Topics

آداب شیخ


                ادبو النفس ایھا الاصحاب

                طرق العشق کلھا آداب

                )اے دوستو! اپنے آپ کو آداب سکھا ؤ اس لئے کہ عشق کے سب طریقے ادب ہی ادب ہیں۔(

                حضرت علیؓ کا فرمان ہے:

                ‘‘ہر شئے کی کوئی قیمت ہوتی ہے، انسان کی قیمت اس کا علم و ادب ہے۔’’

                حضرت عمر فاروقؓ کا فرمان ہے:

                ‘‘پہلے ادب سیکھو پھر علم سیکھو۔’’

                حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا فرمان ہے:

                ‘‘بے ادب خالق و مخلوق دونوں کا معتوب اور مغیوب ہوتا ہے۔’’

                کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:

                ‘‘تارک ادب اخلاق محمدیﷺ سے بہت دور ہوتا ہے۔’’

                فقیہہ ابوالیث سمرقندیؒ نے فرمایا:

                ‘‘اسلام کے ۵ قلعے ہیں۔ پہلا یقین، دوسرا اخلاص، تیسرا فرائض، چوتھا تکمیل سنن، پانچواں حفظ ادب۔ جب تک انسان آداب کی حفاظت و نگرانی کرتا رہتا ہے شیطان اس سے مایوس رہتا ہے اور جب یہ آداب چھوڑنے لگتا ہے تو شیطان سنتیں چھڑوانے کی فکر میں لگ جاتا ہے حتیٰ کہ پھر فرائض، اخلاص اور یقین تک نوبت جا پہنچتی ہے۔

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچا ؤ اور ان کو ادب سکھاؤ۔‘‘

                رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

                "اچھے آداب ایمان کا حصہ ہیں۔"

                آپﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:

                ‘‘مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا پس جان لو کہ دین اور دنیا کے تمام امور حسن ادب سے ہی متعلق ہیں۔’’

                دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ تمام معاملات میں حسن آداب ایک پسندیدہ امر ہے۔ لوگوں میں مروت کی حفاظت دین میں سنت کے تحفظ اور دنیا میں حرمت و عزت کی حفاظت کا نام ادب ہے اور یہ تینوں امور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں۔ روزمرہ کے معاملات میں اب کی حفاظت دل میں مطلوب کی تعظیم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

                ادب کو ترک کرنے والا کسی طرح بھی ولی نہیں ہو سکتا اس لئے کہ آداب کی موجودگی میں ہی محبت ہوتی ہے اور حسن ادب دوستوں کی صفت ہے۔

                تمام صوفیائے کرام اس بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ جب تک طالب کے دل میں اپنے شیخ کے لئے مناسب ادب کے جذبات موجود نہ ہوں اس وقت تک عبادات و مجاہدات اپنا پورا اثر نہیں دکھاتے۔ اولیاء کرام کے نزدیک تصوف سارے کا سارا ادب ہی ہے۔ یہ اس لئے کہ تصوف کا مدار عشق پر ہے اور عشق میں اول تا آخر ادب کی ضرورت ہے۔ اگر عشق ادب نہ سکھائے تو وہ عشق نہیں۔ صاحب ہوش کے لئے ادب کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مولانا رومؒ نے اپنی مثنوی میں ادب کے متعلق فرمایا ہے:

                ‘‘بے ادب اللہ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ بے ادب نہ صرف اپنی روحانی دنیا کو خراب کرتا ہے بلکہ پورے عالم میں فساد کی آگ لگا دیتا ہے۔’’

                عبادت سے آدمی جنت تک پہنچ جاتا ہے مگر اطاعت الٰہی میں ادب بجا لانے سے اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔ جو شخص بادشاہ کی محفل میں بے ادب بیٹھے گا تو اس کی جہالت اسے قتل کروا دے گی۔ جو لوگ ہلاکت میں گرفتار ہیں ادب کے مارے ہوئے ہیں۔ زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا سا ادب حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ خدمت کے دائرے میں رہ کر ادب خدمت سے بھی بالاتر ہے بلکہ صوفیاء کرام کے نزدیک عبادت سے بھی بالاتر ہے کیونکہ عبادت رد ہو سکتی ہے مگر خدمت اور ادب ضائع نہیں ہوتے۔

                جو سالک اپنے نفس کو بے ادبی پر قائم رہنے دیتا ہے اور اس کی مخالفت نہیں کرتا تو اس کا نفس مطلق العنان اور سرکش بن جاتا ہے۔ جس سالک کے ظاہر میں ادب نہیں وہ باطنی حسن ادب سے بھی محروم ہوتا ہے۔

                ادب و احترام کا مطلب یہ ہے کہ استاد کی تعظیم کی جائے۔ احترام یہ ہے کہ اگر استاد نے رات دو بجے تہجد ادا کرنے کو کہا ہے تو اب شاگرد پر لازم ہے کہ وہ نفل ادا کرے۔ نفل ادا نہ کرنا بے ادبی اور گستاخی ہے۔ پیر و مرشد کا احترام یہ ہے کہ پیر و مرشد کی ہدایت پر عمل کیا جائے اور جو اسباق دیئے جائیں ان پر عمل کیا جائے۔ مرشد پر مرید کا یہ حق ہے کہ مرید کی کوشش کے مطابق اس کو علم منتقل کرتا رہے جب تک مرید مرشد کا حق ادا نہیں کرتا مرشد بھی مرید کا حق ادا نہیں کرتا۔

                اگر طالب کو شیخ کی خدمت کا موقع ملے تو دل و جان سے بجا لائے اور شکر کرے کہ شیخ ہی کی عنایت سے اس خدمت کی مجھے توفیق ہوئی۔ ہر وقت شیخ کے لئے دراز عمری اور قرب خداوندی کی دعا کرے اگرچہ اس کی دعا سے کیا ہوتا ہے مگر اس بات میں اس کے خلوص و محبت کا اظہار ہے کہ جو کچھ اس سے ہو سکتا ہے کرتا ہے۔

                اگر مرید کسی مقام پر پہنچ جائے مثلاً ابدال ہی ہو جائے تو بھی ان کی خدمت میں پہلے ہی کی طرح آئے طالب ہمیشہ طالب ہی رہتا ہے۔ جب تک مرید شیخ کی طرف پوری طرح متوجہ نہ ہو گا شیخ کے انوارات سے پوری طرح فیض یاب نہ ہو گا۔

                مرید کو اگر شیخ کی اپنے مال سے خدمت کرنے کا موقع ملے تو اپنے لئے خوش قسمتی سمجھے اور سمجھے کہ پیر جس طرح دین کے معاملات میں اس کا محتاج نہیں دنیا کے معاملات میں بھی اس کا محتاج نہیں ہے۔ مرید کی خوشحالی دراصل شیخ ہی کی بخشش ہے۔

                بعض مرید تسخیر جنات یا ایسے ہی دوسرے مشاغل میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان جھگڑوں سے باز آئیں کیونکہ یہ سب دنیاوی کھیل تماشے ہیں اور روحانیت کا منشاء کوئی اور ہے۔ شیخ جو کچھ حکم دے مرید پر لازم ہے کہ اسے فوراً بجا لائے اگر وہ نہ کر سکتا ہو پھر بھی اس کی کوشش ضرور کرے۔ مثلاً شیخ اگر کہیں کہ اونٹ کے پیر باندھ کر چھت پر لے آ ؤ تو مرید حکم کو بجال لانے کی کوشش کرے۔

                کامل مرشد قرب حق کی طرف بلاتا اور غیر حق سے بچاتا ہے مرشد عارف ہوتا ہے اور عارف کا نفس بھی عارف ہوتا ہے۔ شیخ کے تمام خلفاء کو بھی ایک نعمت تصور کرنا چاہئے کہ جس طرح دریا سے مختلف نہریں نکلتی ہیں۔ شیخ جو کہے وہ کرنا چاہئے اور شیخ جو کرے اسے ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ جب تک کہ خود شیخ اس کی اجازت نہ دے دے۔ اس لئے کہ جو سکت شیخ رکھتا ہے وہ طالب نہیں رکھتا اور جو شیخ جانتا ہے وہ طالب نہیں جانتا۔ شیخ کی طرف خیال کرو کہ وہ جو کچھ کرتا ہے بحکم الٰہی کرتا ہے۔

                شیخ جو بات کرے اسے محال خال نہ کرے اگر شیخ کوئی بات بیان نہ کریں تو اس کی ہرگز تحقیق نہیں کرنی چاہئے یہاں تک کہ اگر دن میں شیخ کہہ دیں کہ رات ہے تو مرید کو اس چیز کا یقین ہونا چاہئے کہ دن نہیں بلکہ رات ہے۔ اگر شیخ پر کامل یقین ہو تو مرید دن کو بھی رات دیکھتا ہے اور اسے عین الیقین ہو جاتا ہے۔

                مرید جو خواب دیکھے شیخ کے سامنے عرض کرے۔ شیخ سے خاص اسرار معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی شیخ کا راز کسی سے بیان کرنا چاہئے۔ اگرچہ خواب میں انبیاء و اولیاء کی زیارت کرے مگر مرشد کی زیارت سب سے بہتر جانے اور عقیدہ جانے کہ تمام اولیاء حق پر ہیں مگر میرے مرشد کا راستہ سب سے نزدیک ہے اور میرے لئے صرف میرے مرشد ہی ہیں۔ کسی بھی دوسرے سلسلے کے مقابلے میں اپنے سلسلے کو برتر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے اور نہ ہی کسی کو برا جانے اس لئے کہ تمام سلاسل اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں، منزل سب کی ایک ہے مگر راستے مختلف ہیں۔

                قیامت کے روز مرید چاہے کسی بھی مرتبے کا ہو مرشد کے پیچھے کھڑا کیا جائے گا۔

                مرید جب قدم بہ قدم چل کر مرشد سے فیض یاب ہوتا ہے اور کچھ حاصل کرتا ہے تو بعض اوقات وہ مغرور ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے بعض اوقات تو بعض لوگ اپنے آپ کو شیخ سے بھی افضل جاننا شروع کر دیتے ہیں۔ ہزاروں عارفین اس جگہ آ کر رک گئے اور خواہش نفس میں مبتلا ہو کر اپنا راستہ کھوٹا کر بیٹھے ایسے لوگ بدبخت ہوتے ہیں جو مرشد کی فرمانبرداری اور صحبت چھوڑ کر اپنی خواہش پر چلنے لگیں۔ لہٰذا طالب علم کو چاہئے کہ ہمیشہ طالب ہی رہے استاد بننے کی کوشش نہ کرے اور جس مقام پر بھی پہنچے شیخ کی محبت ترک نہ کرے۔ جس مرید کے دل میں کسی مقام و مرتبہ کا خیال آتا ہے وہ اپنے آپ کو کامل سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب پیر و مرید نہیں رہے۔ ایسا شخص کسی اور طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اپنے مقصد سے ہٹ جاتا ہے۔

                مرید پر لازم ہے کہ اگر وہ ارشاد و تلقین کی طاقت رکھتا ہو تب بھی مرشد کے سامنے اس کام سے باز رہے جب تک کہ وہ حکم نہ دیں اور جب مرشد حکم دیں اپنے علم کے مطابق تعلیم کرے اور اس کو بھی مرشد کی جانب سے تصور کرے۔

                مرید پر لازم ہے کہ ارادت کے بعد اپنے تمام مسائل اور تمام مطالبے اپنے مرشد سے طلب کرے کیونکہ اولیاء کرام کا ارشاد ہے کہ اپنے مرشد کو چھوڑ کر دوسرے سے طلب کرنا مرتد ہونا ہے۔ اگر وہ کسی اور کے پاس جائے گا تو وہ اس کی دست گیری نہیں کرے گا لہٰذا مفت میں اپنی راہ کھوٹی نہیں کرنی چاہئے۔ طالب شیخ سے کسی ایسی بات کی فرمائش نہ کرے جس کی سلوک میں ضرورت نہ ہو اور نہ ہی اس بات کا منتظر رہے کہ مرشد سے کوئی کرامت ظہور میں آئے گی۔ مرید کے لئے ضروری ہے کہ جتنی دیر وہ شیخ کے پاس رہے باوضو رہے۔

                قثیریؒ اپنے شیخ ابو علی دقاقؒ کا بیان نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کبھی وہ اپنے شیخ نصر آبادیؒ کے پاس جاتے تو پہلے غسل کرتے پھر ان کی محفل میں جاتے۔ مگر قثیریؒ اپنے شیخ سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں جب بھی میں اپنے شیخ کی مجلس میں جاتا تو اس روز روزہ رکھتا پھر غسل کرتا تب ابو علی دقاقؒ کی مجلس میں جاتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ مدرسہ کے دروازے تک پہنچ گیا مگر شرم و حیا کے مارے دروازے سے ہی لوٹ آتا اور کبھی ہمت کر کے دروازے کے اندر داخل ہو جاتا اور مدرسہ کے وسط تک پہنچ چکا ہوتا کہ تمام بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ایسی حالت میں اگر مجھے کوئی سوئی بھی چبھو دی جاتی تو شاید میں اسے محسوس نہ کرتا۔

                ایک روز سائیں عبدالکریم عرف مغلی شاہ، سائیں توکل شاہ انبالویؒ کی خدمت مبارک میں حجرہ کے اندر تھے۔ آپ کو ان سے بہت محبت تھی۔ بعض وقت فرط محبت سے سینہ مبارک پر ڈال لیا کرتے تھے۔ اس وقت فرمانے لگے کہ مغلی شاہ تیرے نزدیک ہم کیسے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور اور تو مجھے کچھ خبر نہیں اتنا جانتا ہوں کہ زندوں میں تو حضور جیسا کوئی نہیں قبروں میں ہو تو مجھے خبر نہیں۔ حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا مغلی شاہ تو آج بچ گیا۔ آداب بزرگان کا تو نے اچھا لحاظ رکھا۔ اگر تو اس وقت کہہ دیتا کہ آپ جیسا کوئی نہیں اور نہ ہوا ہے تو مرتبے سے گر جاتا یہ تو نے خوب ہی جواب دیا اور نہایت خوش ہوئے۔

                ایک درویش تھے ان کا معمول تھا کہ مکان کا بیرونی دروازہ بند رکھتے اور یاد الٰہی میں مشغول رہتے۔ ایک مرید ان سے بہت ہی محبت رکھتا تھا۔ وہ ہیشہ مزدوری کرتا اور اس کے پیسوں سے اپنے ان پیر کی ضروریات بہم پہنچاتا اور اپنا بھی گزارہ کرتا رہتا۔ ایک عرصہ اسی طرح گزر گیا۔ ایک روز مرشد نے اپنے کپڑے دھونے کا حکم دیا تو اس نے دل میں سوچا کہ اگر کپڑے دھو ؤں تو نہ صابن کے لئے پاس پیسے ہیں اور نہ آج مزدوری ہو سکے گی۔ بڑی دیر تک سوچتا رہا اور پیر سے عرض کی کہ حضور دعا کریں اور کچھ نہیں تو صابن کے واسطے تو اللہ تعالیٰ پیسے دے دیا کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنے واسطے تو بالکل دعا نہیں کرتے ہاں تیرے واسطے دعا کرتے ہیں تجھ کو اللہ تعالیٰ اس قدر دنیا دے گا کہ ہم جیسے تیرے دروازے پر دھکے کھاویں گے۔ خیر وہمرید گیا دن بھر مزدوری کر کے پیسے لئے اور کپڑے دھو کر دیئے وہ بہت خوش ہوئے۔ اسی طرح کچھ مدت پیشوا کی خدمت کر کے خوشنودی حاصل کرتا رہا۔ کرتے کرتے رحمت الٰہی ربوبیت کے ساتھ متوجہ ہوئی اور تکمیل نسبت ہو گئی۔ آخر پیشوا نے فرمایا کہ جا ؤ تم لوگوں کو ہدایت کیا کرو اب ہماری خدمت کوئی اور کر لیا کرے گا۔ چنانچہ وہ مرید ہدایت کرنے لگا۔ خوب ہدایت پھیلائی اور ساتھ ہی پیر کی خدمت بھی کرتا رہا۔ ایک روز مرید چلا جا رہا تھا کہ سامنے سے بادشاہ آ گیا اور اس کو دیکھتے ہی معتقد ہوا اور بیعت ہو گیا اور اپنے اس پیر کے واسطے لنگر خانے اور مکانات وغیرہ بنوا دیئے۔ جاگیر دے دی اور دروازے پر شاہی اردلی متعین کر دیئے تا کہ بلا اجازت کوئی اندر نہ آوے۔ کچھ عرصے بعد ان مرشد صاحب کو بھی خیال ہوا کہ چلو اپنے خلیفہ کو دیکھیں۔ وہ آئے اور اپنے مرید کا گھر سمجھ کر بے دھڑک دروازے کے اندر داخل ہو گئے۔ اردلی نے جو دیکھا تو ان کو دھکا دے کر نکال دی اور کہا کہ بڈھے تو بلا اجازت کیوں اندر چلا آتا ہے اور بھی بہت سست کہا وہ بزرگ باہر گر پڑے۔ ادھر وہ مرید مراقبے میں بیٹھا تھا اس کو مرشد کا فیضان محسوس ہوا۔ معلوم ہوا کہ پیر آ گئے۔ وہ باہر نکلا تو پیر کو زمین پر گرے ہوئے پایا۔ دیکھ کر بے تحاشا ان کے قدموں میں گر پڑا اور قدم چومے ان کو اٹھا کر بڑی قدر و عزت کے ساتھ اندر لایا اور معذرت کرنے لگا کہ حضور میرا یہ تمام گھر باور یہ سب کارخانہ حضور کا ہے۔ آپ ہی اسے سنبھال لیں۔ میرا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مرشد صاحب نے فرمایا گھبرا نہیں تسلی رکھ ہم تجھ سے ناراض نہیں۔ مرید نے عرض کیا کہ حضور میرا جی چاہتا ہے کہ اس اردلی کو موقوف کر دوں اور سزا دوں، اس نے حضور کو ناحق دھکا دیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا کیا قصور ہے بلکہ اس کو انعام دینا چاہئے کیونکہ ہماری دعا قبول ہوئی اور اس طریقہ سے اس دعا کا ظہور ہوا ہے۔

                وہ فقیر قطب وقت تھے اور مرید کو جو کچھ ملا ان کی رضا سے ملا۔ جب تک پیشوا خدمت کراتا رہا خدمت کی پھر جب ہدایت کرنے کا حکم دیا تو ہدایت میں مشغول ہو گیا۔ چونکہ وہ پیشوا کی اطاعت و رضا میں ثابت قدم رہا اس لئے اس کے سب کام درست ہو گئے۔

                ایک شخص نے عہد کیا تھا کہ میں اس شخص کا مرید ہوں گا جو وضو کے واسطے پانی کو لوٹا اپنے گھر سے لاتا ہو گا اور جس کے لوٹے کی ٹوٹنی کا منہ وضو کرتے وقت قبلہ کی طرف ہو گا۔ ایسے شخص کو ڈھونڈتا ہوا وہ بغداد شریف جا پہنچا۔ وہاں ایک جولاہا تھا، لوگ اس کو مسجد کو لوٹا نہ دیتے تھے۔ وہ اپنا لوٹا گھر سے ہی ساتھ لاتا تھا اور اتفاق سے ٹوٹنی کا منہ بھی قبلے کی طرف تھا۔ اس شخص نے اپنے اسی عہد کی وجہ سے اس سے مرید ہونے کو کہا۔ ہر چند اس جولاہے نے انکار کیا مگر اس شخص نے ایک نہ مانی۔ آخر مجبور ہو کر کہا میں بھٹی میں کام کرتا ہوں تو بھی آ جایا کر۔ چنانچہ وہ ایک مدت تک آتا رہا۔ ایک دن راستے میں دیکھا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تشریف لا رہے ہیں اور لوگ آپ کی زیارت کرتے اور آپ کے پاؤں  کو بوسے دیتے ہیں۔ اس شخص نے دور سے دیکھتے ہی منہ پر کپڑا ڈال دیا۔ جب غوث پاکؒ نے فرمایا اے اللہ کے بندے تو نے ہم میں کیا قصور دیکھا کہ منہ پر کپڑا ڈال دیا۔ اس نے عرض کیا حضورؒ آپ میں تو کوئی قصور نہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ میرے پیر سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ میں نے اس خیال سے منہ پر کپڑا ڈالا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے چہرہ مبارک پر نظر پڑنے سے مجھے آپ سے عشق ہو جائے اور اپنے پیر کی محبت میرے دل سے کم ہو جائے۔ حضور غوث پاکؒ نے پوچھا تیرا پیر کون ہے؟ اس نے اپنے پیر کا تمام قصہ سنا دیا۔ آپؒ کو اس کی عقیدت پر رحم آ گیا اور سینے سے لگا کر توجہ دی اور تمام مقامات طے کر ادیئے۔ جب اس نے اپنا کچھ اور ہی رنگ دیکھا تو عرض کیا حضور مجھے بڑی شرم آئے گی بڑی عنایت ہو گی اگر میرے پیر کو بھی کچھ حاصل ہو جائے۔ آپ نے فرمایا اچھا جا اسے بھی لے آ، چنانچہ وہ جا کر اس جولاہے کو بھی لے آیا۔ آپ نے اس طرح اس کے مقامات بھی طے کر ادیئے اور دونوں حضرت سے بیعت ہو گئے۔

                جو کو ایسی عقیدت ہو اس پر اللہ کا فضل بھی اسی طرح ہو جاتا ہے۔ مرشد کریم سے ایسی عقیدت ہو کہ سمجھے کہ مرشد کے علاوہ دنیا میں کوئی دوسرا روحانی شخص نہیں ہے یا یہ سمجھے کہ پوری کائنات میں میرے مرشد کا فیض جاری ہے۔ مرشد کی عقیدت پر استقامت ہی بندے کو پار لگاتی ہے۔

                کسی بزرگ کا مرید ذکر و شغل کرتے کرتے بہت ترقی کر گیا اور پیر سے بڑھ گیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بزرگ کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے ولایت سے گر گئے، تمام مرید بھاگ گئے۔ اس مرید نے جو ترقی کر گیا تھا پہلے سے بھی زیادہ خدمت و تواضع شروع کر دی۔ ان بزرگ نے پوچھا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں ولایت سے گر گیا ہوں پھر تو کیوں میری خدمت کرتا ہے۔ اس نے کہا مجھے یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن دو باتیں ہیں جنہوں نے مجھے مجبور کر رکھا ہے۔ ایک تو یہ کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ آپ کی توبہ قبول کر کے پھر وہی مقام عطا کر دے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو احسان آپ نے مجھ پر کیا ہے اور مجھے اللہ کے نزدیک پہنچا دیا ہے ابھی اس احسان کا بدلہ مجھ سے ادا نہیں ہو سکا۔ میں اس ایک ہی احسان کا شکریہ ادا کرنے کے واسطے یہ خدمت کر رہا ہوں مگر شکریہ پورا ادا ہوتا نظر نہیں آتا اور مجھے اس ظاہری خدمت پر ہی اکتفا نہیں بلکہ میں ہر وقت دعا کرتا ہوں کہ خداوند میرے پیر کی مغفرت فرما کر وہی مقام عطا فرما دے اور اس سے بھی زیادہ ترقی عطا فرما۔ چنانچہ اس مرید کی دعا سے ان بزرگ کو وہی مقام عطا ہو گیا۔

                مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندے روحانی دنیا میں دلوں کے جاسوس ہوتے ہیں۔ جب کسی کے دل میں اولیائے کرام کے متعلق کوئی شک و شبہ گزرے تو یاد رکھو کہ اولیائے کرام پر دلوں کی باتیں بھی کھل جاتی ہیں۔ اولیاء کا فرمان ہے کہ جب تم اولیائے کرام کے پاس جا ؤ تو دل میں کوئی بری بات نہ رکھو کیونکہ ان کو تمہاری ایسی باتوں کو خبر ہوتی ہے۔

                ایک مرتبہ مولانا نعمت اللہ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت غوث الاعظمؒ سے جو عقیدت و محبت ہم لوگوں کے دل میں ہے اس کی خبر نہ جانے پیران پیرؒ کو ہو گی یا نہیں۔ مولانا نے اس بات کا ذکر حضرت شاہ ابوالمعالیؒ سے کیا۔ آپ نے فرمایا:‘‘نعمت اللہ! آج رات خواب میں اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے وہم کو جواب دے گا۔’’ چنانچہ خواب میں نعمت اللہ نے دیکھا کہ وہ کسی کام میں مصروف ہیں اور ننگے سر ہیں حضرت غوث الاعظمؒ اس جگہ تشریف لاتے ہیں اور سفید دستار ان کے سر پر رکھ کر فرماتے ہیں کہ نعمت اللہ! ہم تمہارے کسی حال سے بھی بے خبر نہیں۔’’

                جب ملاں نعمت اللہ بیدار ہوئے تو اپنا خواب سنانے حضرت شاہ ابوالمعالیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا خواب سنایا۔ حضرت شاہ ابوالمعالیؒ نے کہا۔ ‘‘نعمت اللہ یہاں ٹھہرو۔’’ پھر اندر سے ایک دستار منگوائی اور نعمت اللہ کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا۔‘‘یہ وہی دستار تھی جو تمہیں حضرت پیران پیرؒ نے عنایت فرمائی تھی۔’’

                ملاں نعمت اللہ حیران ہو گئے اور پوچھا۔‘‘حضرت! یہ کیا قصہ ہے یہ دستار آپ کے پاس کس طرح پہنچی؟’’

                آپ نے فرمایا۔ ‘‘اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور رحمت اپنے بندے پر نازل کرتا ہے مگر بندے کو شکر گزاری اور حق بندگی ادا کرنا نہیں آتا۔ اگر بندے کو شکر گزاری کرنی آ جائے تو وہ کامل بندہ بن جائے۔’’

                ملاں نعمت اللہ اسی وقت سجدے میں گر گئے اور کافی دیر تک زار و قطار روتے رہے۔

                حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے ایک مرید حضرت محی الدین کاشانیؒ تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے آپ کو ایک چادر عطا کی تھی۔ اس چادر سے ہر وقت خوشبو آتی رہتی تھی۔ حضرت محی الدین کاشانیؒ اس نیت سے اسے دھوتے ہی نہ تھے کہ کہیں خوشبو نہ نکل جائے۔ چادر کافی گندی ہو گئی تھی آخر ایک دن اس کو دھو لیا۔ جب چادر سوکھ گئی تو اس میں سے پہلے سے بھی زیادہ خوشبو آنے لگی آپ حیران رہ گئے۔ آپ نے یہ بات حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو بتائی۔ آپ نے فرمایا کہ ‘‘بوئے دوست ہے دھونے سے نہیں جاتی۔’’ مرشد کے تحفے سے بھی مرشد کی طرح محبت رکھنی چاہئے۔

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی