Topics

حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی نظر میں


مرشد کریم کی ضرورت و اہمیت

الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ہُو

نفی اثبات کا دا پانی ملیں ہر رگے ہر جائی ہُو

اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلاں تے آئی ہُو

جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہہ بوٹی لائی ہُو

                ان اشعار میں حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ نے اسم اللہ ذات کو چنبیلی کے خوشبودار پھول سے تشبیہہ دی ہے اور عارف کامل ہونے کی حیثیت سے اپنے من میں اسم اللہ ذات کو بسا لینے کا اظہار فرمایا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ مرشد کامل نے اس شجر معرفت (اسم ذات) کو ان کے من میں بو کر نگہبانی فرماتے ہوئے کلمہ طیبہ کی نفی اثبات کے فیوضات سے آبیاری کی اور گوہر مقصود عرفان اسم اللہ ذات نے (جو چنبے کے خوشبودارپھول کی طرح ہے) آپؒ کے دل و جان کو منور و معطر کر دیا ہے۔

                حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے وجود میں کلمہ طیبہ تاثیر کرتا ہے اور اسے نفع دینے لگ جاتا ہے تو کلمہ طیبہ دریا کی طرح اس کے ہر انگ اور ہر ریشے میں جاری ہو جاتا ہے۔ حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ خلق خدا کو عرفان الٰہی کی غذا دیا کرو تو تم سراپا رحمت و خوشبو ہو جا ؤ گے اور اپنے مرشد کامل کی عنایات اور ان سے حصول فیوضات کے ذکر کے بعد آخر میں ان کے لئے سلامتی کی آرزو بھی فرماتے ہیں۔ آپؒ آخر میں فرماتے ہیں کہ توحید کا بیج کسی زندہ دل (مرشد کامل) سے اخذ کرنے سے دل زندہ ہو جاتا ہے اور اس سے عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔

ایہ تن میرا چشماں ہوؤے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہُو

لَوں لَوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاں ہک کجاں ہُو

اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آؤے ہور کِتے ول بھجاں ہُو

مرشد دا دیدار ہے باہُو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہُو

                ان اشعار میں حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہُونے شیخ کامل سے ارادت محبت اور اس کی راہ طریقت و معرفت میں اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ (جو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے مرشد کریم تھے) فرماتے ہیں کہ پیر یا شیخ کامل سے محبت اور والہانہ عقیدت ہو گی تو طالب منزل مقصود کی امید کر سکتا ہے۔ کیونکہ محبت ہی ایک وہ خلش ہے جو فراق محبوب میں انسان کی اعانت کرتی ہے جب کہ دنیا اس کے سامنے ایک انگوٹھی کے حلقے کی طرح ہوتی ہے۔

                یہی وہ نشہ ہے جس کا کوئی اوتار نہیں اور یہی وہ بیتابی ہے جس کے لئے سکون نہیں۔ گویا مبتدی کی پہلی منزل اور طالب کے طلب کی پہلی سیڑھی محبت ہے۔ جب تک شیخ کے لئے تمام محبوبات کو قربان کرنے پر آمادہ نہ ہو جائے اور سب طرف سے آنکھیں بند کر کے اسی کا نہ ہو رہے تب تک اس کو مقام محبت حاصل نہیں ہو گا۔ عشاق نشہ محبت میں ایسے سرشار ہوتے ہیں کہ انہیں کسی طرف کا ہوش ہی نہیں رہتا اور دنیا کی کسی شئے کو محبت شیخ پر ترجیح نہیں دے سکتے۔

                حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپؒ اپنے شیخ کی خدمت میں تعلیم بقرب علی اللہ کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے اور وہیں قیام بھی رکھا کرتے تھے۔ آپؒ کے ذمے شیخ کی ظاہری خدمات میں سے ایک خدمت یہ بھی تھی کہ آدھی رات کو آگ جلائی جائے اور تہجد کے لئے پانی گرم کیا جائے۔ یعنی حضرت خواجہ طلب الدین بختیار کاکیؒ (جو آپؒ کے مرشد کریم تھے) کے اٹھنے سے قبل پانی گرم ہونا چاہئے۔ ان دنوں آگ جلانے اور محفوظ کرنے کا بڑا انتظام و اہتمام ہوا کرتا تھا اور سالہا سال اپنی ضروریات کے لئے آگ کا ذخیرہ موجود رکھا جاتا تھا۔ اتفاق سے ایک رات آگ بھج گئی۔ اور بابا فرید الدین گنج شکرؒ جو رات کو پانی گرم کرنے کے لئے اٹھے تو آگ کو بھجا ہوا دیکھ کر نہایت پریشان ہوئے اور آگ کی تلاش میں خانقاہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر آگ جل رہی ہے۔ فوراً وہاں پہنچے تو دیکھا تو ایک بڑھیا نے جلا رکھی تھی اس کے سامنے جا کر آگ مانگی تو وہ کہنے لگی۔ فرید اس آگ کی قیمت آنکھ ہے۔ آنکھ دے دو اور آگ لے جا ؤ۔ آپؒ نے جواب دیا کہ جس آنکھ کی ضرورت ہے فوراً نکال لو اور آگ دے دو کیونکہ میرے مرشد اٹھنے والے ہیں اور مجھے ان کے لئے وضو کا پانی گرم کرنا ہے۔ اس بڑھیا نے داہنی آنکھ نکال لی اور آگ دے دی۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ آگ لے آئے اور پانی گرم کر لیا۔ اور اپنے مرشد کریم کا وضو کروا کے اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ جب صبح ہو گئی تو مرشد کریم نے دوستوں میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کو یاد فرمایا اور پوچھا کہاں ہیں؟ الغرض آپؒ کو بلایا گیا۔ جب آپؒ تشریف لائے تو آنکھ پر پٹی بندھی تھی۔ مرشد کریم نے پوچھا کہ آنکھ کو کیوں باندھ رکھا ہے۔ آپؒ نے عرض کیا کہ خراب ہو گئی ہے۔ حضرت شیخؒ نے فرمایا پہلے سے سوائی ہو گئی ہے۔ کھول دو اور تمہاری نسل میں بھی یہ نشان موجود رہے گا۔ آج بھی حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی اولاد کی ایک آنکھ دوسری سے ذرا بڑی ہوتی ہے۔

                مرشد کے دیدار کی اہمیت کو ایک مقام پر خود حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ نے فرمایا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ذر غفاریؓ کیا تو کچھ اور بیان سننے کا متمنی ہے۔ عرض کیا۔ ہاں یا رسول اللہﷺ۔ فرمایا نبی کریمﷺ نے اگر کوئی ان میں سے ایک طرف نظر کرے تو وہ دیکھنا اللہ کے قریب اللہ کے دیکھنے سے زیادہ پیارا ہے اور آخر میں حضرت سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں کہ انتہائے شوق میں مرشد کامل جو کہ فنا فی الذات ہے کا دیدار میرے لئے لاکھوں کروڑوں حج کا ثواب ہے۔

ایہہ تن رب سچے دا حجرا دل کھڑیا باغ بہاراں ہُو

وچے کوزے وچے مصلے وچے سجدے دیاں تمہاراں ہُو

وشے کعبہ وچے قبلہ وچے الا اللہ پکاراں ہُو

کامل مرشد ملیا باہو اوہ آپے لئی ساراں ہُو

                ان اشعار میں حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ وجود کائنات اور ظہور آثار و صفات مختلف واحد مطلق ذات و صفات کا ظل اور عکس ہے جو عدم میں منعکس ہو رہا ہے اور میرا یہ تن سچے رب کی قیام گاہ ہے اور اس حقیقت کا مشاہدہ کر کے میرا دل باغ بہاراں بن گیا ہے۔ حضرت فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ پس میں نے چاہا کہ جانا جا ؤں اس لئے میں نے خلق کو پیدا کیا اور یہ خزانہ دل ہے۔ دل خدائے تعالیٰ کا دم خاص ہے اور حرم خاص دل کی اصل صورت ہے اور دل کی اصل صورت گوشت کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ دل کی اصل نور ہے اور یہ نور اللہ تعالیٰ کے نور کا حصہ ہے۔ حضرت علیؓ نے حضرت امام حسینؓ کو نصیحت فرماتے وقت فرمایا تھا کہ اے میرے بیٹے تیرا فکر تجھے میں تیرے لئے کافی ہے۔ اپنی شناخت اور اپنے اندر تفکر کر کہ کوئی شئے تجھ سے خارج نہیں۔ تجھ کو گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا جسم ہے حالانکہ تیرے اندر ایک بہت بڑا صبان مستور ہے اور تو دوام الکتاب ہے جس کو اپنے حرفوں سے سب کچھ جان لینا بعد از قیاس بات نہیں کیونکہ رب العزت نے انسان کے لئے ہی فرمایا ہے یعنی جو کچھ تم حاصل کرنا چاہتے ہو وہ تمہاری ذات ہی میں موجود ہے، پس تم نہیں دیکھتے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کو اور ذات کو پہچان لیا اس کو عرفان رب العزت حاصل ہو گیا۔

                ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حضورﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے بندوں کے دل میں ہیں۔

                اور آخر میں سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں کہ تلاش محبوب اور وصال محبوب در حقیقت مرشد کامل کی نظر کامل کے تصدق سے ہی آسان ہوتا ہے۔ اگر تو سخت پتھر یا سنگ مر مر بھی ہو تو جب کسی مرشد کامل سے ملے گا تو اس کی برکت سے موتی بن جائے گا۔

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی