر مراد سے محبت کرتا ہے تو مراد روحانی طور پر اسے نوازتا ہے لیکن اگر مرید کی ذات شیخ کی ذات کے اسرار سے محبت رکھتی ہو اور یہ محبت ذات کو چھوڑ کر اس کے اسرار و معارف کے ساتھ ہو جائے تب یہ فیض رک جاتا ہے لہٰذا مرید کو چاہئے کہ ہر قسم کے منافع سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنی پوری کوشش شیخ کی محبت میں صرف کر دے اور شیخ سے بے لوث و بے غرض محبت کرے۔

                بعض لوگ مرشد کو محج ایک استاد یا معلم سمجھتے ہیں جب کہ مرید اور مراد کا رشتہ عاشق اور معشوق کا رشتہ ہے۔ غرض یہ کہ شیخ سے ایسی محبت ہونی چاہئے کہ اپنے زن و فرزند اور جان و مال سب سے زیادہ اسے عزیز جانے۔ اگر مرتے وقت شیخ ہی کی یاد میں دم نکلے تو یہ ایک بڑی سعادت ہے۔ شیخ خدا کا سفیر اور اس کے خزانے کا امین ہے۔ طالب کو جو کچھ ملتا ہے صرف اسی کے ہاتھ سے ملتا ہے۔ مرشد کو ساقی سمجھو، معرفت کی شراب اسی کے ہاتھ سے ملے گی لازم ہے کہ مرید اپنے شیخ کو اپنے جسم کی جان بلکہ جانِ جان تصور کرے۔

                خواجہ محبوب عالم قدس سریٰ نقشبندی اپنی کتاب محبوب السلوک میں لکھتے ہیں:

                ‘‘مرید مرشد کے آئینے میں خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور مرشد کامل مرید کے آئینے میں اپنے آپ کو یعنی مخلص مرید کا دل جب مرشد کی تمام صفات سے رنگین ہو جائے تو مرشد اس معنی سے مرید کے دل میں اپنے آپ کو دیکھتے ہیں اور مرشد چونکہ تمام مظہر ذات باری تعالیٰ ہیں مرید ان کے آئینہ دل میں ذات احدیت کا معائنہ کرتا ہے۔

                ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

                ‘‘کبھی کوئی مرید کامل نہیں ہو سکتا تا وقتیکہ پیشوا کے غصہ و رنج اور لطف و محبت کا مزا نہ چکھ لے۔ اس واسطے پیشوائے کامل کا غصہ رحمت الٰہی ہے بشرطیکہ ایسی حالت میں مرید کو خدا تعالیٰ توفیق انانیت ک ے ذائل کرنے اور اپنے دل میں عجز و انکساری بڑھانے کی عطا فرمائے سو ایسے وقت میں اس کی کوشش کیا کرو۔’’

                حضرت عنایت شاہ قادریؒ، حضرت بابا بلھے شاہؒ کے مرشد تھے۔ ایک دن حضرت شاہ عنایتؒ اپنے صاحبزادوں کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ادھر قصور میں حضرت بابا بلھے شاہؒ نے اپنے مرشد کریم کے بارے میں کچھ الفاظ کہے جن سے گستاخی اور بے ادبی کا پہلو نکلتا تھا۔ ابھی الفاظ حضرت بابا بلھے شاہؒ کے منہ سے نکلے ہی تھے کہ ادھر لاہور میں کھانا کھاتے کھاتے اچانک حضرت عنایتؒ کے صاحبزادے محمد زمان نے اپنے والد محترم سے کہا: ابا جی! آپ نے دیکھا بلکھا کیا کہہ رہا ہے؟ حضرت شاہ عنایتؒ نے بیٹے کی بات سنی تو آپ نے منہ سے بوٹی کی ہڈی نکال کر دور پھینکتے ہوئے کہا۔ ‘‘اے بلھے! تو نے کچھ حاصل کیا تھا تجھ سے چھین لیا گیا ہے۔’’ اور ہوا بھی یہی حضرت بابا بلھے شاہؒ نے جو کچھ روحانیت کی دولت حاصل کی وہ ان سے جاتی رہی۔ مرشد کا ہاتھ پشت سے اٹھ گیا تو آپ دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔

                آخر دھکے کھاتے ایک روز ایسے گھر پہنچے جہاں رہنے والی عورت ایک طوائف تھی۔ آپ نے اس عورت سے کہا کہ میں تمہاری چلم میں تمباکو بھر دیا کروں گا کوئی تنخواہ نہیں لوں گا۔ اللہ نے چاہا تو میرا معاوضہ ایک دن مجھے خود بخود مل جائے گا۔ وہ عورت اور گھر والے خوش ہوئے کہ ایک خوبصورت نوجوان مفت میں ملازم مل گیا ہے۔ حتیٰ کہ آپ نے بارہ سال طوائف کے گھر میں گزارے اور بیگار کاٹتے رہے۔ بارہ سال بعد حضرت شاہ عنایتؒ ایک دن قصور کے ایک بازار میں سے گزر رہے تھے۔ حسب معمول آپ نے اپنا چہرہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ راستے میں آپ نے دیکھا کہ ایک جگہ مجرا ہو رہا ہے اور وہاں بلھے شاہؒ بھی کھڑے ہیں۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ نے بھی مرشد کو آتے ہوئے دیکھ لیا اور طوائف کو ناچنے سے روک دیا اور فرمایا۔ ‘‘تم پرے ہٹ جا ؤ، اب میرا معاوضہ لینے کا وقت آ گیا ہے۔ مجھے ناچ کر اپنے دوست کو راضی کر لینے دو۔’’ پھر شاہ عنایتؒ کو دیکھ کر حضرت بابا بلھے شاہؒ اتنا ناچے کہ ناچتے ناچتے آپ کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ پھر بے ہوش ہو کر گرنے لگے تو شاہ عنایتؒ آگے بڑھے اور آپ کو تھام لیا اور فرمایا۔ ‘‘کیا تم بلھے ہو؟ عرض کی۔‘‘نہیں سرکار میں بلھا نہیں بھولا ہوا ہوں۔’’ یہ سن کر شاہ عنایتؒ کو آپ پر رحم آ گیا اور انہوں نے آپ کو معاف کر دیا۔ آپ کی ولایت بحال کر کے سب کچھ عطا فرما دیا۔ بعد میں حضرت بابا بلھےؒ شاہ دنیائے تصوف و ولایت کے بہت بڑے بزرگ ثابت ہوئے۔

                حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ ایک دن صبح کے وقت باغ میں سیر کر رہے تھے۔ درخت پر ایک بلبل نغمہ خوانی کر رہی تھی۔ خواجہ صاحب نے ایک مرید سے پوچھا بلبل کی آواز کس جگہ سے آ رہی ہے اس نے عرض کیا۔ بیر کے درخت پر بلبل بیٹھی ہے شاید یہاں کوئی تازہ غنچہ نظر آیا ہو۔ آپ نے فرمایا عاشق صادق کے لئے ہر جگہ پھول ہی پھول ہوتے ہیں۔ یعنی جب عاشق فنا فی الحبیب ہو جاتا ہے تو وہ ہر جگہ اپنے معشوق کا حسن و جمال ہی دیکھتا ہے۔

                آپ فرماتے ہیں ‘‘عشق کی گرمی کی وجہ سے امیر خسرو کی قمیض دل والی جگہ سے جلی رہتی تھی۔’’ کسی نے پوچھا کہ اس قسم کا عشق کس طرح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ‘‘اشغال و اذکار کی برکت سے نفسانی خطرے اور شیطانی وسوسے دور ہو جاتے ہیں لیکن دولت عشق محض اللہ کی عطا ہے۔’’

                حضرت سید پیر جماعت علی شاہؒ کو اپنے مرشد بابا فقیر محمدؒ صاحب سے بڑی محبت تھی۔ آپ جب بھی ان سے ملنے چورہ شریف پہنچتے تو اسٹیشن سے خانقاہ تک ننگے پاؤں جاتے اور ننگے پاؤں  خانقاہ سے اسٹیشن لوٹتے۔ چورہ شریف میں قیام کے دوران بھی بغیر جوتوں کے پھرتے تھے۔ اسی طرح جب آپ کے مرشد علی پور سیداں آتے تو آپ اسٹیشن سے گھر تک ان کو لینے جاتے اور ان کے پیچھے ننگے پاؤں  چلتے۔ ان کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے پکواتے اور جب وہ کھانا کھا رہے ہوتے تو آپ ہاتھ باندھے غلاموں کی طرح کھڑے رہتے۔ بابا فقیر محمد صاحبؒ کے ہمراہ آئے ہوئے درویشوں کی بھی بہت خدمت کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ خود دھلواتے تھے اور ان کے سامنے بیٹھنا بھی گستاخی خیال کرتے تھے۔ اپنے مرشد عالم کے وصال کے بعد ان کی اولاد میں سے جب بھی کوئی علی پور سیداں آتا تو آپ ان کے استقبال کے لئے ننگے پاؤں  آبادی سے باہر نکل آتے، پھر ان کو سواری پر بٹھاتے اور خود ساتھ ساتھ پیدل چلتے تھے۔ پھر گھر آ کر ان کو مسند پر بٹھاتے اور خود ان کے قدموں میں بیٹھ جاتے۔ یہ تو آپ کی امتیازیت اپنے پیر صاحب اور ان کی اولاد کے لئے تھی۔ اس کے علاوہ اگر چورہ شریف کا کوئی عام آدمی بھی علی پور سیداں آ جاتا تو آپ اس کی بھی ایسی ہی خدمت کرتے جیسے اپنے پیروں کی کرتے تھے اور واپسی پر ان کو مالا مال کر کے بھیجا کرتے۔

                محبت ایثار محبوب کا نام ہے یعنی اپنے محبوب پر خود کو قربان کر دینا۔ دوست پر اپنی تمام خواہشات کو قربان کر دینا محبت ہے۔ محبت میں کمترین مقام موافقت ہے۔ اولیائے کرام سے محبت کے ذریعے خدائی تعلق پیدا ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے لوگوں سے محبت کے ساتھ صرف طبعی تعلق قائم ہوتا ہے۔

                حضرت مادھو لال حسینؒ کو اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ حسینؒ صاحب سے بڑی محبت تھی۔ لمحہ بھر کی جدائی بھی انہیں شاک گزرتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت نے مادھو کو امتحان و آزمائش میں ڈال دیا۔ آپ نے مادھو کو حکم دیا کہ وہ راجہ مان سنگھ جو اکبری عہد کا امیر تھا کی ملازمت کریں اور اس کے ساتھ دکن کی مہم پر جائیں مادھو کو اگرچہ اپنے مرشد کی مفارقت گوارہ نہ تھی لیکن وہ ارشاد مرشدی سرتابی بھی نہ کر سکتے تھے۔ ناچار دل پر پتھر رکھ کر وہ دکن روانہ ہوئے مہم جوئی میں کامیابی کے بعد راجہ کی ملازمت میں مادھو لال حسینؒ نے تقریباً بارہ سال گزارے اور ایک طویل عرصے کے بعد لاہور واپس آئے۔

                اللہ والے ہر آنے والے معاملات سے باخبر ہوتے ہیں۔ شاہ حسینؒ جانتے تھے کہ وہ اور مادھو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں محبت بھی ایسی جس میں جدائی برداشت کرنے کا تصور بھی سوہان روح ہے۔ اس کے ساتھ ہی شاہ حسینؒ کو خدا نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ جلد ہی وفات پانے والے ہیں اس لئے انہوں نے سوچا کہ میری وفات کے بعد دائمی جدائی مادھو کے لئے ناقابل برداشت ہو گی۔ ان رموز کو پیش نظر رکھ کر انہوں نے مادھو کو راجہ مان سنگھ کی ملازمت اختیار کرنے اور کسی مہم پر جانے کا حکم دیا۔ آپ کی واپسی پر جب آپ کے پیر و مرشد حضرت شاہ حسینؒ وفات پا گئے تو ایک لمبی جدائی اور طویل فراق کے عادی ہونے کے باوجود آپ مرشد کی وفات کی خبر سن کر اپنے حواس کھو بیٹھے۔ آپ کا قول ہے ‘‘ایمان محبت کامل کا نام ہے۔’’

                حضرت طاہر بندگیؒ کو اپنے مرشد حضرت شاہ قلندر قادریؒ سے بے حد لگا ؤ تھا۔ ایک دفعہ حضرت لاہور تشریف لائے اور حضرت طاہر بندگیؒ کے مکان پر پہنچے اس وقت آپ بالائی منزل پر تھے۔ مرشد کو دیکھتے ہی بے اختیار چھلانگ لگا کر قدم بوسی کا ارادہ کیا۔ مرشد کو آپ کی قلبی کیفیت معلوم ہو گئی اس لئے فوراً بلند آواز سے فرمایا۔ ‘‘طاہر! حوصلے سے کام لو اور سیڑھی کے ذریعے نیچے آ ؤ۔’’

                علامہ اقبالؒ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں کہ عاشق لوگ اپنے محبوب سے محض لمحہ بھر کی دوری بھی قبول نہیں کرتے لہٰذا ہر وقت دل کا جھکا ؤ اپنے دوست کی طرف رکھنا ہی بہتر ہے۔ بیکار انسان کا ذہن آوارگی کے باعث شیطان کی غلامی میں آ جاتا ہے اور وہ اسے ہمیشہ برائی کی طرف مائل کرتا رہتا ہے۔ علماء کا خیال ہے کہ سالک جس حال میں بھی ہو، ہمہ وقت تصورات کی دنیا میں اپنے شیخ کے سامنے رہے کیونکہ محبت کے ساتھ شیخ کی رفاقت (بدنی رفاقت ہو، قلبی رفاقت ہو یا ذہنی رفاقت ہو) میں رہنے سے محبت اور فیضان میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح کرنے سے انسان اللہ کے ساتھ قرب میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔

                فقر کی شان میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

جب عشق سیکھتا ہے آداب خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ

ہو جس کی فقیری میں بوئے اسرار الٰہی

                رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:

                ‘‘تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جا ؤں۔’’

                اولیائے کرام چونکہ انبیاء کے جانشین ہوتے ہیں اس لئے مرید کو اپنے شیخ سے محبت کا ہونا ضروری ہے۔

                سائیں توکل شاہ انبالویؒ فرماتے ہیں کہ اپنے سلسلے کے بزرگوں کے بعد مرید کے دل میں سب سے زیادہ محبت اپنے شیخ کے لئے ہو۔ اگر مرید کی غیر موجودگی میں شیخ اس کا سارا مال اس کے گھر سے لے جائے تو بھی برا نہ محسوس کرے۔

                حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کو اپنے پیر و مرشد کے ساتھ بڑا لگا ؤ تھا۔ ان کی شاعری میں بھی اس محبت کا رنگ نظر آتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں ‘‘میرا محبوب اپنی شان و جمال کے ساتھ خراماں چلتا ہے تو زمین سے بھی بسم اللہ کی صدائیں اٹھتی ہیں اور جس جس جگہ پر میرے پیارے کے قدم پڑتے ہیں وہاں کی مٹی اس کے قدموں کو بوسہ دیتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے چاروں طرف حوریں ادب سے کھڑی ہوں۔’’

                شاہ صاحب عاشق کے کردار کی الفت، محبت جیسے دیئے گئے درد، فراق کی لذت اور درد مندوں سے الفت اور ایسی دیگر کیفیات کو بڑی نفاست اور دلکشی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ محبوب کی باتیں سننا ضروری نہیں ہوتیں بلکہ محبوب کا سکوت ہی سلام اور پیار بھرا انداز گفتگو ہوتا ہے۔

                ایک مرتبہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ بازار جا رہے تھے کہ دیکھا کہ ایک بچہ چیز خرید رہا تھا۔ بچے کو دیکھ کر حضرت نظام الدین اولیاءؒ پر کیفیت طاری ہو گئی۔ امیر خسرو قریب کھڑے دیکھ کر بھانپ گئے کہ سرکار کی یہ کیفیت بچے کی وجہ سے ہے چنانچہ امیر خسرو نے یہ سوچا کہ کہیں بچے کے جانے کی صورت میں سرکار کی یہ کیفیت ٹوٹ نہ جائے۔ کپڑے پھاڑ کر گریبان چاک کر کے پگڑی اتار کر کمر پر باندھ کر ناچنا شروع کر دیا بالکل یہ نہ سوچا کہ میں درباری ہوں اور میری عزت میں فرق آئے گا۔ کافی دیر تک ناچتے رہے۔ بہت سے لوگ اور وہ بچہ بھی کھڑا رہا۔ آخر حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی یہ کیفیت ختم ہوئی اور آپ نے امیر خسرو کو حکم دیا کہ بس کرو آ جا ؤ۔

                مرید کو مرشد کی ایک ایک چیز حتیٰ کہ کیفیت بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے۔ حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ آدمی جس خیال میں مرے گا اسی خیال میں قیامت کے روز اٹھے گا۔

                تو یہ خیال کرتا ہے کہ عاشق کے دل سے ہرگز تیری محبت نکل جائے گی۔ جب وہ مرے گا تو مبتلا مرے گا اور جب وہ اٹھے گا تو مبتلا اٹھے گا۔

                میرے مرنے کے بعد جب تو میری قبر پر گھاس اگا ہوا دیکھے گا تو ہر پتے پر اس جاناں کا نام لکھا ہوا پائے گا جو میری قبر پر اگے گا۔

                ایک بہروپیا تھا ہمیشہ نیا بہروپ بنا کر بادشاہ کے روبرو جاتا کہ دھوکہ دے کر انعام لے لیکن بادشاہ کبھی اس کے دا ؤ میں نہ آتا۔ ناچار ہو کر بہروپیا ایک جوگی کے پاس گیا اور کپالی چڑھانی سیکھی یعنی حبس دم۔ پھر جوگی بن کر اپنے شہر کے سواد میں آن کر ٹھہرا اور ایک مختصر گنبد بنایا اور چند چیلے جمع کئے اور حسب معمول جوگیہ حبس دم کر کے بیٹھ گیا۔ گنبد کا دروازہ تیغا کرا دیا۔ اس خیال سے بادشاہ وقت یہ خبر سن کر کہ ایک فقیر اتنی مدت سے مکان میں بند ہے یہاں آئے گا اور مکان کھلوائے گا تو پھر زندہ ہو جا ؤں گا اور اس سے انعام لوں گا۔ خدا کی قدرت چند روز میں ایک انقلاب عظیم واقع ہوا اور نہ وہ بادشاہ رہا، نہ وہ سلطنت۔ شہر بھی تاراج و برباد ہو گیا۔ جوگی کے چیلے بھی بھاگ گئے اور گنبد ویسا ہی دربند پڑا رہا۔ دو صدی کے بعد جب اس شہر میں پھر رونق اور آبادی ہوئی تو کسی شخص نے اس گنبد کو مسمار کرو دیا۔ دیکھا کہ ایک آدمی صحیح و سالم مراقب بیٹھا ہے۔ لوگوں کا ہجوم ہو گیا اتنے میں ایک جوگی آ گیا اور اس نے پہچان لیا اور اپنے قاعدہ کے موافق اس کا علاج کیا۔ روح نے بدن میں سرایت کی ہوش و حواس درست ہو گئے، اٹھ بیٹھا اور بولا کہ لا ؤ میرا گھوڑا اور جوڑا۔ لوگ متحیر ہوئے کہ الٰہی اس شخص کو یہ ہذیان ہے یا خفقان خدا جانے کیا بکتا ہے۔ اس سے کیفیت دریافت کی تو تمام ماجرا اپنا بیان کیا کہ صرف گھوڑے جوڑے کی غرض سے میں نے یہ عمل فلاں بادشاہ کے عہد میں کیا تھا۔ اب بیدار و ہوشیار ہوا تو وہی خیال رہا کہ بادشاہ نے مجھ کو اٹھایا ہے۔ غرض یہ کہ جو اعمال و افعال درود و وظائف یا ریاضت و محنت طالب و سالک کرتا ہے اس کا اثر بے شک مرتب ہوتا ہے لیکن جب تک تصفیہ ماسوا اللہ نہیں سب بے سود ہیں کیونکہ ان آثار و اطوار میں بھی وہی سوجھے گا جو دل میں بسا ہوا ہے۔ گناہوں کے خوف زدہ نجات طلب کریں گے اور ثواب کے امیدوار بہشت کا دم بھریں گے۔ غرض جو جس کا خیال ہے وہی رہے گا۔

                عاشق مرد کو کوئی علت نہیں ہوتی نہ تو عاشقوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی ملت۔ عشق کا مذہب تمام دینوں سے جدا ہے، عاشقوں کا مذہب اور ملت خدا ہے۔

                انسان کو جس چیز میں کمال ہوتا ہے اسی میں مرتا ہے چنانچہ وہنتر بید کو سانپ کے پکڑنے میں کمال تھا۔ اس کو سانپ نے کاٹا اور وہ مر گیا اور ارسطو سل کی بیماری میں مرا اور افلاطون فالج میں۔ لقمان سرسام میں اور جالینوس دستون کے مرض میں حالانکہ انہی بیماریوں کے علاج میں کمال رکھتے تھے اور جس کو جس کی محبت ہوتی ہے اسی کے خیال میں جان دیتا ہے۔ چنانچہ قارون مال کی محبت میں مرا اور مجنوں لیلیٰ کی محبت میں۔ ایسے ہی طالب خدا کو خدا طلبی کی بیماری ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتا ہے۔ بیماری سے خالی کوئی نہیں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ علت ضرور ہوتی ہے۔

 

 

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی