Topics
حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ
فرماتے ہیں کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ تصور شیخ سے طالب پر علم شیخ وارد ہو جاتا ہے
اور اس طلب سے اوروں کو فیض و فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ نسبت اس کی متعدی ہوتی ہے۔
رابطہ شیخ میں کمال حاصل
کرنے کے لئے تصور شیخ بہت ضروری ہے۔ حضرت مولانا جامیؒ فرماتے ہیں:
‘‘مرید بحالت غیب شیخ کی
صورت کو اپنے خیال میں پکڑ کر قلب کی طرف متوجہ رہے۔’’
شیخ کے اندر چونکہ صفات
رحمانیہ کام کر رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے جب کوئی طالب شیخ کا تصور کرتا ہے تو شیخ کے
اندر کام کرنے والی روشنیاں طالب میں سرائیت کر جاتی ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا
سکتی ہے کہ جب ہم سیب کا تصورذہن میں لاتے ہیں تو ہمارے منہ میں سیب کا ذائقہ خود
بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ کہ ہم نے سیب نہ کھایا ہو۔ شیخ چونکہ رحمت الٰہی سے
سرشار ہوتا ہے اس لئے اس کی طرز فکر میں سوائے اللہ کے اور کوئی دوسری ذات نہیں
ہوتی۔ اس کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا ذہن ہر عمل میں پہلے اللہ کی طرف
جاتا ہے۔ اس کا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، اٹھنا، بیٹھنا ہر کام اللہ کی خاطر ہوتا
ہے۔ ایسے شخص کا جب تصور کیا جاتا ہے تو اس کی طرز فکر میں کام کرنے والی روشنیاں
طالب میں منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں بشرطیکہ اسے یکسوئی نصیب ہو۔
اس رابطہ سے کسی شخص کو
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ رابطہ شرک ہے۔ اگر شرک مانا جائے تو ہر شخص کے
خیالات میں ہزاروں چیزیں رہتی ہیں جو موجود نہیں ہوتیں مگر ان کا نقشہ اس کے دل
میں رہتا ہے۔ اسے شرک کیوں کہا جائے کیونکہ شئے غائب کو اپنے علم خیال میں حاضر کر
رہا ہے۔ تصور شیخ کی خاص مصلحت یہ ہے کہ جب آدمی کے خیال میں کوئی دشمن آتا ہے تو
خود بخود غیظ و غضب اور حرارت پیدا ہو جاتی ہے اور اس وقت اس کی صلاحیت و عقلمندی
میں فرق آجاتا ہے، پس اس طرح خدا کے دوستوں کا خیال خدا کی محبت کو اور اس کی یاد
کو بھی تازہ کرتا ہے۔
شیخ سے ہر وقت کے رابطے
سے ایک وقت رابطہ کی نسبت غالب آ جاتی ہے تو سالک اپنے آپ میں بھی اپنے شیخ کو
دیکھتا ہے اور اپنے آپ میں اس کے اوصاف کا مشاہدہ کرتا ہے پھر وہ جہاں دیکھتا ہے
اسے شیخ کی ہی صورت نظر آتی ہے۔
ازیں
بتاں ہمہ در چشمِ من تومی آئی
بہر
کہ می گرم صورتِ تومی بینم
)ان سب بتوں (حسینوں) میں
سے تو ہی میری نگاہ میں آتا ہے۔ میں جس کو بھی دیکھتا ہوں تیری ہی صورت دیکھتا
ہوں۔(
یہ نسبت مرید کو ذکر سے
زیادہ فائدہ دینے والی اور بڑی نعمت ہے۔ گویا وہ ہر وقت حضوری میں ہے اور شیخ سے
فیض حاصل کر رہا ہے۔ اس نسبت کا حاصل ہونا شیخ کے ساتھ مناسبت کاملہ کی خبر دیتا
ہے۔
کچھ لوگ جو اس نسبت کو
حاصل کر لیں شیخ کی محفل میں جانے سے کتراتے ہیں اور اسی نسبت پر اکتفا کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے لئے عرض ہے کہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہونا ایک الگ ہی اثر رکھتا ہے اور
اس سے دوسرے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے مرید کا شیخ کی خدمت میں حاضر
ہونا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ کے اصحاب صحبت اور حاضری کی بدولت ہی اصحاب
ہوئے اور بلند درجات پر پہنچے۔
شیخ چونکہ فیوض و برکات
کا واسطہ ہے لہٰذا جب تک واسطہ درست نہ ہو گا تو منزل تک رسائی ناممکن ہے لہٰذا
فنا فی الشیخ کے بغیر فنا فی اللہ حاصل ہونا مشکل ہے۔ مرید کو چاہئے کہ اپنے آپ کو
اس طرح سے شیخ کے حوالے کر دے جس طرح کہ مردہ نہلانے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور
یہ کیفیت زندگی کے تمام معاملات میں ہونی چاہئے۔
مطلوب حجاب میں پوشیدہ
ہے۔ اس تک پہنچنے کا سیدھا راستہ وہی ہے جو مرشد بتائے اور جس کی حضور اکرمﷺ نے
تعلیم دی ہے۔ طالب وہی راستہ اختیار کرے۔ یہ کوشش ہرگز نہ کرے کہ اس کے اندر کشف و
کرامت پیدا ہو کیونکہ یہ چیزیں حجاب عظیم ہیں۔ لوگ انہی کو بڑا کام سمجھتے ہیں اور
انبیاء کے معجزات دیکھ کر ان پر ایمان لاتے اور اولیاء کی کرامات سے ان کے معتقد
ہوتے ہیں۔ طالب اپنا اصل مقصد پیش نظر رکھے اس کے سوا جو کچھ ہے وہی اس کے لئے کفر
و جہنم ہے۔
تصور شیخ کے واسطے کوئی
خاص وقت مقرر نہیں ہے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک لمحہ بھی اس کے تصور سے خالی نہ
رہے۔ طالب ہر وقت شیخ کو غیب کے مشاہدے میں سمجھے اور اپنے اوپر شیخ کی تجلی کا
تصور کرے۔ اگر ایسا کرتا رہا تو ایک وقت ہو گا کہ شیخ اس کی خلوت میں سامنے آ
جائیں گے اور شیخ کے دل پر جو حق کی تجلی ہو رہی ہے اس کا عکس اس کے دل پر جلوہ گر
ہو گا۔ جب آفتاب کا عکس پانی پر پڑتا ہے اور پانی کے پاس جو دیوا رہوتی ہے اس کے
اوپر بھی پانی کا عکس نمودار ہوتا ہے۔ دیوار میں چونکہ کثافت ہے اس لئے اس میں یہ
قابلیت نہیں ہے کہ براہ راست سورج کا عکس اس پر نظر آئے مگر جب وہ پانی کے قریب
ہوئی تو اس نے پانی کو وسیلہ بنا کر اپنا حصہ لے لیا۔ لہٰذا شیخ کے قلب کی طرف
متوجہ ہونے میں بہت فائدے ہیں۔ طالب ہمیشہ اپنے آپ کو شیخ کی حراست میں خیال کرے
اور اپنے ہر کام کو شیخ اور خدا کی عنایت تصور کرے۔ اپنے ہر عمل کا رخ شیخ کی طرف
موڑ دے۔ کچھ عرصے میں جدھر دیکھے گا مرشد ہی مرشد نظر آئیں گے۔
اولیاء کے نزدیک مرشد کی
نظر ہر وقت مرید کے دل پر رہتی ہے۔ مرشد کے مرتبہ کو سمجھنا بہت بڑا کام ہے جس کو
جاننا طالب کے لئے ناممکن ہے لہٰذا طالب کو کم از کم اتنا اعتقاد تو ضرور رکھنا
چاہئے کہ مرشد جو کچھ فرماتے ہیں یا جو کچھ کرتے ہیں خدا کے حکم سے کرتے ہیں۔ کامل
مرشد وقت کا ولی ہوتا ہے۔ اگر مرشد کے مرشد بھی موجود ہوں تب بھی ہی خیال کرے کہ
مجھے جو فیض اپنے مرشد سے پہنچ سکتا ہے وہ مرشد کے مرشد سے نہیں پہنچ سکتا۔ طالب
کو اپنا رابطہ ہر حال میں مرشد تک ہی رکھنا چاہئے۔
حضرت سید محمد گیسو دراز
بندہ نواز چشتی قدس اللہ سرہ العزیز اپنی کتاب خاتمہ میں لکھتے ہیں:
‘‘پیر کا نام چھوٹے بڑے ہر
ایک کے سامنے زبان پر جاری رکھ، اپنے دل میں پیر کا تصور رکھنے کے لئے کوئی وقت
عمل اور حال معین نہ کر۔ ہر وقت ہر حال میں اور ہر جگہ اس کا تصور دل میں کئے رہ۔
جب مرید کا دل پیر کے دل کے سامنے حاضر ہو گا تو کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ دونوں کا
آمنہ سامنہ ہو جائے۔ پیر متجلی ہے، انوار قدسی اس پر ہمیشہ متجلی اور روشن ہیں۔ جس
وقت انوار قدس کا عکس اس پر ظاہر ہو گا اور مرید کا دل اس کے سامنے آ جائے گا تو
عکس کا عکس اس کے دل پر ضرور پڑے گا۔ شیخ ہزاروں مشقت اور زحمت کے اور اپنے دل کو
عکس پذیر ہونے کے لائق بناتا ہے اور مرید اس سے بے مشقت اور ریاضت کے بہرہ مند ہو
جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیر کی طرف متوجہ رہنے سے دل پر کیا اثرات مرتب
ہوتے ہیں۔
مرید کو چاہئے کہ ہمیشہ
اپنے آپ کو شیخ کی حفاظت میں سمجھے اور اگر کوئی کام اس سے ہو جائے تو یہ گمان نہ
کرے کہ یہ کام اس سے ہوا ہے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور شیخ کی مدد کی
بدولت سمجھے۔ جو شخص اس پر کاربند رہا اور ہمیشہ رہا تو چند دنوں بعد وہ جدھر
دیکھے گا ادھر شیخ کو پائے گا۔ پیر صورت اور معنی دونوں رکھتا ہے اس کی صورت سے
متعلق ہو جا کہ اس کے معنی کا فیض بھی اس کی صورت سے ہی ملے گا۔ جب تو اس کی صورت
سے متعلق ہو جائے گا تو یقیناً اس کا فیض تجھ پر تجلی کرے گا۔ امتوں کو حکم ہے کہ
نبی کی طرف متوجہ ہو جا ؤ تا کہ جو کچھ نبی کو آئے تم بھی اس سے فیض یاب ہو۔ پیر
اور مرید کے درمیان بھی یہی بات ہے۔ صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ مرید پیر کے دل میں
اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور پیر مرید کے دل میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے لہٰذا پیر
کی صورت کی طرف توجہ بہت ضروری ہے۔
پیر کا تصور اس طرح کرنا
چاہئے جیسے وہ اس کے حضور اور اس کی مجلس میں ہمیشہ موجود ہے۔ پیر کو یا تو اپنے
دل میں تصور کرے یا خود اپنے ہی کو پیر تصور کرے۔
جب مرید کی طرز فکر مراد
کی طرز فکر بن جاتی ہے تو وہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔
من
تو شدم تو من شدی
من
تن شدم تو جاں شدی
اس کا اظہار قرآن پاک میں
ہوا ہے۔
اے محمدﷺ! وہ مٹھی بھر
کنکر (مٹی) آپﷺ نے نہیں مارے بلکہ اللہ نے مارے۔’’
گویا جب آپ کی سوچ رہنما
کی سوچ کے مطابق ہو جائے تو آپ کے جسم میں طاقت آپ کے اندر حوصلہ اور ہر خواہش اس
معبود کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
حضرت عثمانؓ کو جب سفیر
بنا کر مکہ بھیجا گیا اور افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے تو ببول کے
درخت کے نیچے بیٹھ کر پیغمبر اسلام رسول اللہﷺ نے قصاص عثمان کے لئے صحابہ کرام سے
بیعت لی اور اپنے ہاتھ کے اوپر ایک اور ہاتھ رکھا اور فرمایا:
‘‘یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔’’
قرآن پاک میں آتا ہے:
‘‘اے محمدﷺ! بے شک آپﷺ کا
ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے۔’’
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب
سالک مال و متاع دنیا اور تفاخر ذات کو محبوب کے قدموں پر نثار کر دے تو اس کی ذات
ختم ہو جاتی ہے۔ مرید اور مراد کے ارادے اور طرز فکر میں کسی بھی قسم کا فرق نہیں
رہتا۔ اس کے لئے زمان و مکان کی قید کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ضرورت صرف اپنے ذہن کو
پیر و مرشد کے ذہن کی طرف موڑنے کی ہے۔ ایسی کیفیت میں جس طرح مراد، مرید کو سامنے
بٹھا کر توجہ کرتا ہے۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی مرید ان کی تواذ بشارت کو محسوس
کرتا ہے۔
تصور شیخ سے شیخ کے اندر
کام کرنے والی لہریں دماغ کے اوپر منتقل ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جیسے جیسے تصور
میں انہماک بڑھتا ہے اسی مناسبت سے لہروں کی منتقلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ شروع
شروع میں لہروں کی منتقلی سے دماغ کی صفائی ہوتی ہے۔ صفائی ہونے کے بعد وہ علوم جن
کا دارومدار بے یقینی اور شک پر ہے، ذہن سے نکلتے ہیں اور بالآخر ذہن پاک صاف اور
شیشے کی طرح صاف ہو جاتا ہے۔ اب وہ علم منتقل ہونا شروع ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘تم ہماری بصارت سے دیکھتے
ہو، ہماری سماعت سے سنتے ہو اور ہمارے فواد سے سوچتے ہو۔’’
تصور شیخ میں مرید شیخ کی
صورت کو اپنے سامنے یا ذہن میں ایسے رکھتا ہے جس طرح کوئی چیز ہر وقت نگاہ میں
رہتی ہے یا اپنے آپ کو شیخ ہی تصور کرتا ہے۔ لہٰذا مرید اپنی ہر حرکت میں شیخ کی
حرکت کو پیش نظر رکھتا ہے اور ہر کام اسی اندازے سے کرنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح
شیخ کرتا ہے۔ جب یہ رابطہ یا تصور انتہا کو پہنچتا ہے تو مرید اپنے آپ کو شیخ کے
روپ میں دیکھتا ہے اور خود کو اس کے لباس میں ملبوس اور اس کی صفت میں متصف پاتا
ہے۔ اسے ہر طرف شیخ ہی کی صورت نظر آتی ہے۔ ایسے مرید کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں
اور یہ مقام فنا فی اللہ کی ابتداء ہے۔
در
و دیوار جو آئینہ شد کثرتِ شوق
ہر
کجا می نگرم روئے ترامی بینم
)میرے
کثرتِ شوق کے باعث در و دیوار آئینہ بن گئے ہیں۔ جدھر بھی دیکھتا ہوں آپ کا چہرہ
ہی نظر آتا ہے۔(
تصور شیخ سے شیخ کے اندر
کام کرنے والی روشنیاں مرید کے اندر کام کرنے لگتی ہیں۔ آہستہ آہستہ شیخ کے ساتھ
نہایت درجہ مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی مناسبت کی وجہ سے سالک اپنے شیخ کے باطن
سے فیض حاصل کر لیتا ہے۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرارؒ کا قول ہے کہ:
‘‘پیر کا سایہ ذکر حق سے
بہتر ہے۔’’
اس کی وجہ یہ ہے کہ سالک
اپنی ابتدائی حالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناسبت قائم کرنے کی استعداد
نہیں رکھتا۔
زاں
روئے کہ چشمِ تست احوال
معبودِ
تو پیر تست اول
)تیری آنکھ ابتداء میں کج
بین ہے لہٰذا تیرا اول قبلہ تیرا مرشد ہے۔(
حضرت اویس قرنیؓ بھی تصور
شیخ کے ذریعے ہی حضورﷺ سے فیض حاصل کرتے تھے۔ لہٰذا اولیاء کرام کی زندگی میں اور
بعد میں بھی ان سے فیض حاصل کیا جا سکتا ہے مگر چونکہ مبتدی ایسا نہیں کر سکتا
لہٰذا ابتداء میں اپنے شیخ کو واسطہ بنانا ضروری ہے۔
حضرت خواجہ ابو یوسف
ہمدانیؒ کا قول ہے کہ اللہ کی محبت میں رہو اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اس بزرگ
کی صحبت میں رہو جو اللہ کی محبت میں رہتا ہے کیونکہ اس کی محبت کی برکت ہی تمہیں
اللہ کی محبت تک پہنچا دے گی۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
ہر کہ خواہد ہمنشینی باخدا
گونشیند در حضورِ اولیاء
جو اللہ کی ہمنشینی چاہتا
ہے اسے کہو کہ وہ اولیاء اللہ کے حضور بیٹھا کرے۔)
جب کوئی مرید سچے دل سے
مرشد کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس ہستی کا فیضان ایک جھروکے کی راہ سے مرید کی طرف
آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور سالک اس فیض رساں ہستی سے اس کی صفات اپنے اندر جذب کرنے
لگتا ہے۔ ان صفات کا جذب کرنا سالک کی اپنی ہستی اور کشش کے مطابق ہوتا ہے۔ جو لوگ
فنا فی الشیخ ہو جاتے ہیں وہ اپنی صفات سے فنا اور بالآخر شیخ کی صفات سے بقا حاصل
کر لیتے ہیں۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں
کہ تصور شیخ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں جس ہستی کے ساتھ رابطہ قائم کیا جاتا ہے اس
کا فیض ایسے آنا شروع ہو جاتا ہے جیسے کوئی چھوٹا سا مٹکا یا چھوٹی سی ندی ہو جو
کسی بڑے دریا کے ساتھ مل جائے۔ مرید کی ایسی چھوٹی سی ندی کا پانی کبھی ختم نہیں
ہوتا۔ ظاہر بین آنکھ تو فقط یہ دیکھ رہی ہے کہ پانی مٹکے میں سے گزر رہا ہے
حالانکہ وہ مٹکا نہیں خود ایک سمندر ہے۔ ان دونوں کو الگ سمجھنا نظر کا قصور ہے
ورنہ حقیقتاً دونوں ایک ہیں۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں
کہ تم مٹکے کو نہ دیکھو بلکہ اس میں سمائے ہوئے لامحدود سمندر کو دیکھو۔
مولانا رومؒ ‘‘دل رابہ دل
رہیت’’ (دل کو دل سے راہ ہوتی ہے) کے بڑی شدت سے قائل ہیں۔ دیکھنے میں جسموں میں
تو کچھ دوری ہوتی ہے مگر جب ارواح مل جائیں تو دوری ممکن نہیں رہتی۔ اس کی مثال
ایسے ہے جیسے دو چراغ ایک ہی کمرے میں الگ الگ جل رہے ہوں تو ان کی روشنیاں ملی
ہوئی اور ناقابل تقسیم ہوتی ہیں۔ اس طرح تصور شیخ سے دونوں روحیں اس طرح سے مل
جاتی ہیں کہ فیض رسائی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
آپؒ فرماتے ہیں کہ:
‘‘اگر تمہارے دل میں خدا کی
محبت پیدا ہو جائے تو سمجھ لو کہ خدا کے دل میں بھی تمہاری محبت ضرور موجود ہے۔’’
تور
خواہ ازمہ طلب خواہی زخور
نورِ
مدہما آفتاب است اے پسر
)روشنی خواہ چاند سے حاصل
کرو یا خورشید سے اے بیٹے چاند کی روشنی بھی آفتاب کے ہی باعث ہے۔(
حضرت امداد اللہ مہاجر
مکیؒ اپنی کتاب رسال مکیہ میں فرماتے ہیں ‘‘جب مرید ہر وقت شیخ کو یاد رکھے گا تو
ربط قلب پیدا ہوجائے گا اور شیخ سے ہر دم استفادہ ہوتا رہے گا اور مرید کو جب کسی
واقع کے سلسلے میں شیخ کی حاجت پیش آئے گی تو شیخ کو اپنے قلب میں حاضر مان کر
بزبان حال سوال کرے گا اور ضرور شیخ کی روح باذن خداوندی اس کو القاء کرے گی۔ شیخ
کے قلب سے ربط کے ہی سبب مرید کے قلب میں قوت گویائی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف سے الہام کا راستہ کھل جاتا ہے۔’’
حضرت مجدد الف ثانیؒ
مکتوب نمبر ۵۳
دفتر دوم حصہ اول (صفحہ نمبر۱۰۱)
پر فرماتے ہیں کہ خواجہ محمد اشرف نے تصور شیخ کے متعلق
لکھا ہے کہ اس کا تصور اس حد تک غالب آ چکا ہے کہ وہ نماز میں بھی اپنے شیخ کے
تصور کو اپنا مسجود دیکھتا اور جانتا ہے اور اگر فرداً نفی کرے تو بھی ذہن سے نفی
نہیں ہوتی۔
آپ خواجہ محمد اشرف کو
لکھتے ہیں کہ اے محبت کے اطوار والے! یہ دولت طالبان حق کی تمنا اور آرزو ہے۔
ہزاروں میں شاید ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کیفیت اور معاملے والا مرید صاحب استعداد
اور شیخ سے مکمل نسبت رکھنے والا ہوتا ہے اور تھوڑی سی صحبت سے شیخ کے تمام کمالات
کو جذب کر سکتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ تصور شیخ کی نفی کی ضرورت نہیں کیونکہ شیخ
سجودِ الٰہیہ سے مسجود لہ نہیں (یعنی جس کی طرف سجدہ کیا جائے نہ کہ وہ جس کو سجدہ
کیا جائے) محرابوں اور مسجدوں کی نفی کیوں نہیں کرتے۔ نماز کی حالت میں محراب،
دیواریں یا دیگر بہت سی چیزیں سامنے ہوں تو بھی نماز میں کسی قسم کی خرابی واقع
نہیں ہوتی۔ اس قسم کا ظہور سعادت مندوں کو ہی میسر آتا ہے تا کہ وہ تمام احوال میں
صاحب رابطہ یعنی مرشد کامل کو اپنا ذریعہ جانے اور اپنے تمام اوقات میں اس کی طرف
متوجہ رہے نہ کہ اس بدنصیب گروہ کی طرح جو اپنے آپ کو (تصور شیخ سے) بے نیاز جانتا
ہے اور اپنے قبلہ توجہ کو اپنے شیخ سے پھیر لیتا ہے اور اپنے معاملے کو خراب اور
تباہ کر لیتا ہے۔
حضرت باقی باللہؒ کا
طریقہ یہ تھا کہ جب کسی شخص کو بیعت کے لئے قبول فرماتے تو پہلے اس سے توبہ کرواتے
اور اگر اس طالب میں عشق و محبت کا جذبہ ہوتا تو اسے فرماتے کہ میری شکل ہر وقت دل
میں رکھو۔ ایسا کرنے سے طالب کو بہت کچھ کشائش حاصل ہوتی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
حضرت باقی باللہؒ کی خدمت میں خواجہ برہان الدینؒ مستفیض ہونے کی غرض سے آئے تو آپ
نے نگاہ اشت صورت کے لئے ارشاد فرمایا۔خواجہ برہان الدینؒ نے عرض کیا:‘‘حضرت یہ
طریقہ تو مبتدیوں کے لئے ہے۔ براہ کرم مراقبہ اعلیٰ کے لئے ارشاد فرمائیں۔’’ لوگوں
نے کہا کہ جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کریں چنانچہ وہ صورت کا تصور کرنے میں مشغول ہو
گئے۔ ابھی دو روز ہی گزرے تھے کہ ان پر حضرت باقی باللہؒ کی نسبت عظیم غالب ہو
گئی۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ
جب کوئی کسی چیز میں فنا حاصل کر لیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ محلق ہو جاتا ہے لہٰذا
حضورﷺ چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں فنا ہو چکے تھے اس لئے آپ کا قول اللہ کا ہی
قول سمجھا جاتا تھا۔ آپﷺ کا فرمان اللہ کا فرمان ہے۔
آنحضرتﷺ کی وابستگی جب
بحرِ حقیقت سے تھی تو آپ کا مقولہ اسی سمندر کا موتی تھا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ
پوری اطاعت کے بعد انسانوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو جاتے ہیں تو پھر
اس میں کیا تعجب ہے کہ کسی عارف کو فنا فی الذات کا مرتبہ حاصل ہو جائے۔ یہ سارے
کا سارا کام ربط کامل پر دلالت کرتا ہے۔
حضرت شمس الدین سیالویؒ
نے ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ حضورﷺ نے فرمایا:
‘‘ہر متقی اور پاکیزہ میری
(روحانی) اولاد میں سے ہے۔’’
آپؒ فرماتے ہیں کہ مرید
بھی شیخ کی روحانی اولاد میں شامل ہوتا ہے۔ مرید کا مرشد کے ساتھ ذہنی رابطہ اتنا
مضبوط ہونا چاہئے کہ مرید شیخ کی ذات میں اس طرح ڈوب جائے کہ اپنی کسی حرکت و سکون
کو اپنا نہیں بلکہ مرشد کا سمجھے حتیٰ کہ پیر و مرید کی صورت ایک جیسی ہو جائے۔
شیخ بہا ؤالدین زکریاؒ اور شیخ شہاب الدینؒ کا درجہ اتحاد اس قدر بڑھ گیا تھا کہ
دونوں کی شکل و صورت ایک ہو گئی تھی۔ جب کبھی آپ دونوں ایک جگہ بیٹھتے تو لوگ
دونوں میں تمیز نہ کر سکتے تھے۔ مرید کو چاہئے کہ مرشد کی محبت اور اطاعت میں اس
طرح غرق ہو جائے کہ وہ خدا اور رسولﷺ کے مظہر کو دیکھے۔ حضرت سیالویؒ فرماتے ہیں
کہ تصور شیخ کرنے سے نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں سے رہائی ملتی ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
گر
تو ذات پیر را کر دی قبول
ہم
خدا در ذاتش آمد ہم رسولﷺ
گرجدا
بینی زحق تو خواجہ را
گم
کنی ہم متن ہم دیباچہ را
)اگر تو نے پیر کی ذات کو
قبول کر لیا تو پیر کی ذات میں خدا اور رسول دونوں شامل ہیں اور اگر تو نے پیر کی
ذات کو خدا سے جدا دیکھا تو گویا تم نے کتاب حق کا دیباچہ اور متن دونوں کو الگ کر
دیا۔(
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی