Topics

ہپناٹزم اور جادو

           

سوال  :  ۱)  کیا ہپناٹز م  اور جادو کی کوئی اہمیت ہے یا یہ سب محص اوہام پرستی ہے؟

                ۲) یہ بتائیں کہ مختلف دھاتو ں،  پتھروں اور انگوٹھیوں میں نگینوں کے اندر بیماریوں کو دور کرنے اور الجھنوں کو ختم کرنے کی طاقت ہوتی ہے یا نہیں، آج کل اس سلسلہ میں اچھے خاصے پیمانے پر اشتہار بازی ہورہی ہے، کیا جواہرات مثلاً موتی ، یاقوت، نیلم وغیرہ انسان کو مال دار یا امیر بنا سکتے ہیں؟

جواب  :   ۱)  انسان کی زندگی توہمات پر مبنی ہے ،  قرآن پاک میں جگہ جگہ اس کی شہادتیں موجود ہیں،  اسکا مطلب یہ ہوا کے ہپناٹزم ، وہم پرستی کا نام ہے اور وہم پرستی بنی نوع انسانی کی زندگی کا جزو اعظم ہے۔ ہپناٹزم صرف ان کے لیے صحیح ہے جو وہم پرستی میں مبتلا ہیں، اگر کچھ لوگ وہم پرستی میں مبتلا نہیں ہیں ان کے لیے ہپناٹزم کچھ نہیں بے معنی بات ہے۔

۲) انسان کی زندگی کا انحصار وہم پرہے،  بنی نوع انسان میں 999 فی ہزار لوگ وہم پرست ہیں ،  اس کا مطلب ہے کہ انسان کی زندگی ایک مخصوص نفسیات کے گرد گھوم رہی ہے،  اگر انسان کے اپنے نفس میں نگینوں ، پتھروں اور دھاتوں کی برائی یا بھلائی قبول کرلے تو نگینے اور اس قبیل کی دوسری تمام چیزیں اس کے لیے یقینا ًمضر یا مفید ہیں۔ اگر قبو ل نہ کیا تو بے اثر ہیں۔

                علم کی دو صورتیں ہیں، ایک حصولی اور دوسری حضوری۔  اکتساب سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ حصولی ہے ،  وہ علم جو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت نائب اور خلیفہ اللہ فی الارض کے انسانوں کو ودیعت کیا ہے حضوری ہے۔  تمام علم جو اکتساب سے تعلق رکھتے ہیں ان کی بنیاد کسی نہ کسی مفروضہ پر ہے اور مفروضہ بہرحال مفروضہ ہے۔ اس میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے، علم حضوری ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کبھی تغیر نہیں ہوتا ، یہ علم کائنات پر انسان کی حاکمیت قائم کرتا ہے۔ زمین و آسمان کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب اسی علم کے تحت انسان کے لیے مسخر ہے۔  ہپناٹزم اور جادو بھی علم حصولی کے ضمن میں آتے ہیں۔ اگر انسان پر وہم اور مفروضہ غالب ہے تو یہ سب علوم اس کے اوپر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر اِسے علم حضوری حاصل ہو جائے تو یہ علوم اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

Topics


Usoloo


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔