Topics

مخلوق خدا کی خدمت:


                پانی، ہوا، دھوپ، زمین، چاندنی، درخت وغیرہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی براہ راست تخلیقات ہیں اور اگر یہ انسانی زندگی کو FEEDنہ کریں تو زندگی کا وجود ختم ہو جائے۔ ان تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ان تمام تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا مقصد اور منشاء یہ ہے کہ نوع انسانی کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ایسا فائدہ ایسی خدمت جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کوئی غرض، کوئی مقصد، کوئی لین دین، کوئی لالچ اور کوئی کاروبار نہیں رکھتا۔ یہ زمین اللہ تعالیٰ کا دسترخوان ہے جس پر اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو رزق اور زندگی گزارنے کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ مخلوق کی بغیر صلہ و ستائش اور کسی غرض کے خدمت کرتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے اللہ تعالیٰ انہیں بھی دیتا ہے انہیں بھی زندگی اور زندگی گزارنے کے تمام وسائل فراہم کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ انہوں نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اتنے وسائل فراہم کر دیئے کہ فی الواقع اس کا شمار بھی ممکن نہیں۔

                تمام انبیاء اور اولیاء کرام کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے نوع انسانی کی جو بھی خدمت کی اس خدمت کے پیچھے ان کا اپنا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا اور اگر کسی بندے کا ذاتی فائدہ ہو تو وہ ہرگز ہرگز اولیاء اللہ کی صف کا بندہ نہیں ہے۔ کوئی شخص اپنی کوشش اپنی ریاضت سے اپنے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار کر کے خرق عادت کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اگر اس کی طرز فکر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرز فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو یہ تصوف نہیں ہے۔

                میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتا ہے تو اس کو لامحالہ نماز پڑھنی پڑے گی اگر کسی شرابی سے دوستی کا کوئی خواہش مند ہے تو اس کو اس کی محفل میں بیٹھنا پڑے گا۔ گویا کسی بھی شخص سے دوستی کرنے کے لئے اس کی طرز فکر کا اپنانا ضروری ہے۔ اسی طرح جب ایک سالک اللہ تعالیٰ کی ذات کے عرفان کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے و اسے اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ مخلوق کی بلا صلہ و ستائش خدمت کرتا ہے گویا جب تک کسی بندے کے اندر مخلوق خدا کی خدمت کی خواہش پیدا نہیں ہوتی وہ اللہ تعالیٰ سے قریب نہیں ہو سکتا۔

                آپ مزید فرماتے ہیں کہ اگر آپ کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو وہ تمام مشاغل اپنا لیں جو اللہ والوں کے لئے پسندیدہ اور مرغوب ہیں۔ جس مناسبت سے ان مشاغل کو یا ان عادات کو اختیار کرتے چلے جائیں گے اس مناسبت سے آپ کی طرز فکر بدلتی چلی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں اور اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں چاہتے ہیں۔ بندہ جب اختیاری طور پر اس طرز فکر کو اختیار کر لیتا ہے تو وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے کام آئے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے اور جب یہ طرز فکر گہری ہوتی ہے تو اس کا ذہن ہر آن اور ہر لمحہ اس طرف متوجہ رہتا ہے کہ میں وہ کام کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ ہے۔ بار بار اس عادت یا عمل کا اعادہ ہونے سے اس کے مشاہدات میں بے شمار واقعات ایسے آتے ہیں کہ اس کے اندر یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، جو کچھ ہو چکا ہے یا جو آئندہ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اسی تعلق کو استغناء کا نام دیا جاتا ہے۔

                حضرت لال شہباز قلندرؒ کا فرمان ہے کہ اگر انسان کے دل میں درد ہو اور وہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی تڑپ محسوس کرتا ہو تو حقیقت میں انسانیت کی یہی معراج ہے۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی