Topics

معاشرتی زندگی


                سالک کو چاہئے کہ ہر نیک و بد کے ساتھ کشادہ پیشانی سے پیش آئے باطن خواہ اس سے خوش ہو یا ناخوش کسی پر اعتراض کرنے سے پرہیز کرے اور نرم و مناسب بات کرے اور کسی شخص کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئے۔

                اہل و عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے اور ان کا حق ادا کرنا چاہئے۔ باطنی احوال کو کسی سے بیان نہیں کرنا چاہئے۔ لوگوں کے عیبوں پر نظر نہیں رکھنی چاہئے اور اپنے آپ کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں دینی چاہئے۔

                مرید کو چاہئے کہ کسی پیر بھائی یا غیر کی مرشد سے چغلی یا برائی ہرگز نہ کرے اس فعل کے باعث مرشد کے دل سے اس کی بے وقعتی ہو جاتی ہے جو کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

                اگر کسی پیر بھائی پر مرشد اس کی نالائقیوں کی وجہ سے ناراض و غصہ ہوں تو مرید کو احتیاط کرنی چاہئے کہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالے جو مرشد کو بھڑکانے یا غصہ میں لانے والی ہو کیونکہ مرید، پیر بھائی اور مرشد کے باطنی تعلق سے بے خبر ہے۔

                اگر کسی پیر بھائی پر مرشد خوش ہوں اور ترقی و مدارج فرمائی تو مرید کو حسد نہیں کرنا چاہئے بلکہ خوش ہونا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ میرے روبرو جو یہ اظہار خوشی و ترقی ہو رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مرشد چاہتے ہیں کہ میں بھی یہ کام کروں تا کہ مجھ سے بھی مرشد خوش و راضی ہو جائیں۔ حسد کر کے انسان اپنا نقصان خود کرتا ہے۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ سالک کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ایک دوسرے کو اوپر جانے میں مدد دینا چاہئے تا کہ وہ اوپر آ کر آپ کا بھی بازو پکڑے۔ اگر آپ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگ جائیں گے تو کوئی بھی منزل تک نہ جا سکے گا۔

                مرشد اگر کسی کی نالائقیوں کے باعث اس سے ناراض ہو جائے تو اس کو چاہئے کہ کسی اپنے یا بیگانے سے اس امر کو ظاہر نہ کرے کیونکہ یہ راز خاص اس کا ہے اور اس کے ساتھ دوسرے کسی شخص کی اس میں مداخلت نہیں، نہ ہی کوئی دوسرا مرشد کو اس سے راضی کروا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ عام مرید خود اس ناراضگی کے دفعیہ کی فکر میں گرفتار ہے۔ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے سامنے نہایت عجز و انکساری اور بے حد ادب کے ساتھ ملتجی ہو کہ یا رب العالمین میں نے جو میرا خاصۂ بشری تھا تیرے مقبول بندے کو اپنے سے نارض کر لیا۔ اب مجھ میں کسی طرح سے اس کے راضی کرنے کی طاقت نہیں رہی تو ہی ہر شئے پر قادر ہے تو ان کو مجھ مسکین سے راضی کرنے کی طاقت و قدرت رکھتا ہے ورنہ کوئی اور سبیل نہیں ہے۔ اب تو ہی اپنی رحمت کاملہ کے ساتھ ان کو مجھ سے راضی کر دے۔ جب مرید عجز و انکساری کے ساتھ اس کے عالی دربار میں گر جاتا ہے تو مرشد راضی بہ خوش ہو جاتے ہیں کیونکہ مرشد کی ناراضگی اہل دنیا کی سی نہیں ہوتی جو مرے بغیر دل سے نہ نکلے بلکہ ان کی ناراضگی محض خدا تعالیٰ کے واسطے ہوتی ہے۔ جب سالک مرشد کے سامنے جا گرا اور اپنی ہمت پست کر دی تو مرشد راضی ہو جاتا ہے کیونکہ مرشد کی اصل رضا ہی یہی ہے کہ مرید اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ بن جائے اور اپنی خواہشوں اور نفس و شیطان سے دور رہے۔

                کہا گیا ہے کہ بزرگی تین چیزوں میں ہے، بڑوں کی عزت کرنا، ہمسروں کی مدارت کرنا اور کم درجہ شخص سے نفسانیت کو دور کرنا۔

                کہا گیا ہے کہ ہم نشین تین ہیں۔ ایک وہ جس سے تم استفادہ کر سکو، اسے ہرگز نہ چھوڑو۔ دوسرا وہ ہے جسے تم فائدہ پہنچا سکو اس کی عزت کرو۔ تیسرا وہ ہے جس سے نہ تم مستفید ہو سکو اور نہ وہ تم سے فائدہ اٹھا سکے اس سے بھاگو۔

                سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی کو حقیر نہ سمجھے کیونکہ آنحضرتﷺ سے روایت ہے کہ انسان کے لئے یہ برائی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی حقارت کرے۔

                سالک کے لئے ضروری ہے کہ اگر اس کے گھر میں کوئی مہمان آئے تو اس سے خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آئے۔ آنحضرتﷺ سے روایت ہے کہ انسان کے لئے یہ بات باعث ہلاکت ہے کہ اس کے بھائیوں میں سے کوئی شخص اس کے پاس آئے اور جو کچھ گھر میں ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر پیش نہ کرے اور اس کے پاس آنے والوں کی ہلاکت اس میں ہے کہ جو چیز ان کے سامنے پیش کی جائے اس کو وہ حقیر سمجھیں۔

                لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک کی مثال غذا کی ہے کہ ان کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ ایک دوا کی طرح ہوتے ہیں کہ ان کی بعض اوقات ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مثل بیماری کے ہے جس سے بچنا اور دور رہنا ضروری ہے۔

                آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ سائل کو دو اگرچہ وہ گھوڑے پر ہی بیٹھ کر کیوں نہ آیا ہو۔ سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ سائل کو ہرگز مت جھڑکے۔ کسی طالب کا سائل کو رد کرنا جائز نہیں جس حد تک کسی کی مدد کر سکتا ہو ضرور کرے اگر مدد نہ کر سکے تو محبت کے ساتھ معذرت کرے۔ حضرت ممشاد دینویؒ کے پاس جب غریب لوگ آتے تو وہ بازار میں جاتے اور دکانوں سے جو کچھ ملتا جمع کر کے لاتے اور ان کو دے دیتے اور اس چیز کو وہ سوال نہیں سمجھتے تھے کیونکہ یہ نیکی اور پرہیز گاری میں مدد دیتا ہے۔

                نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ سب سے زیادہ محبوب ہے جو نوجوان ہونے کے باوجود عابد ہو اور جو مصیبت زدہ ہو کر صابر ہو اور فقیر ہو کر خوش رہے۔

                طالب کو چاہئے کہ اگر اس پر کوئی مصیبت آ گئی ہے تو بیقراری کو ترک کرے کسی سے شکایت نہ کرے اور صبر و شکر کرے۔

                اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

                ‘‘صبر کرنے والوں کو اس کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔’’

                ایسی صورت میں طالب کو شیخ کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ان لوگوں پر مصیبت اس وقت آسان ہو جاتی ہے جب وہ اپنے محبوب کو پیش نظر رکھتے ہوں تب وہ اس مصیبت سے لذت یاب ہوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ جو طالب اپنے دعویٰ میں سچا اور اپنی مصیبت کی حقیقت کو سمجھتا ہو اس کو زمانے کا تغیر متاثر نہیں کر سکتا اور مصیبتوں اور ملامتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

                حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ‘‘قوی مومن اللہ کو زیادہ محبوب ہے، ضعیف مومن سے۔ وہ چیز جس سے ہم کو نفع پہنچ سکتا ہے اس پر حرص کرو اور اللہ سے مدد چاہو اور عاجز نہ بنو اور اگر کوئی مصیبت آئے تو کہو کہ اللہ نے اس کو مقدر کیا تھا اور اس نے جو چاہا کیا اور اس بات سے ڈرتے رہو کہ شیطان کے عمل کا کوئی دروازہ تم پر نہ کھلے۔’’ یعنی شیطان تم کو گمراہ نہ کر دے اور اس کا دا ؤ تم پر کارگر نہ ہو جائے۔

                طالب کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مطلوب ہونی چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہئے اور ایک دوسرے کو ایک سا سمجھنا چاہئے کسی کو بڑا یا چھوٹا یا اعلیٰ عرفہ خیال نہیں کرنا چاہئے اور کسی کے پیچھے اس کی غیبت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ طالب حق کے لئے کسی کی برائی کرنا نہایت ہی برا عمل تصور کیا جاتا ہے۔ طالب حق کو چاہئے کہ وہ دوسروں کی پردہ پوشی کرے کسی کے عیب ظاہر نہ کرے۔

                سالکین حق کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ باوضو رہیں کیونکہ اولیاء کرام میں خاص و عام کوئی بھی کسی بھی وقت بغیر وضو کے نہیں رہتے۔ وضو کرنے سے دل کو شفا حاصل ہوتی ہے اور طبیعت کا حلال دور ہوتا ہے۔ ہمیشہ باوضو رہنا چہرہ پر نور پیدا کرتا ہے۔ سالکین کے لئے ضروری ہے کہ نماز میں اللہ کے ساتھ ربط قائم کریں۔

                سالکین کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ریاضت اور مجاہدے کو شمار میں نہ لائیں اور یہ سمجھیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا جو وقت گزر جائے اسے یاد نہ کرے اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے اسے ضائع نہ کرے۔ گزرے ہوئے لمحات پر افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ موجود لمحے کو افسوس کی نظر نہ کرے اور بہتر سے بہترین گزارے۔ پیر کا حکم بجا لانے میں بڑی مستعدی سے کام لے اور خفیف باتوں پر توجہ نہ کرے۔ نفس کی خواہش پر ہرگز عمل نہ کرے۔ علم و عقل پر ہرگز فخر نہ کرے۔ طالب کا دو باتوں پر خیال رکھنا ضروری ہے ایک تزکیہ نفس دوسرے نفس کا پاک کرنا اور خدا کی طرف پوری توجہ کرنا۔ انہی دو باتوں کے لئے انبیاء مبعوث ہوئے اور انہی دو باتوں کی انہوں نے تعلیم دی۔ تزکیہ نفس یہ ہے کہ نفسانی خواہشوں کو روک رکھے اور توجہ یہ ہے کہ اپنے اندر سے شک دور کرے۔

                طالب کے لئے ضروری ہے کہ وہ تب تک سفر اختیار نہ کرے جب تک کہ مرشد اس کو اس کی اجازت نہ دے دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر طالب کو کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلاتوقف معاف کر دے اس لئے کہ انتقام کا جذبہ اعصاب کی قوت ختم کر دیتا ہے۔ سالک کو چاہئے کہ غیبت، عیب جوئی و چغلخوری سے پرہیز کرے۔ اگر اس کے پاس نوکر چاکر ہوں تو ان پر کہر و غضب اور مار پیٹ نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کی محفل میں بیٹھے جو زاہد و نیک ہوں۔ طالب کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نہ جنت کی طلب کرے اور نہ ہی دوزخ کا خوف کھائے کیونکہ جنت دوزخ تو منزل کے پڑا ؤ ہیں۔ جس کسی پر اس کا حق ہے اس کو معاف کر دے اور کسی کی دل آزاری نہ کرے۔

                اپنا علم یا اپنا کام دوسروں پر جان بوجھ کر ظاہر نہ کرے اگر کوئی بات خود بخود ظاہر ہو جائے تو اس کی طرف توجہ نہ دے۔ نماز مراقبہ ذکر فکر سے فارغ ہو کر حکایات بزرگان پڑھے۔ مرید ایسا ہونا چاہئے کہ جس قدر اس کو دیا جائے اس سے زیادہ طلب کرے نیز سخی ہونا بھی ضروری ہے کہ جان ومال سے دریغ نہ کرے۔ طالب کو چاہئے کہ صلاح و اصلاح کا سبب بنے نہ کہ فساد کا۔ اگر طالب و مرید فساد پیدا کرنے کی باتیں کرے تو وہ طالب و مرید نہیں، طالب نام و نسب پر فخر نہیں کرتا۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی