Topics
بالِ جبریل میں علامہ
اقبالؒ فرماتے ہیں:
گاہ
سجیلہ می برو گاہ بروز می کشہ
عشق
کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب
عالمِ
سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل
میں مرگِ آرزو، ہجر میں لذتِ طلب
٭٭٭٭٭
عینِ
وصال میں مجھے، حوصلہ نظر نہ تھا
گرچہ
بہانہ جو رہی، میری نگاہِ بے ادب
گرمی
آرزو فراق، شورشِ ہائے و ہُو فراق
موج
کی جستجو فراق قطرہ کی آبرو فراق
آپؒ کہتے ہیں کہ اہلِ عشق
کو کسی کام کی تکمیل میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ یہی جذبہ ذوق و شوق اور
سوز و اضطراب اسے کشاں کشاں اپنی منزل تک کسی حیلے بہانے کے ساتھ یا کشش ذوق کے
باعث کھینچ کرلے جاتا ہے۔ گرمی آرزو ہمیشہ فراق میں ہی پائی جاتی ہے اور ہائے و
ہُو میں موجود یہ گرانما یہ سوزش بھی فراق ہی کی بدولت ہوتی ہے۔ موج بھی فراق کے
باعث محو جستجو رہتی ہے اور قطرے کی آبرو بھی فراق میں ہی پائی جاتی ہے کیونکہ جب
قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے تو اپنی انفرادی حیثیت کو ختم کر دیتا ہے گو سمندر کے
ساتھ اس کا وصال اس کی موت کا باعث بنتا ہے۔
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں
کہ حضرت داتا گنج بخشؒ حضرت معین الدین چشتیؒ اور حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت
بایزید بسطامیؒ اور دوسرے بہت سے بزرگ اس لئے اعلیٰ ہیں کہ ان میں ایسی صلاحیتیں
موجود تھیں جو ہم میں نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک ان پڑھ شخص بھی کوشش کرے
تو وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کے بعد اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتا
ہے مگر اس کے لئے ذوق و طلب، تمنا، جستجو اور پر امید لگن کا پایا جانا ضروری ہے۔
علامہ اقبالؒ کا قول ہے کہ:
‘‘انسان
اپنی تکمیل کے لئے خارج کا محتاج نہیں۔’’
وہ خود اپنا مرکز اور
محور ہے اور اس دنیائے رنگ و بو کی معنویت اس کے وجود سے وابستہ ہے اور یہی اشارہ
قرآن سے بھی ملتا ہے:
و
فی انفسکم افلا تبصرون
‘‘تمہارے اندر وہ سب
نشانیاں موجود ہیں تم غور کیوں نہیں کرتے۔’’
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی