Topics

خود سپردگی: (بلا چوں چرا عمل)


                بیعت کے بعد مرید پر لازم ہے کہ وہ شخ کی کسی بات پر بھی چوں چرا نہ کرے۔ جب تک مرید اپنے آپ کو پیر و مرشد کے سپرد نہ کرے گا کچھ حاصل نہ کر پائے گا۔ یاد رکھیں کوئی بے ادب خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ خود سپردگی کے لئے ضروری ہے کہ مرید اپنی عبادات و عادات میں شیخ کی اتباع کرے اور اپنی مرادوں کو شیخ کی مرادوں کے تابع کر دے اور تمام امور میں اپنے آپ کو اس طرح شیخ کے سپرد کر دے جیسا کہ مردہ غسل دینے والے کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

                ایک شخص عرب کا باشندہ تھا اور صالحین سے ملنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا تا کہ کسی فرد کامل کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ اس تلاش و جستجو میں مصر میں ان کی ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ایک امانت دے کر فرمایا کہ جو شخص تم سے یہ امانت مانگے بس اس شخص سے تمہارا مطلب حاصل ہو گا۔ چنانچہ جتنے صالحین کو وہ جانتا تھا ایک ایک کر کے سب کے پاس گیا۔ بالآخر اپنے شہر میں آ کر گھر پہنچ گیا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد اس کا پڑوسی اسے ملا اور کہا کہ فلاں شخص نے جو امانت مصر میں تجھے دی تھی وہ کہاں ہے؟ اس وقت اسے معلوم ہوا کہ اس کا ہمسایہ ہی صاحب وقت ہے۔ اس لئے ان کے پاؤں  گر پڑا اور ان سے بیعت کی درخواست کی۔ شیخ نے کہا کہ اس کی تم میں طاقت نہیں ہے۔ اس کے اصرار پر شیخ نے کہا کہ اگر تم اس کے اہل ہو تو ایک چھوٹی سی شرط پوری کر دو۔ وہ یہ کہ تم اپنی لمبی داڑھی کو منڈوا ڈالو۔ اس نے کہا، حضرت بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے اسی کی وجہ سے تو لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اور میری تعظیم کرتے ہیں۔ لہٰذا میں یہ نہیں کر سکتا۔ شیخ کے مرنے پر جب اس نے دیکھا کہ میں کس قدر بڑی چیز کھو بیٹھا ہوں تو اسے ندامت ہوئی اور کہنے لگا کہ جیسے مجھے آج عقل آئی ہے اسی طرح شیخ کی زندگی میں آتی تو جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس پر عمل کرتا بلکہ اس سے بھی زیادہ کرتا۔

                طالب کو چاہئے کہ شیخ جو کچھ حکم دے اسے بجا لائے۔ اگر اس سے اس بارے میں کوتاہی ہو تو شیخ کو اس سے آگاہ کر دے تا کہ وہ اس سلسلہ میں شاگرد کے حق میں توفیق عمل کی دعا فرمائیں۔

                کہا جاتا ہے کہ المرید لایرید یعنی مرید وہ ہے جو خود کچھ نہیں چاہتا ایسا طالب خدا کی رضا کو اپنی رضا سمجھتا ہے اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرتا ہے۔

                طریقت میں پہلے عمل ہوتا ہے پھر علم ملتا ہے۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کا دن کام کرنے کا دن ہے۔ کام کے وقت میں اجر کے انتظار میں بیٹھنا حقیقت میں اپنے آپ کو اجر سے باز رکھنا ہے اور خدمات کی ادائیگی میں لذتوں کے پابند نہ رہیں۔ اگر لذت ملے تو نعمت ہے اگر نہ ملے تو بندگی کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بندگی سے مقصود نفس کی معرفت اور خواہشات کی مخالفت ہے نہ کہ عیش و راحت۔ جو لذت اور راحت بندگی سے ملتی ہے اس میں نفس اور خواہش کو ہرگز کوئی فعل نہیں ہوتا۔

                میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ جب کوئی بچہ کسی اسکول میں داخل ہوتا ہے تو وہ استاد کے کہنے پر الف ب پڑھنا شروع کر دیتا ہے، یہ جانے بغیر کہ الف کیا ہے، ب کیا ہے، الف، ب کیوں نہیں یا ب الف کیوں نہیں۔ اس کے شعور میں ایک بار بھی یہ سوال نہیں اٹھتے۔ استاد جو کہتا ہے وہ مانتا ہے گویا استاد کے حکم کی تعمیل ہی اسے علم کی منازل طے کراتی ہے۔ اسی طرح ایک شخص جب کسی مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا ہے تو دنیاوی طور پر چاہے اس نے Ph.Dہی کیوں نہ کی ہو اس کی حیثیت روحانیت میں ایک بچہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔

                روحانی استاد کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگرد کی ذہنی صلاحیتوں اور شعوری سکت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو قدم بقدم چلاتا ہے۔ مرید کی انا، خاندانی طرز فکر، شعوری واردات و کیفیات، ماحول سے ملی پابندیاں روایتی ربط و ضبط وغیرہ رکاوٹ بنتے ہیں۔ جب تک راستے کی ان رکاوٹوں کو دور کر کے ایک شخص تین سالہ بچے کا ذہن حاصل نہیں کر لیتا جو کہ بلا چوں چرا الف کو الف اور ب کو ب بولتا ہے تب تک وہ روحانیت کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا۔ اس لئے مراد کا ہر حکم متقاضی ہے کہ اس کو بلا حیل و حجت تسلیم کر لیا جائے۔ اگر اس کے بتائے ہوئے احکامات پر شعوری دلائل کو اہمیت دی جائے گی تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا، ذہنی صلاحیت بھی ضائع ہو گی اور ذہن آگے کے سفر پر ہرگز تیار نہ ہو گا۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کا ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔

                حضرت کے ایک خاص مرید تھے، انہیں جب بھی موقع ملتا درخواست کرتے ‘‘حضور! بہت سے لوگوں نے آپ سے فیض پایا ہے لیکن صاحبزادے (شیخ کے بیٹے) ابھی تک محروم ہیں……انہیں بھی نواز دیجئے۔’’

                وہ ایک عرصے سے درخواست کرتے رہے لیکن شیخ ان کی بات کو ٹالتے رہے ایک روز انہوں نے ایسے وقت درخواست کی جب شیخ عالم استغراق میں تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ شیخ راضی نظر آتے ہیں تو دوڑ کر صاحبزادے کو بلایا اور کہا ‘‘خاموشی سے بیٹھ کر ابا جی کے پیر دبا ؤ۔’’

                بیٹے نے ایک طرف بیٹھ کر پیر دبانا شروع کیے۔ اس دوران حضرت شیخ نے اپنا ایک پیر ان کے سینے پر پھیرنا شروع کر دیا۔ صاحبزادے کسمسائے اور کہا ابا جی! اس سینے میں علم شریعت ہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا بیٹے! اسی کو مٹا رہا ہوں اور مسلسل اپنا پیر ان کے سینے پر پھیرتے رہے۔ صاحبزادے نے دوبارہ عرض کیا۔ ابا جی! اس میں قرآن ہے (وہ حافظ قرآن بھی تھے) حضرت شیخ نے کہا۔ ‘‘ہاں بیٹے! اس کو بھی مٹا رہا ہوں۔’’

                مولانا رومؒ لکھتے ہیں:

                گفتگو کو چھوڑ اور عمل کرنے والا بن، ایک کامل مرد (پیر کامل) کے سامنے بے وقعت ہو جا۔

                حضرت خواجہ فریدالدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے جگنو سے پوچھا۔ ‘‘تم صرف رات کو چمکتے ہو دن کو کیوں نہیں چمکتے؟’’

                اس پر جگنو نے جواب دیا۔ ‘‘میں تو دن رات چمکتا ہوں مگر سورج کی روشنی کی وجہ سے دن میں نظر نہیں آتا۔’’

                یہ حال تمام عالم کا ہے کہ خدا کہ ہستی کے مقام میں ان کا وجود اہل خانہ کو نظر نہیں آتا۔ بعض جگہ تو وحدت الوجود اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ آگے چل کر آپ نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا ظاہری طور پر دھوئیں کی مانند ہے جس کا وجود آگ کی وجہ سے ہے، خود اس کا اپنا کوئی وجود نہیں۔ عام حقیقت کا کھوج لگانے اور وحدت کو سمجھنے کیلئے عقل اور ایل و قال سے دست بردار ہونے کی ضرورت ہے۔ چوں و چرا کو ترک کر کے اور خود سے بے خود ہو کر ہی انسان حقیقت کا جلوہ دیکھ سکتا ہے۔ قیل و قال عقل کے موافق ہوتی ہے لیکن حقیقت عقل سے بالا ہے۔

                مولانا رومؒ بیان کرتے ہیں ہوئے کہتے ہیں کہ دو باز ہیں جو کہ ایک بلند پہاڑی پر موجود ایک مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کے پاؤں  ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ دونوں اپنی اپنی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح منزل پر پہنچ جائیں تو وہ دونوں اپنے پر ایک دوسرے سے الجھنے کی صورت میں زمین پر گر پڑتے ہیں۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ اس طرح سے وہ اپنی الگ الگ جتنی چاہیں کوشش کر لیں وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ ایک باز کے ذہن میں ترکیب آتی ہے وہ دوسرے باز سے کہتا ہے کہ تو میرے پاؤں  سے بے جان ہو کر مردے کی طرح لپٹ جا میں اکیلا اڑوں گا تو اس طرح تو بھی آسانی سے مقصد حاصل کر لے گا۔ دوسرا باز اس کی حکمت بھری بات کو مان کر بے جان ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے دونوں اپنی منزل پر کامیابی سے پہنچ جاتے ہیں۔

                مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ دونوں باز مرید اور مرشد کی طرح ہیں۔ اگر مرشد اپنی کوشش کرے اور مرید الگ سے کوشش شروع کر دے تو مرید تو اپنا وقت ضائع کرتا ہی ہے مرشد کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا روحانی طالب علم کو چاہئے کہ وہ اپنی ذات کو مرشد کی ذات کے سپرد کر دے جہاں مرشد چاہے گا مرید کو لے جائے گا۔

                بعض شیوخ نے کہا کہ جو اپنے شیوخ کے احکام و تادیب سے متادب (تربیت یافتہ) نہ ہو تو وہ کتاب و سنت سے بھی متادب نہیں ہو سکتا۔ سچے مرید کی علامت یہ ہے کہ وہ اطاعت و فرمانبرداری کرے نہ کہ مرشد سے دلیل محبت طلب کرے اور طبیب کے معالجہ پر صبر کو ترک کر دے۔

                ایک گرو تھا اور ایک چیلہ، شہد بیداد نگری میں پہنچے وہاں تمام اشیاء خوردنی کا بھوئی ٹکے سیر تھا۔ گرو نے چیلہ سے کہا کہ میاں یہاں سے بھاگو کیونکہ یہاں حفظ مراتب کا کچھ لحاظ نہیں۔ چیلہ بولا حضور یہاں تو سب چیزیں ارزاں ہیں بڑے چین سے زندگی بسر ہو گی۔ گرو نے کہا خیر تمہاری خوشی ہمارا کام تو رہنمائی ہے۔

                چیلے کو جو ٹکے سیر حلوہ پوری ملا چند روز میں کھا پی کے خوب موٹا تازہ ہو گیا۔ اتفاق سے اس شہر میں ایک مجرم بجرم قتل ماخوذ ہوا۔ راجہ نے حکم دیا کہ اس کو سولی دے دو۔ وزیر بولا کہ مہاراج یہ تو دبلا ہے راجہ نے بھی ملاحظہ کیا اور کہا کی فی الحقیقت یہ بہت ضعیف اور ناتواں ہے۔ اچھا کسی اور موٹے تازہ آدمی کو پکڑ لا ؤ اور اس کے عوض میں سولی چڑھا دو چونکہ چیلہ ان دنوں خوب ہٹا کٹا اور چکنا چپڑا بنا ہوا تھا۔ راجہ کے سپاہی گرفتار کر کے لے گئے۔ راجہ نے بھی پسند کیا اور کہا ہاں یہ شخص پھانسی کے قابل ہے۔ چیلے نے دہائی دی کہ صاحب میرا قصور کیا ہے۔ راجہ نے کہا کہ قصور تو کچھ بھی نہیں لیکن تو خوب موٹا ہے اس وقت گرو پہنچے اور چیلے سے آہستہ سے کہا کہ اور کھا ؤ ٹکے سیر کا حلوہ پوری، تجھ سے کہا نہ تھا کہ یہ شہر بیدادنگری ہے یہاں سے بھاگ تو نہ مانا اب اپنے کئے کو بھگت۔ چیلہ نے عاجزی کی کہ بس اب میری توجہ ہے آئندہ کبھی خلاف ورزی نہ کروں گا۔

                گرو نے فرمایا کہ خیر اب میں کہوں گا کہ پہلے مجھ کو پھانسی دے دو تو کہنا کہ نہیں پہلے مجھ کو دو۔ دونوں نے یہ مشورہ کر کے راجہ کے روبرو اپنا اشتیاق پھانسی کے لئے ظاہر کیا۔ راجہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ لوگ تو پھانسی کے نام سے ڈرتے ہیں یہ کیا بات ہے کہ تم اس کی تمنا کرتے ہو۔ گرو جی نے کہا کہ خوش قسمتی سے آج وہ ساعت آئی ہے کہ اس میں جو کوئی پھانسی پائے گا سیدھا بیکنٹھ کو چلا جاوے گا۔ راجہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پہلے ہم کو ہی پھانسی دے دو چنانچہ راجہ کو پھانسی لگی اور وہ دونوں بھاگ نکلے۔ غرض کہ حفظ مراتب کا چھوڑنا اور نفسی خواہشوں کو تروتازہ کرنا موجب ہلاکت ہے۔ پس ہمیشہ مرشد کامل کی ہدایت و رہنمائی کے موافق کاربند ہونا چاہئے۔

                اس واقعہ میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو کچھ مرشد کامل بتلا دے اس پر عمل کرے۔ اگر مرشد کسی امر سے منع فرمائے تو وہ نہ کرے ورنہ نقصان ہوتا ہے۔ جو مرشد کہے وہ بات مانے۔ اگر آدمی مرشد کا کہنا نہیں مانتا تو آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

                حضرت غوث علی شاہؒ صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرشبلیؒ کی خدمت میں دو شخص باارادہ بیعت حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک سے آپؒ نے فرمایا کہ کہو لا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ۔ اس نے کہا اجی لاحول ولاقوۃ الا باللہ آپؒ نے بھی یہی کلمہ پڑھا۔ اس نے پوچھا کہ آپ نے لاحول کیوں پڑھی آپ نے استفسار کیا کہ تم نے کیوں پڑھی۔ بولا کہ میں نے تو اس واسطے پڑھی کہ ایسے بے شرع کے پاس مرید ہونے آیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو واسطے پڑھی کہ ایسے جاہل کے سامنے راز کی بات کہہ دی۔

                اس کے بعد دوسرے شخص کو بلایا اور فرمایا کہ کہو لا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ۔ اس نے جواب دیا کہ حضرت میں تو آپ کو کچھ اور ہی سمجھ کر آیا تھا۔ آپ نے تو رسالت پر ہی قناعت کی۔ آپؒ نے ہنس کر فرمایا۔ اچھا تم کو تعلیم کریں گے۔ پس ہر شخص کا فہم و حوصلہ جدا ہوتا ہے ورنہ بات ایک ہی تھی جو ایک کے دل میں نہ سمائی اور انکار پیدا کیا۔ دوسرے کا حوصلہ اس بات سے بھی اعلیٰ تھا۔ حضرت شبلیؒ کا مطلب یہ نہ تھا جو شخص ظاہرین نے سمجھا۔ بات یہ تھی کہ جو شخص تعلیم و تلقین اور ہدایت و ارشاد کرتا ہے، طالب کے لئے وہی رسول ہے اور رسالت الٰہی کا کام انجام دیتا ہے۔

                خواجہ محبوب عالم قدس سرہ اپنی کتاب محبوب السلوک میں لکھتے ہیں کہ ‘‘جو شخص چاہے کہ پیشوا مجھ سے راضی ہوں اس کو واجب ہے کہ اپنے تمام ارادے اپنی تمام امیدیں اور آرزوئیں تمام خواہشیں ایک اسی کی ذات میں فانی کر دے اور آپ مثل مردے کے جو غسائل کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی ایک ذات مرشد کے ہاتھ میں ہو جائے۔ اس عمل سے وہ بہت جلدی راضی ہو جائیں گے اور جب وہ راضی ہو گئے تو خدا تعالیٰ اور رسولﷺ بھی اس سے راضی ہو گئے۔ ایک کا مقبول تمام جہان کے مقبول ہو جانے کا یہ طریقہ ہے۔ ایک کا مردود تمام جہان کا مردود ان کی نافرمانی اور ان سے کینہ و عداوت رکھنے کے طفیل ہوتا ہے۔

چوں تو کردی ذات مرشد را قبول

ہم خدا آمد و ہم ذات رسول

                ترجمہ: کر لیا جب دل سے مرشد کو قبول آ گیا اللہ بھی اور اس کا رسول۔

انا عند ظن عبدی بی

                ‘‘میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں اس کے گمان کے موافق۔’’

                مرید کیلئے لازم ہے کہ راہ سلوک میں پیر و مرشد کی ذات کے ساتھ ہمیشہ و ہر دم نیک گمان رکھے اور اپنی عقل اور ناقص سمجھ کے موافق اس کی ذات کے ساتھ غلط گمان نہ قائم کرے۔

                شیخ اگر کوئی ایسا کام کہہ دے جو ذہن قبول نہ کرتا ہو تو اس کے کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ شیخ ان علوم سے واقف ہے جس کو سالک نہیں جانتا۔ راہ سلوک میں طالب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے کو ہر وقت ذہن میں رکھتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو مار ڈالا اس سے بڑھ کر بڑا گناہ اور کیا ہو گا مگر آپ کے الفاظ:

وما فعلۃ عن امری

(میں نے یہ کام نہیں کیا)

                بتاتا ہے کہ کیا معاملات ہوتے ہیں اور شیخ کیا کرتے ہیں اور جو کچھ ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خضر علیہ السلام کا کہنا ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ خدا کی مرضی سے کیا۔

                مرشد کامل راہ حق کی رہبری میں استادی اور مہارت کاملہ رکھتا ہے وہ طویل اور مختصر راستے سے واقف ہوتا ہے۔ منزل کو خوب جانتا ہے اور پہچانتا ہے۔ زندگی کی اونچ نیچ، دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں، تکلیفوں میں سے وہ راستہ نکال لیتا ہے جہاں سو سال میں بھی سالک خود نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے وہ جو کچھ حکم دیں تو اس کی بجا آوری ضروری ہے۔ اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جو بظاہر اس سے متعلق معلوم ہو تو اس کو اپنے بارے میں عظیم رحمت سمجھے اور ہمیشہ اس پر کاربند رہے۔ مرشد کے حکم سے جو رو گردانی کرتا ہے وہ نیک بخت نہیں۔ مرشد چونکہ اللہ کا سفیر اور اس کے خزانے کا امین ہوتا ہے اس لئے بیعت کے بعد سالک کو جو کچھ بھی ملتا ہے انہی کے ہاتھ سے ملتا ہے۔

                سید غوث علی شاہ صاحبؒ تذکرہ غوثیہ میں لکھتے ہیں سید احمد حسن عرف سید احمد علی اپنا وطن چھوڑ کر موضع جہٹلی جاکر آباد ہو گئے۔ ایک دن گا ؤں کے آدمی مجتمع ہو کر آپ کی خدمت میں آئے اور بیان کیا کہ حضرت گا ؤں کو گنگا کاٹتی چلی آتی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ہماری بستی دریا برد ہو جائے گی۔ ایسی ہمت فرمایئے کہ دریا ہٹ جائے۔ فرمایا کہ تم سب لوگ پھاوڑے اور کدال لے کر آ جا ؤ۔ وہ آ گئے تو آپ نے بھی کدال سنبھالا اور سب کو حکم دیا کہ کڑاڑہ کو کاٹ کر دریا میں ڈالو کہ دریا ہٹ جائے۔ وہ نادان اس رمز کو کیا سمجھتے بولے کہ صاحب اس میں تو اور ہمارا ہی نقصان ہے۔ فرمایا کہ بھائی ہم نے اسی طرح دریا ہٹتے سنے ہیں۔ لوگوں نے کہا۔ ارے چلو بھئی یہ تو خبطی سا معلوم ہوتا ہے وہ تو چل دیئے اور آپ بذات واحد دن بھر مٹی کاٹ کر دریا میں ڈالتے رہے۔ شام کو گھر تشریف لائے۔ صبح کو لوگوں نے جا کر دیکھا تو دریا تین کوس پرے ہٹ گیا تھا۔ سب متعجب ہوئے اور حاضر خدمت ہو کر اپنے قصور کی معافی چاہی اور پوچھا کہ حضرت یہ کیا بھید تھا۔ فرمایا کہ میاں جدھر رب اُدھر سب بھلا اس کی مرضی کے خلاف ہم کیا کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو کڑاڑہ کا گرانا منظور تھا ہم بھی گرانے لگے۔ جب ہم نے خدا کی مرضی پر کام کیا تو خدا نے ہمارا مدعا پورا کر دیا۔

                حضرت ذوالنون بصریؒ کے ایک مرید نے بے حاصلی کا گلہ کیا۔ آپ نے فرمایا جو کچھ پڑھتے ہو سب چھوڑ دو۔ اس نے سب درود وظائف ترک کئے لیکن عشاء کی نماز کے صرف چار فرض پڑھ کر سو رہا۔ خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت ہوئی۔ فرمایا کہ گھبرا ؤ مت اور اپنے پیر قطاع الطریق سے کہہ دو کہ تم لوگوں کو گمراہ کرتے ہو یا ہدایت۔ صبح دم کیفیت معاملہ حضرت ذوالنونؒ سے گزارش کی بولے کہ شاید تم نے فرض پڑھے تھے۔ ارے کمبخت اگر فرض بھی نہ پڑھتا تو خود سرکار تشریف لاتے۔ خیر اب ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ زبردست کا واسطہ درمیان ہے تم جانو اور وہ جانیں۔

                ایک شخص کسی بزرگ کی خدمت میں طلب کیمیا کے واسطے جایا کرتا تھا۔ ایک دن وہ بزرگ بولے کہ ہم تجھ کو کچھ دیں گے چونکہ وہ دنیا دار تھا سمجھا کہ شاید کیمیا بتلا دیں گے۔ فقیر صاحب اس کو غسل کرا کے کپڑے پہنا کر جنگل میں لے گئے اور ایک جگہ بٹھا کر کہا تو بیٹھا رہ، ہم آتے ہیں۔ یہ کہہ کر چل دیئے اور ایک مہینے تک نہ آئے۔ وہ ان کو صادق الوعد سمجھ کر وہیں بیٹھا رہا بعد مہینے بھر کے آئے اور کہا کہ اب تو ذرا کھڑا رہ ہم آ کر اکسیر دیں گے۔ سات روز تک اسی مقام پر کھڑا رہا پھر آئے اور کہا کہ اچھا بیٹھ جا اس سے بمشکل بیٹھا گیا اس کے بعد تعلیم و تلقین فرمائی اور وہ شخص نہایت صاحب کمال ہو گیا۔

                خلیفہ بغداد حضرت شبلیؒ کا مرید تھا اور ازراہ حسن ارادت اپنے ملازمین کو حکم دیا تھا کہ اگر کسی مجرم کی نسبت ہزار بار حکم قتل صادر ہو اور حضرت پیر و مرشد اس کی رہائی کے لئے ایما فرما دیں تو بلا اطلاع سلطانی فوراً رہا کر دو۔

                حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ تذکرہ غوثیہ میں لکھتے ہیں کہ جب مجنوں عاشق ہوا اور عشق مشتہر ہوا تو امتحان کے لئے لیلیٰ نے ایک آدمی بھیجا کہ مجنوں سے ایک پارۂ گوشت مانگ لا ؤ۔ اس نے مجنوں کو یہ پیغام سنایا۔ پوچھا کہ کہاں کا گوشت طلب کیا ہے۔ اس نے لیلیٰ سے پوچھا کہا کہ ابھی کچا ہے مرتبہ ناسوتی میں ہے۔ چند مدت کے بعد پھر ایک آدمی گوشت کی طلب میں پہنچا تو مجنوں نے جواب دیا کاٹ کر لے جا ؤ اس نے آ کر لیلیٰ سے بیان کیا کہا کہ ہاں اب عشق میں آیا ہے اور یہ مرتبہ ملکوتی ہے۔ جس طرح شاہ منصور نے اناالحق کہا تھا یہ مرتبہ جبروتی اور فنا فی العشق ہے۔ چند روز کے بعد صرف لیلیٰ لیلیٰ کہنا شروع کیا۔ مرتبہ لاہوت و توحید ہے۔ بعد اس کے گم گشتگی پیدا ہوئی نہ لیلیٰ یاد رہی نہ مجنوں یہ مرتبہ ہاہوت ہے۔ نہ خود نہ خودی نہ خدا کچھ باقی نہ رہا نہ ذکر نہ مذکور۔

                عشق حقیقی ہو یا مجازی آثار و اطوار عشق بہر صورت یکساں ظہور کرتے ہیں۔ شاہ منصور کو بھی غلبہ عشق تھا اور مجنوں کو بھی لیکن ان کو تو مرتبہ انا الحق میں عشق کے زور شور نے مار رکھا مگر جنوں کوئے لیلیٰ ے گزر گیا۔ شاہ منصور کی حالت اس شعر کے مطابق تھی:

بعد از فنا بھی لے نہ گئے کوئے یار میں

کیا بار تھا صبا مری مشت غبار میں

                اور مجنوں صحرا نوردوخانماں برباد کی کیفیت اس شعور کے موافق تھی:

آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نے نشاں

مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا

                حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جب راجہ جنگ کے دل میں درد طلب پیدا ہوتا تو تمام فقراء کو جمع کیا اور کہا کہ کوئی ایسا ہے جو مجھے تعلیم کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسی وقت گیان ہو جاوے۔ سب نے انکار کیا اور کہا کہ یہ قدرت ہم میں نہیں البتہ جو طریقہ سلوک کا ہے وہ ہم تعلیم کر سکتے ہیں۔ یہ حال اشٹا بکرمنی(ہندو فقیر کا نام ہے اور اس کے جسم میں آٹھ خم تھے اس واسطے نام اس کا اٹ بکر ہوا۔ شٹ کہتے ہیں آٹھ کو) نے سنا اور راجہ سے کہا کہ میں تم کو تعلیم کروں گا بشرطیکہ جو چیز میں تم سے طلب کروں مجھ کو دے دو۔ راجہ نے یہ شرط منظور کر لی۔ اول اشٹا بکر نے کہا کہ جتنا تمہارا راج پاٹ ہے سب مجھ کو دے دو، راجہ نے کہا۔ میں نے دیا۔ پھر کہا جس قدر تمہارا مال و اسباب اور گھر بار ہے۔ سب میرے حوالہ کرو۔ راجہ بولا کہ یہ بھی لو۔ پھر اشٹابکر نے کہا کہ اچھا اپنی جورو بچے بھی میری نذر کرو، راجہ نے کہا بہت خوب حاضر ہیں۔ پھر اشٹابکر نے کہا کہ اپنا جسم اور اپنی جان بھی ہم کو دے دو۔ راجہ نے کہا یہ بھی لے لیجئے پھر اشٹابکر نے کہا کہ اے راجہ جنگ جب تمہاری کوئی چیز نہ رہے یہاں تک کہ جسم و جان بھی تو سوچو کہ اب تم کون ہو اور تمہارا کیا ہے۔ راجہ نے غور کیا اور سمجھا کہ درحقیقت میرا تو نہ کچھ پہلے تھا نہ اب ہے صرف جھوٹا دعویٰ تھا۔

                مرشد کی اطلاع مرید پر لازم ہے۔ مرشد کے حکم کی تعمیل میں فرق اور امتیاز کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ مرشد خدا کا نمائندہ ہے۔ مرشد کی اطاعت نہ ہونے سے روح کمزور ہو جاتی ہے۔ مرشد کے سامنے مرید موم کی گڑیا ہے تا کہ وہ جدھر چاہے اسے موڑ دے۔ بولنا، لکھنا، پڑھنا، چپ رہنا، کوئی کام کرنا یا نہ کرنا سب مرشد کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ مرید کو مرشد کے ہاتھوں میں ایسا ہونا چاہئے جیسے بوڑھے اور ضعیف آدمی کے ہاتھ میں لاٹھی۔ ایک بے جان مادی چیز۔ جس کو جہاں مرشد چاہے اٹھا کر رکھ دے۔ کہا جاتا ہے کہ مرشد اگر مرید کو حکم دے کہ کنوئیں میں کود جا۔ مرید تعمیل حکم میں کنوئیں میں کود گیا مگر اسے یہ خیال آ گیا کہ مرشد خود ہی بچا لے گا تو یہ مرشد کی نظر میں حکم کی تعمیل نہیں ہوئی۔

                حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک دوست تھا مگر نادان، اس نے حضرت سے درخواست کی کہ مجھ کو اسم اعظم سکھا دیجئے، بہت انکار کیا اور سمجھایا کہ تو اس قابل نہیں ہے۔ اس نے نہ مانا اور نہایت اصرار کیا۔ مجبوراً بتلایا اور امتحان بھی کرا دیا لیکن منع فرمایا کہ آئندہ تو اس کو کام میں نہ لانا ورنہ اچھا نہ ہو گا۔ یہ فرما کر چل دیئے۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ بھلا اب تو دیکھوں اسم اعظم تاثیر کرتا ہے یا نہیں۔ کچھ ہڈیاں نظر آئیں ان پر اسم پڑھا فوراً ایک شیر خونخوار زندہ ہو کر غرایا اور اس کو پھاڑ کھایا۔ جب حضرت اس راہ سے واپس آئے تو دیکھا کہ وہ مرا ہوا پڑا ہے۔ اور شیر کھا رہا ہے۔ شیر سے پوچھا تو نے اسے کیوں مارا۔ جواب دیا کہ یہ شخص میرا خالق تو بنا تھا مگر رزق کی فکر نہ کی اس لئے میں نے اس کو کھا لیا۔

                ایک شخص کسی فقیر کے پاس مرید ہونے گیا۔ انہوں نے چار ٹکے دیئے اور فرمایا کہ آج کسی کسبی کے پاس رہو پھر آ ؤ گے تو مرید کر لیں گے۔ وہ شخص متشرع تھا لاحول پڑھ کر چلا گیا کہ اچھے پیر ملے اور خوب ہدایت کی۔ اتفاق سے اسی شب کو بیوی کے پاس گیا نطفہ نے قرار پایا اور لڑکی پیدا ہوئی۔ جب سن بلوغت کو پہنچی تو فاحشہ ہو گئی اور بازار میں جا بیٹھی۔ اس شخص کی ایسی بدنامی ہوئی کہ منہ دکھانے کو جگہ نہ رہی پھر اسی فقیر کی خدمت میں پہنچا اور اپنا درد دل بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس روز کے چار ٹکے تو اسی لئے تھے کہ یہ بلا تمہارے گلے نہ پڑے، رنڈیوں میں پیدا ہوتی اور رنڈی بنتی تمہارا نام بدنام نہ ہوتا لیکن تم نے نہ مانا اب اپنے کئے کو بھگتو۔

                ایک مرید نے اپنے پیر سے پوچھا کہ پیر کا حق مرید پر کیا ہے اور مرید کا حق پیر پر کیا ہے۔ اس بزرگ نے جواب دیا کہ اچھا بتا دیں گے۔ چند روز کے بعد جس وقت وہ مرید راسخ الاعتقاد حاضر ہوا پہلے اس سے کہ وہ بیٹھے پیر نے حکم دیا کہ چلے جا ؤ وہ مرید فوراً ایک طرف کو چل دیا۔ ساتویں روز ایک شہر کے قریب پہنچا وہاں ایک امیر اسی بزرگ کا مرید تھا۔ اس کو اس مرید مسافر کا حال منکشف ہوا اس نے اپنے پاس بلایا اور پوچھا تم کہاں جاتے ہو۔ اس نے کیفیت بیان کی اور کہا کہ میں نہیں جانتا کہ میں کہاں جاتا ہوں۔ تب اس نے کہا کہ تم کو میرے ہی پاس بھیجا ہے آ ؤ ٹھہرو۔ چند روز کے بعد ایک ہزار دے کر رخصت کیا اور کہہ دیا کہ بس واپس چلے جا ؤ۔ وہ چلا تو اثنائے راہ میں ایک شہر میں داخل ہوا۔ اتفاقاً ایک بازاری عورت جو حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ فریفتہ ہو گیا اور وہ ہزار روپیہ دے کر اس سے ملاقات ہوئی۔ جب ارادہ فاسد کیا تو غیب سے ایک طمانچہ لگا تین بار یہی معاملہ گزرا۔ عورت نے پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔ اس نے تمام سرگزشت بیان کی وہ بولی کہ معلوم ہوا تمہارا شیخ مرد کامل ہے۔ اس خیال باطل کو چھوڑو اور ہم تم دونوں ان کی خدمت میں چیں اور یہ لو اپنا روپیہ۔ آخر دونوں پیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عورت نے افعال سابقہ سے توبہ کی اور اس شخص سے نکاح کر لیا۔ چند روز کے بعد اس مرید نے پھر وہی سوال کیا تو شیخ نے جواب دیا کہ پیر کا حق وہ تھا جو تو نے ادا کیا یعنی بغیر چوں چرا ہمارے حکم کی تعمیل کی اور مرید کا حق وہ تھا جو تجھ پر گزرا۔

                اس واقعہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ مرید اپنے مرشد کی ہر بات پر بلا چوں چرا عمل کرے تو تب ہی اسے علم حاصل ہو سکتا ہے۔ مرید جب مرشد کی بات پر عمل کرتا ہے تو مرشد بھی اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں اس کو باطنی قوت سے نکالتے ہیں۔ 

                میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ روحانی استاد جو علم حاصل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے ایسا ربط اور تعلق قائم ہو جائے کہ بندہ بہترین غذا کھائے، بہترین لباس پہنے، بہترین گھر میں رہے، بہترین خوشبو لگائے، بہترین باغ درختوں کے سائے میں تیور میں آوازیں سنے، ہوا سے جھومتے درختوں کے ساز سنے لیکن ذہن اللہ سے اِدھر اُدھر نہ ہو۔

                حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے وفات سے پہلے امیر خسرو کو نصیحت کی تھی کہ جب میں فوت ہو جا ؤں تو تم شہر کی فلاں حد سے آگے نہ آنا وگرنہ کوئی خلاف مشیئت کام ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے سچے اور حقیقی عاشق نے آپ کے حکم کی تابعداری میں شہر کی وہ حد پار نہ کی۔

                حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے پاس آپ کی بہن آپ کے بھانجے صابر پاکؒ کو لے کر آئی کہ اسے بھی علم سے نوازیں۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے خانقاہ میں چھوڑ جا ؤ۔ صابرپاکؒ کو خانقاہ میں چھوڑ دیا گیا اور آپ کی ڈیوٹی روٹیوں کے اوپر لگا دی گئی اور حکم دیا کہ خانقاہ میں روٹیاں تقسیم کیا کرو۔ کچھ عرصے بعد آپ کی بہن دوبارہ آئی تو دیکھا کہ بیٹا صابر تو پہلے سے بھی زیادہ دبلا ہو گیا ہے۔ آپ نے بابا فرید سے اس سلسلے میں بات کی تو بابا فرید نے بلا کر پوچھا کہ کیا تم روٹی نہیں کھاتے تو حضرت صابر پاکؒ نے فرمایا کہ حضور آپ نے صرف تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا، کھانے کا نہیں۔

                تذکرہ اولیاءؒ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک بزرگ کے دو بھائی مرید تھے۔ بزرگ دونوں بھائیوں میں سے ایک بھائی کے ساتھ بہت سلوک پیار محبت اور دوستی کا کرتے جبکہ دوسرے کو یہ التفات نصیب نہ تھے۔ اس نے اس بات کو کئی دفعہ محسوس کیا لیکن ادب کی خاطر کچھ نہ کہتا تھا۔ آخر ایک دن صبر نہ ہو سکا۔ ہلکے سے لہجے میں مرشد کریم سے اس بات کی شکایت کی۔ بزرگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اونٹ کا ایک بچہ لا ؤ۔ اونٹ کا بچہ لایا گیا۔ آپ نے اس بھائی کو جس نے شکایت کی تھی کہا کہ میں اس کو چھت پر پہنچا ؤ۔ اس نے جواب دیا کہ یہ تو کافی بڑا ہے مجھ سے اٹھا کر سیڑھیاں چڑھکر اوپر نہیں پہنچایا جائے گا۔ پھر آپ نے اس کے دوسرے بھائی سے کہا جس سے بڑی محبت تھی کہ اس کو اوپر پہنچا ؤ۔ اس نے اپنا سر اونٹ کے بچے کے نیچے دیا اور لگا زور لگانے مگر اونٹ کا بچہ تو بہت بڑا تھا۔ حقیقت میں تو وہ کبھی بھی اٹھایا نہ جا سکتا تھا۔ لیکن اس نے اپنی پوری قوت صرف کر دی۔ پسینے میں شرابور ہو گیا اور تھک ہار کر واپس آ گیا اور مرشد کریم سے کہا کہ حضور میں نے اپنی پوری کوشش صرف کی لیکن یہ نہیں اٹھایا گیا۔ مرشد کریم نے اس کے بھائی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں اور اس میں یہی فرق ہے کہ تم نے حکم نہ مانا اور چوں چرا کی لیکن باوجود اس کے کہ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ نہ اٹھایا جائے گا پھر بھی اس نے حکم کی تعمیل میں کوشش کی اور اس کی اسی بات نے اس کو تم سے افضل کیا ہے۔

                حضرت سید علی بن دقاقؒ فرماتے تھے کہ مرید پر لازم ہے کہ اپنے تمام وسائل اسباب اور معمولات شیخ کے قدموں پر ڈال دے۔ نہ اپنے علم پر اعتقاد کرے نہ اپنے عمل پر بلکہ یقین کرے کہ تمام بھلائیاں مجھے شیخ ہی کے واسطے سے پہنچیں گی۔

                حضرت بایزید بسطامیؒ ایک دن حضرت امام جعفر صادقؒ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ امام جعفرؒ نے فرمایا۔ ‘‘بایزید! کتاب طاق سے اٹھا کر دو دو۔’’ آپ نے پوچھا کون سے طاق سے حضرت امام جعفر صادقؒ نے فرمایا عرصہ سے تم یہاں آتے ہو اور ابھی تک تمہیں طاق کا پتہ نہیں۔ بایزیدؒ نے دست بدست عرض کی۔ ‘‘حضور مجھے اس سے کیا کام کہ آپ کی موجودگی میں سر اٹھا ؤں۔’’

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی