Topics

نسبت شیخ


                مراقبہ کرنے والا بندہ ایک نقطہ پر اپنے ذہن کو مرکوز کرتا ہے اور وہ نقطہ یا مرکزیت یا میڈیم تصور شیخ ہے یعنی وہ دیکھنے کی پوری صلاحیتوں کو شیخ کے تصور میں مجتمع کر دیتا ہے یعنی ایک ہی عکس تسلسل کے ساتھ دماغ کے اوپر منتقل ہوتا رہتا ہے۔

                قانون یہ ہے کہ جو عکس دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتا ہے اس عکس کے اندر موجود صلاحیتیں صفات اور خاصیتیں بھی دماغ کے اوپر منتقل ہوتی ہیں اور دماغ انہیں محسوس کرتا ہے مثلاً ایک آدمی آگ دیکھتا ہے آگ کا عکس جیسے ہی دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتا ہے آدمی کے اندر حرارت، حدت اور گرمی کی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب شیخ کی شبیہہ دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتی ہے تو شیخ کے اندر جو طرز فکر کام کر رہی ہوتی ہے یا شیخ کے اندر جو نظر کام کر رہی ہوتی ہے وہ دماغ کے اوپر منتقل ہو جاتی ہے۔

                تصور شیخ کا مقصد یہ ہے کہ شیخ یا استاد کو مرکزیت بنا کر بار بار دماغ کی اسکرین پر منتقل کیا جائے جتنا زیادہ ایک خیال یا ایک مرکزیت دماغ کی اسکرین پر منعکس ہوتی ہے اسی مناسبت سے دماغ میں ایک پیٹرن بن جاتا ہے اور وہی پیٹرن تصوف کی اصطلاح میں طرز فکر ہے۔ تصور شیخ سے شیخ کے اندر کام کرنے والی اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم بار بار ہمارے دماغ کے اوپر وارد ہوتا ہے اور جیسے جیسے شیخ کے اندر کام کرنے والی روشنیاں سالک کے اندر منتقل ہوتی ہیں اسی مناسبت سے سالک کا ذہن شیخ کی روشنیوں کو قبول کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ شیخ اور مرید کا ذہن ایک نقطے پر قائم ہو جاتا ہے۔

                اس کو تصوف کی اصطلاح میں نسبت قرار دیا گیا ہے۔ روحانیت میں نسبت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ مرشد سے قربت کا حاصل ہونا ہے۔ جوں جوں اس قربت میں اضافہ ہوتا ہے مرید میں محبت و عشق کی لہریں موجزن ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے شیخ کا ذہن منتقل ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شیخ کے اندر کام کرنے والی روشنیاں اور انوار بلکہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات بھی سالک کو حاصل ہو جاتی ہیں یا سالک ان انوار و تجلیات سے متعارف ہو جاتا ہے۔ اس صورت کا نام تصوف میں فنا فی الشیخ ہے۔ شیخ کی روشنیاں اور شیخ کے اندر کام کرنے والے انوار و تجلیات بھی شیخ کا اپنا ذاتی وصف نہیں ہے جس طرح ایک سالک نے اپنی تمام تر توجہ اور ذہنی ارتکاز کے ساتھ شیخ کے علم اور شیخ کی صفات کو اپنے اندر منتقل کیا ہے اسی طرح شیخ نے اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ حضورﷺ کے علم اور صفات کو اپنے اندر منتقل کیا ہے۔ فنا فی الشیخ کے بعد شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ صلاحیتیں سالک کے اندر بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کی بنیاد پر شیخ نے حضورﷺ کی نسبت حاصل کی ہے۔ تصوف میں اس مقام کو فنا فی الرسول کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ:

                ‘‘میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ اتنی ضرور بات ہے کہ میرے اوپر وحی آتی ہے۔’’

                بشریت کے دائرے سے باہر ہو کر دیکھا جائے تو حضور ختم المرسلینﷺ کی فضیلت یہ ہے کہ ان کے اوپر وحی نازل ہوتی ہے اور وحی خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے یعنی سیدنا حضورﷺ کے ذہن مبارک پر اللہ تعالیٰ کے علوم، اللہ تعالیٰ کے انوار اور اللہ تعالیٰ کی تجلیات منعکس ہوتی ہیں۔ فنا فی الرسول کے بعد کوئی سالک قدم بقدم محبت و عشق و گداز کے ساتھ حضورﷺ کے علوم کا عارف ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حضورﷺ کے علوم سالک کو اس کی استطاعت کے مطابق حاصل ہو جاتے ہیں۔ جتنی اسطاعت کسی سالک کے اندر موجود ہے اور جس مناسبت سے حضورﷺ کے علوم اسے منتقل ہوتے ہیں اسی مناسبت سے وہ حضورﷺ کی نسبت سے حاصل کرتا ہے۔ تصوف میں اس نسبت کو نسبت محمدی کہا جاتا ہے۔ نسبت محمدی حاصل ہونے کے بعد سالک کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور بالآخر وہ حضورﷺ کی نسبت اور ہمت کے وسیلے سے اس مقام پر جا ٹھہرتا ہے جس مقام پر اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اعتراف کیا کہ

                ‘‘آپ ہی ہمارے رب ہیں۔’’

                اس نسبت کو تصوف میں نسبت وحدت کہا جاتا ہے۔

                اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ فضل فرمائیں توہ وہ مقامات کھلتے ہیں جن کے بارے میں لکھنا یا بتانا شعوری سکت سے باہر ہے۔

                روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے گویا نسبت حاصل ہونا ضروری ہے۔ نسبت سے مراد استاد یا پیر و مرشد کی طرز فکر ہے جس سے روحانی علوم منتقل ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک باپ کی دنیاوی دولت اس کی اولاد میں تقسیم ہوتی ہے اسی طرح پیر و مرشد کے روحانی علوم اس کی روحانی اولاد کو منتقل ہوتے ہیں۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی