Topics

بیعت کی اہمیت


یک زمانہ صحبت با اولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

گر تو سنگ خارا وا مرمر بوی

چوں بصاحب دل رسی گوہر شوی

                ترجمہ:‘‘اولیاء اللہ سے چند لمحوں کی قربت سو سالہ عبادت بے ریا سے کئی درجہ بہتر ہے۔ اگر تو سخت قسم کا اور سنگ مر مر جیسا ہے جب تو کسی صاحب دل تک پہنچے ا تو قیمتی موتی بن جائے گا۔’’

                جس چیز کو ہم شعور کا نام دیتے ہیں اس کی عادت ہے کہ وہ ایک قدم کو بھول کر دوسرا قدم اٹھاتا ہے اور اسی طرح انسان کی ساری زندگی گزر جاتی ہے۔ شعور ایک ایسا Patternہے جس کا دارومدار نسیان اور بھول پر ہے اور اس کے برعکس جب ہمارا کوئی قدم لاشعور میں داخل ہوتا ہے تو ہم اسے اپنے ارادے کے تحت شعور میں لے آتے ہیں۔ شعوری زندگی انسان کو مفروضہ حواس میں گرفتار کرتی ہے۔ اس کے برعکس لاشعور انسان کو مفروضہ حواس سے دور کر کے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔ لاشعور کا دوسرا نام روح ہے۔

                اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی تو الست بربکم فرما کر اس بات کا اقرار کرایا کہ تم مخلوق ہو اور میں خالق۔ لیکن جب انسان اپنی نادانی سے شعوری حواس کو اپنے اوپر مسلط کر بیٹھا تو وہ اس وعدے کو بھول گیا اور اس نے اپنی ساری زندگی کو شعور کے اندر مقید کر دیا۔ مخلوق بشمول انسان کا یہ جواب دینا کہ ‘‘آپ ہمارے رب ہیں۔’’ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا سمجھا اور پھر اقرار کیا۔ اب اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کی ربوبیت کا تذکرہ کر رہا ہے تو یہ تذکرہ شعوری تذکرہ کہلائے گا۔

                جب کوئی بندہ کسی روحانی استاد کی شاگردی میں آتا ہے تو استاد اسے یہ بتاتا ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا ہے اسے بھول گئے ہو اور وہ اپنے شاگرد کو شعور کی بھول بھلیوں سے آزاد کرنے کے لئے ایسی طرزیں اس کے ذہن میں منتقل کرتا ہے جو اسے شعور کے قریب کر دیں اور وہ ایفائے عہد میں جدوجہد کر کے بالآخر اپنے ازلی وعدہ کو پورا کر دے۔

                اسلام میں بنیادی رکن حضورﷺ پر ایمان لانا ہے اور ایمان لانے کے بعد حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ہے۔ لیکن دنیا کا کوئی قانون اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر دیکھے شہادت متعبر ہو سکتی ہے۔ اگر ایک شخص پر قتل کا الزام ہے اور گواہ نے اسے قتل کرتے نہیں دیکھا تو اس کی گواہی معتبر نہیں ہو سکتی۔ کلمہ شہادت ہمیں بتاتا ہے کہ اگر انسان ایمان کے دائرے میں فی الواقع قدم رکھ دیتا ہے تو سیدنا حضورﷺ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور وہ برملا حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے۔

                قرآن پاک میں آتا ہے:

                ‘‘یہ کتاب ہدایت دیتی ہے ان لوگوں کو جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر اس طرح یقین رکھتے ہیں کہ غیب ان کے مشاہدے میں آ جاتا ہے۔’’

                قانون یہ ہے کہ جب تک کوئی بات مشاہدے میں نہیں آتی یقین متزلزل رہتا ہے۔ قرآن پاک میں ملائکہ، انبیاء علیہ السلام، یوم آخرت، آسمانی کتابوں کا تذکرہ بار بار آتا ہے۔ یہ تمام تذکرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انسان کے اندر کوئی ایسی آنکھ موجود ہے جو پردوں کے پیچھے دیکھ سکتی ہے اور ایسے کان بھی موجود ہیں جو ماورائی آوازیں سن کر ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھتے ہیں ایسی آنکھیں موجود ہیں جو زمان و مکان کی تمام حدبندیوں کو توڑ کر عرش پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتی ہیں۔

                ایک روحانی انسان سالکان طریقت کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ آدمی ظاہری حواس سے ہٹ کر ان حواس کا کھوج لگائے جن حواس میں لطافت ہے، نرمی ہے، رحمت ہے، محبت ہے، حلاوت ہے، نور ہے، روشنی ہے۔ جن حواس سے بندہ اپنے آقا رسولﷺ کے قدموں میں سرنگوں ہوتا ہے۔

                حضرت ابو علی دقاقؓ فرماتے ہیں کہ جب کوئی درخت بغیر اس کے کہ کسی نے اسے لگایا ہو خود بخود اُگ آیا ہو تو اس کے پتے تو نکل آئیں گے مگر یہ درخت پھل نہ دے گا۔ یہی حال مرید کا ہے کہ جب اس کا کوئی شیخ نہ ہو تو جس سے وہ اپنے لئے کوئی راستہ اخذ کرے تو یہ مرید اپنی خواہشات کی عبادت کر رہا ہو گا۔

                حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ حقیقت و ماہیت جب سمجھ میں آتی ہے کہ طالب کسی اہل اللہ سے بیعت ہو کر تصفیہ باطن حاصل کرے پھر نقل مطابق اصل خود ظاہر و عیان ہو جائے گی جب تک کہ طالب عین الیقین میں ہے۔ کیفیت حق الیقین کہاں اور جب تک کہ علم الیقین ہے تو منزل مقصود بہت ہی دور ہے۔

                حضرت غوث علی شاہؒ صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ بلاواسطہ پیر و پیغمبر کے بھی کوئی صاحب معرفت ہو سکتا ہے۔ فرمایا کہ ہاں ہو سکتا ہے لیکن شاذ و نادر اور جو کوئی ایسا ہوا ہے اس نے خدا کے سوا کسی اور کو نہیں سمجھا۔ یہ ایسی بات ہے کہ جب عطر کھینچتے ہیں تو زمین صندل کی ضرور ہوتی ہے پس انبیاء اور اولیاء زمین عطر ہیں جن کے واسطے سے عطر تیار ہوتا ہے اور اگر بغیر کسی زمین کے عطر تیار کیا جائے تو ممکن ہے مگر صد ہا پھول خراب ہوں، تب تھوڑا سا عطر نکلے گا جیسا انبیاء علیہ السلام کو کہ ہزار ہا خلقت تباہ ہوئی تو ایک رسول سر آوردہ روزگار ہوا اور یہ عطر خالص ہیں۔

                کسی نصرانی کے گلے میں ایک صلیب تھی، دیکھا تو ندارد۔ نہایت تشویش ہوئی جا بجا ڈھونڈا کہیں پتہ نہ ملا۔ ایک شخص نے اس کو پریشان حال دیکھ کر کیفیت دریافت کی کہا کہ میرے گلے میں صلیب تھی وہ گم ہو گئی ہے۔ وہ ہنسا اور کہا کہ تم ناحق تردّد میں مبتلا ہو صلیب گم نہیں ہوئی ہم تلاش کر دیں گے جب اس کو بہت اضطراب اور بیقراری ہوئی تو اس نے گردن کے پیچھے سے اٹھا کر سامنے کردی اور کہا کہ تیرے ہی گلے میں پڑی ہے۔ یہ تمام فکر و تردّد اسی وہم کا ہے جو دل میں بیٹھ گیا۔ پس ہادی و مرشد کا کام تعلیم کرنا ہے ورنہ اللہ تو ہر ایک کی ذات میں موجود ہے۔

 

پسر نوح بابدان بہ نشست

خاندان نبوتش گم شد

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالع ترا طالع کند

                ترجمہ:’’نوح کا بیٹا بروں کے ساتھ بیٹھا تو نبوت کا خاندان گم ہو گیا۔ نیکوں کی صحبت نیک بناتی ہے اور بروں کی صحبت تجھے برا بناتی ہے۔‘‘

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی