Topics

یقین اور توکل

                              

سوال  :  روحانی قدورں میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اورتوکل کرنے کے کیا معانی ہے؟  اِس بات کی وضاحت اِس طرح فرمادیں کہ ایک عام روحانی طالب علم کی سمجھ میں آسانی سے آسکے۔

جواب  :   روحانی زندگی میں سلوک کی راہ پر چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی کھانا نہ کھائے ، پانی نہ پیئے، کپڑے نہ پہنے، اس کے دوست احباب نہ ہوں۔ یہ سب اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کو وجود بخشنے والا اس دنیا میں رونق دیکھنا چاہتا ہے ، اس دنیا کو قائم رکھنا چاہتا ہے ، وہ اس دنیا کو خوب صور ت دیکھنا چاہتا ہے، اسباب و وسائل جب تک موجود ہیں، دنیا موجود ہے، دنیا قائم ہے، دنیا میں جو وسائل پیدا کئے گیے ہیں ان کا فائدہ بہرحال انسانوں کو پہنچتا ہے اور پہنچتا رہے گا۔

                روحانیت ہمیں اس با ت کا درس دیتی ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے بندہ سب کام کرے۔ اچھا کھائے ، بہترین لباس پہنے ، چٹنی کے ساتھ مرغ بھی کھائے۔ لیکن ہرکام پر عمل کا رُخ اُس ذات کی طرف موڑ دے جس نے دنیا بنائی ہے۔ کھانا اس لیے کھائے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ کھانا کھائے ، بندے کھانانہیں کھائیں گے تو دنیا ویران ہوجائےگی۔ پانی اس لیے پیے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ پانی پیے تاکہ اللہ کا لگایا ہوا باغ یعنی دنیا سرسبز و شاداب رہے۔ آپ بیوی بچوں سے محبت کریں اس لیے کریں کہ بچوں کی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اِس طرح کریں کہ انسانی اقدار پھلیں پھولیں اور بھیڑ بکریوں سے ممتاز ایک معاشرہ قائم ہو۔ بچوں کی تربیت اس طرز پر کی جائے کہ ان کی زندگی پر اللہ محیط ہوجائے اور جب وہ سن بلوغ کو پہنچیں تو ان کی یہ طرز مستحکم ہوجائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر عمل کا رُخ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر اللہ کی طرف موڑ دیں۔

                سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد سے اس لیے پیار کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے خوش ہوجائے اور ہم اپنی اولاد سے اس لیے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہماری اولاد ہے اور اس سے ہماری نسل چلے گی ۔ اولاد سے پیار کے سلسلے میں جب آپ اپنے عمل کارُخ اپنی کی ذات کی طرف موڑ دیتے ہیں تو اولاد کی محبت میں آپ ایسے راستے اختیار کرتے ہیں جن راستوں پر چل کر آپ کے اندر قادر مطلق اللہ سے تعلق قائم نہیں ہوتا۔ اگر آپ اللہ کے لیے اولاد سے محبت کریں گے تو یہ آپ کے لیے بھی فلاح ہے اور اولاد کے لیے بھی فلاح ہے۔ لیکن دونوں صورتوں میں خواہ آپ ذاتی طور پر اولاد کو پیار کریں اور اولاد کی تربیت کریں یا اللہ کے لیے اولاد کو پیار کریں اور تربیت کریں آپ کو ہی فائدہ پہنچے گا۔

                روزمرہ زندگی میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ روزی اور رزق کا حاصل کرنا ہے۔ اس لیے کہ رزق حاصل کیے بغیر زندگی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ بات موجود ہے کہ ہماری زندگی مختلف مراحل اورمختلف زمانوں سے مزین ہے۔ زندگی کے قیام کا پہلا زمانہ یا مرحلہ ایسی بند کوٹھری ہے جس میں بظاہر نہ ہوا کا گزر ہے اور نہ ہی اِس کوٹھری میں انسان کو ارادہ اور اختیار سے کھانے پینے کی چیزیں مہیا ہوتی ہے نہ ہی اس کوٹھری میں رہتے ہوئے وہ اپنی روزی حاصل کرنے کے لیے نہ کو ئی محنت و مشقت کرتا ہے لیکن اسے روزی ملتی ہے اور روزی اس کی نشوونما بھی کرتی ہے۔ اس نشوونما کا دور نو مہینے کی زندگی پر مشتمل ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ بتدریج ایک توازن کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ نومہینے کے بعد مکمل آدمی کی شکل و صورت اختیار کرکے بچہ اس بند کوٹھری سے باہر آجاتا ہے۔ اب بھی وہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکے۔ اس کی زندگی کو نشوونما دینے کے لیے اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے اور ساتھ ہی ماں کے سینے کواس بچہ کے لیے دودھ کا چشمہ بنا ددیتا ہے۔ بچہ بغیر کسی جدو جہد کے غذا حاصل کرتا رہتا ہے اور اس کی پرورش بھی ہوتی رہتی ہے۔ بچپن سے گزر کر لڑکپن کے زمانے میں بھی اس کواپنی روزی حاصل کر نے کے لیے کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی ، اس کی ضروریات کا کفیل اللہ تعالیٰ بچے کے ماں باپ کو بنادیتے ہیں۔ بچہ لڑکپن سے نکل کر شعور کی دنیا میں داخل ہوتا ہے ، شعور کی دنیا میں یہ انقلاب برپا ہوتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ مجھے روزی حاصل کرنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ اسی تگ ودو میں اپنی پچھلی ساری زندگی کو فراموش کردیتا ہے۔ اس کے ذہن میں سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ بغیر کسی جدوجہد کے بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے رزق دیتے رہے ہیں۔ جوانی کے دور سے گز ر کر وہ بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے ۔ بڑھاپے میں بھی اس کے اعضاء اسی طرح کے ہوجاتے ہیں جس طرح بچپن میں تھے اور وہ اپنی معاش حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا لیکن جب تک زندگی ہے اللہ تعالیٰ روزی فراہم کرتے رہتے ہیں۔

                ہمارے جوانی کے دور میں یہ سوچنا کہ ہمیں رزق ہماری محنت سے ملتا ہے صحیح طرز فکر کے خلاف ہے اس لیے کہ ہماری زندگی کا تین چوتھائی بغیر محنت و مزدوری کے گزرتا ہے۔ محنت مزدوری کی کوشش اس لیے کی جانی چاہے کہ اللہ کا نظام یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کو ہر لمحہ اور ہر آن متحرک دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح اللہ نے ماں کے دل میں محبت پیدا کردی ہے اور ماں کو رزق پہچانے کا ذریعہ بنایا ہے اس طرح اللہ نے زمین کو اس بات کا پابند کردیا ہے کہ نوع انسان اور زمین کے اوپر آباد تمام مخلوق کو روزی فراہم کرے۔ آپ زمین میں بیج ڈالتے ہیں، اگر زمین بیج کی نشوونما کرنے سے انکار کردے تو دنیا ویران ہوجائے گی ، جب کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہوگی تو تمام حرکت اور تمام گردش رک جائے گی۔

                جس طرح اللہ نے ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دی اسی طرح اللہ نے زمیں کے دل میں بھی اپنی مخلوق کی محبت ڈال دی اور اسے پابند کردیا کہ وہ زمین پر آباد مخلوق کی خدمت کرے۔ اسی طرح چاند اور سورج کو بھی اللہ تعالی نے خدمت گزاری کے لیے مسخر کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر زمین اپنا ارادہ اور اختیار استعمال کرکے گہیوں کو نہ اُگائے ، سورج دھوپ یا روشنی سے گندم کو نہ پکائے تو آ پ روٹی کیسے کھائیں گے۔ روٹی پر کیا منحصر ہر چیز کی یہ ہی صورت ہے۔ جب زمین پرکوئی چیز پیدا ہی نہیں ہوگی تو کیسے زندہ رہیں گے، اس کا صاف مطلب ہے کہ آدمی کو رزق اس کی ذاتی محنت کی وجہ سے نہیں ملتا ، رزق پہلے سے موجود ہے ، اِسے رزق حاصل کرنے کیلیے صرف حرکت کرنی پڑتی ہے۔

                طرز فکر کا ایک رُخ یہ ہے کہ اگر میں محنت نہیں کرونگا تو بھوکا مر جاؤ ں گا، طرز فکر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ مجھے اس لیے حرکت کرنا چاہے کہ اللہ تعالی حرکت پسند کرتے ہیں، اس لیے ساری کائنات بجائے خود ایک حرکت ہے، کائنات کا وجود اس وقت زیر بحث آیا جب اللہ تعالیٰ کے ذہن نے حرکت کی، یعنی اللہ تعالیٰ نے کن فرمایا ، کن اللہ تعالیٰ کے ذہن کی حرکت ہے اور یہ حرکت جاری و ساری ہے۔ انسان کے اندر یہ یقین راسخ ہوجاتا ہے تو اس کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ میری ہر حرکت ، ہر عمل اللہ کے رحم و کرم پر ہے۔ وہی روزی دیتا ہے ، وہی حفاظت فرماتا ہے، وہی زندہ رکھتا ہے ، وہی آفات و بلاؤ ں سے محفوظ رکھتا ہے، و ہی خوشیا ں دیتا ہے۔ جب آدمی کا یقین ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی طرز فکر ناقص ہوجاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے سہارے تلاش کرتا ہے۔ جب کسی قوم کی طرز فکر بہت زیادہ گمراہ ہوجاتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو سہارا سمجھنے لگتی ہے تو اِیسی قومیں زمین پر بوجھ بن جاتی ہیں اور زمین انہیں رد کردیتی ہے، وہ مفلوک الحال ہوجاتی ہیں اور ان کے اوپر احساس کمتری کا عذاب مسلط ہوجاتا ہے۔ انبیاء کی طرز زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی بات آتی ہے کہ انبیاء کی طرز زندگی اور طرز فکر یہ ہے کہ ہربات ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اللہ کی ہی طرف موڑدیتے ہیں۔-

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔