Topics

علم کی طرزیں


                علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو رسولوں کو عطا کیا جاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو انبیاء کرام کو عطا کیا جاتا ہے۔ ایک بندہ وہ ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق نوع انسانی کو راہ راست پر لانے کی ناصرف جدوجہد کرتا ہے بلکہ اپنی زندگی کا ایثار کرتا ہے بڑی بڑی تکالیف برداشت کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ نوع انسانی میں اچھائی برائی کے تصور کو عام کر دے اور ان راستوں سے دور لے جائے جو راستے بندے اور اللہ کے درمیان پردہ بنتے ہیں۔

                دوسرے بندے کی یہ شان ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں پہلے اللہ کی مشیئت دیکھتا ہے اور مشیئت میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر بلا چوں و چرا عمل کرتا ہے۔ اس کے سامنے نہ اچھا ہوتا ہے نہ برا وہ صرف اور صرف یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتے ہیں اس میں اس کی اپنی مرضی شامل نہیں ہوتی وہ ہر حال میں راضی بالرضا رہتا ہے۔ اس کی سوچ کبھی اس طرف نہیں جاتی کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کیوں چاہتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور بندہ اس پر عمل درآمد کرتا ہے۔

                میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ جب ہم علم کی ہیئت، اصلیت اور حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے پاس یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔ جب تک ہمیں کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ چیز ہمارے لئے معدوم کی حیثیت رکھتی ہے۔

                جاننے کی تین طرزیں ہیں۔ ایک جاننا یہ ہے کہ ہمیں کسی چیز کی اطلاع فراہم کی جائے اور ہم اس اطلاع کو یقین کے درجے میں قبول کر لیں۔ علم کی دوسری قسم یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور علم کی تیسری قسم یہ ہے کہ ہم دیکھی ہوئی چیز کے اندر صفات کو نہ صرف یہ کہ محسوس کر لیں بلکہ اس کا باطنی آنکھ سے مشاہدہ بھی کر لیں۔

                اس علم کو روحانی سائنس دان نے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے:

                ۱)            علم الیقین

                ۲)           عین الیقین

                ۳)           حق الیقین

                علم الیقین یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اطلاع ملی کہ سائنسدانوں نے ایک ایسا ایٹم بم ایجاد کیا ہے جو ایک لمحہ میں لاکھوں جانیں ہلاک کر سکتا ہے۔ حالانکہ ہم نے ایٹم بم دیکھا نہیں ہے لیکن ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ایٹم بم موجود ہے۔ علم کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اطلاع ملی کہ ایک ایسی مشین ایجاد ہوئی ہے کہ ہزاروں میل دور تصویریں اس مشین کی مدد سے اسکرین پر نمودار ہو کر نظر آتی ہیں۔ چونکہ ہم ہزاروں میل کے فاصلے سے چلی ہوئی تصویریں ٹی وی اسکرین پر منعکس دیکھ لیتے ہیں لہٰذا اس علم کا نام عین الیقین ہو گا۔ ہمیں یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ کائنات کی بنیاد اور کائنات کی بساط میں جو کچھ موجود ہے وہ دراصل روشنیوں سے بنا ہوا ہے۔ چونکہ وہ روشنیاں ہمارے سامنے نہیں ہیں اور نہ ہی ان روشنیوں کی ماہیئت سے ہم واقف ہیں اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ ہمیں حق الیقین حاصل نہیں ہے۔ اسے ہم مختصر طریقے سے اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کسی نے کہا آگ جل رہی ہے۔ ہم نے اس کے کہنے پر یقین کر لیا کہ وہاں آگ ہے۔ اسے ہم علم الیقین کہیں گے۔ جب ہم آگ کے قریب گئے اور اسے دیکھ لیا تو ہمیں عین الیقین حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نے آگ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تپش محسوس ہوئی۔ اس تجربے کا نام حق الیقین ہے۔

                روحانی سائنسدان جب کسی علم کا تذکرہ کرتا ہے یا کائنات میں موجود کسی شئے کا تجزیہ کرتا ہے تو اس کے سامنے علم کے یہ تینوں درجے ہوتے ہیں۔ روحانی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کو اگر کوئی چیز دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہے تو وہ علم ہے، ایسا علم جو اللہ تعالیٰ نے آدم کے لئے مخصوص کر دیا ہے اور کسی دوسری نوع کو یہ علم عطا نہیں کیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے آدم کی نیابت اور علوم کا تذکرہ کیا ہے اس آیت میں تفکر کرنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علوم فرشتوں کو بھی حاصل ہیں اور علوم آدم کو بھی حاصل ہیں۔ لیکن آدم کو وہ مخصوص علوم حاصل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرشتوخ کو بھی نہیں سکھائے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم پاکی بیان کرتے ہیں اور ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم آپ نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کا شرف دراصل اس کا علم ہے اور یہ وہ علم ہے جو دوسری مخلوقات کو حاصل نہیں ہے۔

                ایک چڑیا زندگی گزارنے کے سارے تقاضے رکھتی ہے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کے علم سے بھی باخبر ہے لیکن وہ ہوائی جہاز نہیں بنا سکتی، ایٹم بم نہیں بنا سکتی، ریڈیو یا ٹی وی نہیں ایجاد کر سکتی اور آدمی یہ تمام چیزیں بنا لیتا ہے اور اس کے علاوہ نئی نئی اختراعات کرتا رہتا ہے۔ اس علم کو ہم وہ علم نہیں کہتے جو علم اللہ تعالیٰ نے بطور خاص آدم کے لئے مخصوص کیا ہے۔ اس لئے کہ اس علم کا تعلق عقل سے ہے یا باالفاظ دیگر عقل نئی نئی ایجادات کرتی ہے۔ جس طرح ایک آدمی ٹی وی بنا لیتا ہے اور چڑیا ٹی وی نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح چڑیا آسمان کی وسعتوں میں اڑتی ہے جب کہ آدمی اڑ نہیں سکتا۔ آدم زاد میں بھی سب لوگ ایسے عاقل ، بالغ اور باشعور نہیں ہوتے جن سے ایجادات ظہور میں آتی ہوں۔ عقل کی کمی یا زیادتی کی بنیاد پر اختراعات کا وجود قائم ہے۔ لیکن ایک علم ایسا ہے جو عقل کی حدود اور دائرے سے باہر ہے مثلاً یہ کہ ایک بندہ چڑیا کی طرح اڑ سکتا ہے۔ اولیائے کرام کے ایسے بیشمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ انہوں نے فضا میں پرواز کی ہے۔ ہزاروں میل دور کی چیز کو بغیر کسی دوربین کے دیکھ لیا ہے، لاکھوں سال پہلے کی آوازوں کو سنا ہے، سمجھا ہے اور یہ سب کچھ ظاہری وسائل کے بغیر ہوتا ہے۔ عقل سے جو علم سیکھا جاتا ہے اس کا نام علم حصولی ہے اور جو علم وجدان سے حاصل ہوتا ہے اس کا نام علم حضوری ہے۔

                گویا علم کی دو طرزیں متعین ہیں۔ ایک طرز علم حضوری ہے اور علم کی دوسری طرز کو روحانی سائنس میں اکتساب کہتے ہیں یعنی ایسا علم جو عقل کے استعمال سے سیکھ لیا جائے۔ جتنا زیادہ عقل کا استعمال ہو گا اسی مناسبت سے اس علم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ علم حصولی ایک ایسا علم ہے کہ آدمی اپنی کوشش، محنت، جدوجہد اور صلاحیتوں کے مطابق ظاہر اسباب میں رہ کر کوئی علم سیکھے اور اس علم میں مادی وسائل بروئے کار آئیں۔ اکتسابی علوم آدمی کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اور عقل کے استعمال کے ذریعے بتدریج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی جس علم میں جتنی زیادہ عقل استعمال کی جائے اسی مناسبت سے وہ علم اس بندے کے لئے روشنی بنتا چلا جائے گا۔ بات اس میں عقل کے استعمال کی ہے۔ عقل بندر میں بھی ہوتی ہے عقل انسان میں بھی ہے۔ بندر کی عقل کے مطابق اسے علوم سکھائے جائیں تو وہ بھی سیکھ لیتا ہے۔ انسان کی عقل کے مطابق اس کو جتنے علوم سکھائے جائیں وہ بھی سیکھ لیتا ہے۔ ایک آدمی لوہار بننا چاہتا ہے اس کے سامنے تین چیزیں ہیں ایک لوہا، دوسری وہ صلاحیت جو لوہے کو مختلف شکلوں میں ڈھالتی ہے اور تیسری صلاحیت کا استعمال۔ اب وہ صلاحیت کو استعمال کرتا ہے تو صلاحیت کے مطابق لوہے سے بیشمار چیزیں بنتی چلی جاتی ہیں۔

                کسی علم کو سیکھنے کے لئے Common Factorنیت ہے یعنی وہ علم کس لئے سیکھا جا رہا ہے۔ اس علم کی بدولت جو چیزیں تخلیق پا رہی ہیں ان چیزوں میں تخریب کا پہلو نمایاں ہے یا اس کے اندر تعمیر پنہاں ہے۔ لوہا ایک دھات ہے، لوہے کو مختلف چیزوں میں ڈھال دینا ایک صلاحیت ہے لیکن یہ چیزیں کس مقصد اور کس کام کے لئے بنائی گئیں ہیں یہ بات تعمیری یا تخریبی پہلو ظاہر کرتی ہے۔ لوہے سے ایسی چیزیں بھی بنتی ہیں جن کے اوپر انسان کی فلاح و بہبود کا دارومدار ہے مثلاً چمٹا، پھونکنی، توا، ریل کے پہیے، ریل کے ڈبے، ہوئی جہاز اور دوسری بیشمار چیزیں اگر نیت میں تخریب ہے تو یہی لوہا راکٹ اور بم وغیرہ میں تبدیل ہو کر نوع انسانی کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

                علم حصولی ایک ایسا علم ہے جو وسائل کے یقین کے ساتھ سکھایا جاتا ہے۔ وسائل ہوں گے تو یہ علم سیکھا جا سکتا ہے وسائل نہیں ہوں گے تو یہ علم سیکھا نہیں جا سکتا۔ قلم ہو گا تو تحریر کاغذ پر منتقل ہو گی قلم نہیں ہو گا تو تحریر کاغذ پر منتقل نہیں ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ قلم وسیلہ ہے اس بات کے لئے کہ تحریر کاغذ پر منتقل کیا جائے۔ علم حصولی کے لئے وسائل کے ساتھ ساتھ استاد کی ضرورت بھی پیش آتی ہے ۔ ایسا استاد جو گوشت پوست سے مرکب ہو اور جو زمان و مکان میں بند جسمانی خدوخال کے ساتھ شاگرد کے سامنے ہو نیز استاد یہ بتانے کے لئے موجود ہو کہ قلم اس طرح پکڑا جاتا ہے اور قلم سے الف ب ت اس طرح لکھی جاتی ہے۔

                علم حضوری وہ علم ہے جو ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب کی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی حیثیت براہ راست ایک طلاع کی ہے یعنی علم حضوری سیکھنے والے بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آ جاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آنے سے مراد یہ ہے کہ حافظے کے اوپر ایک نقش ابھرتا ہے مثلاً اگر علم حضوری سکھانے والا کوئی استاد کبوتر کہتا ہے تو حافظے کی سطح پر یا ذہن کی اسکرین پر کبوتر کا ایک خاکہ سا بنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے اندر فی الواقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب استاد کسی سیارے یا ستارے کا تذکرہ کرتا ہے تو حافظے کی سکرین پر روشن اور دہکتا ہوا ستارہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد جب جنت کا تذکرہ کرتا ہے تو جنت سے متعلق ایک فلم دماغ کے اندر ڈسپلے ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ذہن کے اندر یہ بات ہمیں نقش نظر آتی ہے کہ جنت ایک ایسا باغ ہے جس میں خوبصورت پھول ہیں، آبشاریں ہیں، دودھ کی طرح سفید پانی کی نہریں ہیں اور وہاں ایسے خوبصورت مناظر ہیں جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔

                علم حضوری ایک ایسا علم ہے جو مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس علم کو سیکھنے کے لئے کاغذ، قلم، دوات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جس طرح حصولی علم کو سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح حضوری علم سیکھنے کے لئے روحانی استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ علم ٹائم اور اسپیس کی حدود سے باہر ہے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ استاد مادی خدوخال اور دوسرے مادی وسائل کے ساتھ بھی شاگرد کے سامنے موجود ہو۔ علم کے طالب کو شاگرد کہا جاتا ہے اور علم سکھانے والے کو استاد کا نام دیا جاتا ہے۔ علم حضوری سیکھنے والے طالب علم کا اصطلاحی نام مرید ہے اور علم حضوری سکھانے والے کا اصطلاحی نام مراد ہے۔

                علم حصولی میں استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ طالب علم کو صلاحیتوں کا استعمال سکھا دے۔ ایک آدمی تصویر بنانا چاہتا ہے یا تصویر بنانے کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ شاگرد کو یہ بتا دے کہ تصویر اس طرح بنتی ہے کہ اگر گراف کے اتنے خانے کاٹ دیئے جائیں تو ناک بن جائے گی، گراف کے اتنے خانوں پر پینسل پھیر دی جائے تو کان بن جائے گا۔ گراف کے اندر اتنی تعداد میں خانے کاٹ دیئے جائیں تو آنکھیں بن جائیں گی۔ پینسل کو اس زاویے سے گھما دیا جائے تو چہرہ بن جائے گا۔ طالب علم استاد کے بتائے ہوئے اس طریقے پر عمل کرتا ہے تو وہ تصویر بنا لیتا ہے۔ لیکن تصویر اس کی اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہوتی ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا تھا کہ اس نے تصویر بنانے کا قاعدہ سمجھا دیا۔ جتنی مشق کی جاتی ہے اسی مناسبت سے تصویر کے خدوخال بہتر اور خوبصورت ہوتے جاتے ہیں۔

                اس کے متضاد علم حضوری میں مراد مرید کے اندر اپنی صلاحیتیں منتقل کر دیتا ہے۔ مرید جب تصویر کشی کرے گا تو اس تصویر میں مراد کی صلاحیت کا عکس نمایاں ہو گا۔ صلاحیتوں کا منتقل کرنا مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ صلاحیتوں کو قبول کرنے کے لئے مراد کی طرز فکر اپنے اندر منتقل کرنے کے لئے صرف اور صرف ایک بات کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ مرید خود کو اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ مراد کے سپرد کر دے اور اپنی ذات کی اس طرح نفی کر دے کہ اس کے اندر بجز مراد کے کوئی نظر نہ آئے۔ جیسے جیسے یہ طرز مرید کے اندر مستحکم ہوتی رہتی ہے اسی مناسبت سے مراد کی طرز فکر مرید کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہے۔

                آدمی کے اندر دماغ دراصل ایک اسکرین ہے بالکل ٹی وی کی طرح۔ کہیں سے کوئی چیز نشر ہوتی ہے ہزاروں میل کے فاصلے سے تصویر ٹی وی اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہے وہ تصویر ہلتی بھی ہے وہ تصویر بولتی بھی ہے وہ تصویر ہنستی بھی ہے وہ تصویر روتی بھی ہے حالانکہ یہ علم حصولی ہے کہ لوگوں نے وسائل کو کام میں لا کر اتنی زیادہ کوششیں کیں کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے انہوں نے آدمی کو لہروں میں تبدیل کر کے دور دراز علاقوں میں منتقل کر دیا۔ یہی نہیں کہ ایک تصویر صرف ایک جگہ نظر آئے بلکہ ٹی وی اسٹیشن سے نکلی ہوئی ایک تصویر ہزاروں لاکھوں جگہ بیک وقت نظر آتی ہے۔

                اسی طرح جب کوئی مراد اپنے مرید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے اندر ٹائم اور اسپیس کو حذف کرنے والی صلاحیتیں مرید کے دماغ کی اسکرین پر منتقل ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے یہ صلاحیتیں منتقل اور متحرک ہوتی رہتی ہیں مرید کے اندر ذہنی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مرید کی طرز فکر مراد کی طرز فکر بن جاتی ہے۔ مراد کی صلاحیتیں مرید کی صلاحیتیں بن جاتی ہیں اور جب یہ عمل اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو مراد اور مرید ایک ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ دونوں کی گفتگو ایک ہو جاتی ہے، دونوں کی شکل و صورت ایک ہو جاتی ہے، دونوں کا طرز کلام ایک ہو جاتا ہے، ایسے بیشمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ مراد کے سر میں درد ہوا تو مرید نے بھی اسی طرح درد کی کسک محسوس کی اور پٹی باندھ لی۔ مراد کو بخار ہوا تو مرید بھی بخار میں تپنے لگا جب کہ مرید اور مراد دونوں کے درمیان فاصلہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تھا۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا دونوں ایک ہی وقت بخار میں مبتلا ہوئے۔ اگر مرید کے اندر جذبۂ صادق ہے اور مراد سے عشق کے درجے میں محبت کرتا ہے، اپنی ذات کی نفی کر کے سب کچھ مراد کو سمجھتا ہے تو پھر دوری ختم ہو جاتی ہے اور مرید ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی اپنے مراد اور پیر و مرشد سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔

                ایسا صرف علم حضوری ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ یہ علم منتقل ہوتا ہے سکھایا نہیں جاتا۔ علم حضوری اور علم حصولی میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مرید یا شاگرد دونوں طریقوں سے یہ علم سیکھتا ہے مگر علم حصولی میں مرید یا شاگرد کو اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جب کہ علم حضوری میں مراد اپنی صلاحیتیں مرید کی روح کے اندر انڈیل دیتا ہے۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی