Topics

روحانی لوگوں کو بے جا تنگ کرنا


                تذکرہ غوثیہ میں حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ سید احمد حسن عرف سید احمد علی چار ٹکے لے کر حال کھیلا کرتے تھے۔ کوئی ہنسی کرے یا برا کہے اس کی کچھ پرواہ نہ تھی۔ اکثر شادیوں میں ان کے حال کا تماشا بھی مروج ہو معمول ہو گیا تھا۔ ایک دن کسی امیر لڑکی کی شادی تھی۔ حضرت کو چار ٹکے دے کر بلایا۔ حسب عادت مجلس قوالی میں حال آیا، تماشائی تمسخر سے پیش آئے اتفاقاً نوشاہ نے بھی دست گستاخی دراز کیا اور شکم مبارک میں انگلی ماری وہ اور لوگوں سے تو یوں خطاب کرتے تھے۔ ‘‘ابے کیوں چھیڑتا ہے، کیا کرتا ہے’’ لیکن نوشاہ کو کہا۔ ابے کیوں لونڈیوں کے سے کام کرتا ہے یہ کہنا تھا کہ تمام آثار عورتوں کے نمودار ہو گئے۔

                لڑکا گھبرا کر اپنی ماں کے پاس گیا اور حقیقت حال سنائی وہ بھی حرت زدہ ہو گئی۔ فوراً اس کے باپ کو خبر کی، امیر اور اس کے صلاح کار و مشیر آپ کے بڑے بھائی صاحب کی خدمت میں آئے۔ کیفیت واقعہ عرض کی وہ بھی متعجب ہوئے کہ ہم تو ان کو ایسا نہیں جانتے تھے۔ پھر مع ان سب آدمیوں کے ان کے پاس گئے، دیکھ کر بولے کہ بھائی صاحب خیر ہے یہ مجمع کیسا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بھائی یہ سب تمہاری خوبیاں ہیں۔ آج تم نے کیا کہہ دیا بولے کہ حضرت اس وقت نہ تو زبان میری ہوتی ہے نہ میرے اختیار میں ہوتی ہے۔ پوچھا کہ اب کیا علاج، جواب دیا کہ خیر قہر درویش پر جان درویش یہ لوگ پھر مجلس منعقد کروائیں اور یاروں کے چار ٹکے دلوائیں اگر اس وقت حال وارد ہو اور لڑکا پھر اس طرح چھیڑے تو دیکھئے زبان سے کیا نکالتا ہے۔ الحاصل پھر وہی سامان کیا گیا۔ حال وارد ہوا اور لڑنے نے چھیڑنا شروع کیا تو آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ اے لونڈے کیا کرتا ہے یہ کہنا ہی تھا کہ وہ اصلی حالت پر آ گیا۔

                حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ جب ہم پٹیالہ میں فضل امام صاحب سے پڑھتے تھے تب بھی فقیروں کی تلاش و طلب رہتی تھی اور ہمارا ایک اہم سبق بھی اس مرض میں مبتلا تھا۔ سنا کہ راجہ کے فیض خانے میں ایک سالک مجذوب رہتے ہیں جعفر شاہ ان کا نام ہے۔ ہم جس وقت سبق سے فراغت پاتے ان کی خدمت میں جاتے یونہی کئی دن گزر گئے۔ ایک دن ہمارے ہم سبق نے ان سے کہا کہ آج تو سلطان الاذکار کی اجازت دے دیجئے۔ اس وقت جذب کی حالت تھی تین بار ران پر ہاتھ مارا اور کہا کہ جا ؤ اجازت ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس طالب علم کے بدن میں اثر ظاہر ہونے لگا پہلے تو کچھ لرزہ سا محسوس ہوا پھر وہ نفحۂ صور کی طرح بڑھتا گیا۔ تمام جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ہم سے کہا کہ دیکھو مولوی صاحب کو اس بات کی خبر نہ ہونے پائے۔ اثنائے راہ میں منہ سے خون ٹپکنے لگا بمشکل اس کو مکان پر لائے۔ مولوی صاحب کو خبر ہوئی حکیم صاحب کو بلوایا کہا۔ اس کے قلب پر صدمہ پہنچا ہے اور حرارت شدید ہے۔ قرابہ کے قرابہ گلاب و کیوڑے پلا دیئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔

                ہر رگ و پے سے ایک آواز نکلنے لگی گھنٹے بھر کے بعد دونوں کی شہ رگیں پھٹ گئیں اور وہ جاں بحق ہوئے مگر خون اور آواز و لرزہ بند نہ ہوا۔ مولوی صاحب نے ہم سے پوچھا کہ اصل ماجرا کیاہے۔ ہم نے سارا حال کہہ سنایا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ میاں پہلے سے کیوں نہ کہا خیر اب کیا ہوتا ہے منظور خدا یہی تھا۔ نہلا دھلا کر کفن پہنا جنازہ جعفر شاہ کے سامنے لے گئے اور مولوی صاحب نے کہا میاں صاحب یہ کیا کیا۔ بولے میں کیا کروں۔ تمہارے یہ دو منڈے روز آن کر مجھ کو ستاتے تھے۔ آج میری زبان سے بھی ایک بات نکل گئی۔ اب لے جا ؤ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت یہ خون کا بہنا اور بدن کا ہلنا تو بند ہو جائے۔ فرمایا کہ یہ تو قیامت تک یونہی رہے گا ایسے شہیدوں کا کہیں خون بند ہوتا ہے۔ آخر لے جا کر دفن کر دیا۔ مولوی صاحب پھر جعفر صاحب کے پاس آئے اور ہماری طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس لڑکے کو کہیں نہ مار ڈالنا۔ بولے میں کیا کروں یہ روز آن کر چھیڑتے ہیں۔ ان کو منع کرو۔ گو یہ واقعہ روبرو گزرا اور مولوی صاحب نے بھی منع فرمایا مگر ہم نے بھی ان کے پاس جانا نہ چھوڑا۔ وہ بھی ہمیشہ التفات فرماتے رہے۔ ایک بار حضرت قبلہ غلام علی شاہ صاحب کے خلیفہ آ گئے۔ ہم نے پوچھا کہ یہاں کوئی کامل فقیر بھی ہے۔ ہم نے کہا کہ ہاں چلئے ہم ان کو جعفرشاہ صاحب کے پاس لے گئے اور کہا لو حضرت آج ایک اور شکار لایا ہوں۔ فرمایا کہ اچھا بیٹھ جا ؤ باتیں ہونے لگیں۔ خلیفہ صاحب بولے کہ حضرت میرے لطائف جاری نہیں ہوتے۔ آپ نے کہا کہ نہیں ہوتے یہ کہہ کر اپنے ہاتھ کو چکر دینا شروع کیا اور کہنے لگے چل بے چل بے چل یہ کہنا تھا کہ خلیفی جی قلب کو پکڑکر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ ہم نے کہا کہیں ان کو بھی مار ڈالو گے۔ بولے کہ خوب ہوا جو تم نے یاد دلا دیا۔ خیر آئندہ یوں مناسب ہے کہ ہمیشہ چپ چاپ ہمارے سامنے آ کر بیٹھ جایا کرو۔ خواہ ہم تمہاری جانب متوجہ ہوں یا نہ ہوں۔ غرض ان خلیفہ صاحب کو تعلیم فرما کر رخصت کیا لیکن نقشبندیوں کے کام کے تو وہ رہے نہیں جنگل باشی ہو گئے۔

                ان واقعات میں بتایا گیا ہے کہ فقیروں کو تنگ نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر وہ حالتِ جذب میں ہوں تو پتہ نہیں کیا کہہ دیں۔ ایسے بندوں کا کہا ہوا قانون بن جاتا ہے اور وہ بات پوری ہوتی ہے۔ اس لئے بندہ فقیروں کے پاس جائے ضرور لیکن ادب و احترام سے ان کے پاس بیٹھے۔ اگر وہ خود دریافت کریں تو جواب دے اور ان سے کوئی ذکر یا فقیری طلب نہیں کرنی چاہئے۔ یہ چیزیں اس طرح نہیں ملتیں کہ فقیری مانگی اور اسی وقت مل گئی۔ روحانیت بھی ایک مکمل کورس ہے بالکل اسی طرح جس طرح دنیاوی تعلیم کا کورس ہوتا ہے اور بندہ مرشد کامل کی رہنمائی میں آہستہ آہستہ ان اسباق کی تکمیل کرتا ہے۔

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی