Topics
بر گد کے دو پتے میز پر میرے سامنے پڑے ہیں۔ ظا ہر ی آنکھ کو ایک رنگ ایک جسا مت اور ایک ہی طر ح کے نقش و نگا ر نظر آتے ہیں، با لکل اسی طر ح جس طر ح چار ارب آدمیوں کے ہا تھ ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔ لیکن جب ہم ہاتھ کے اوپر ماضی و حال کی تحر یر پڑھتے ہیں تو ایک نئی دنیا کا نقشہ پیش کر تا ہے ۔آبادی کے انگو ٹھوں کی لکیریں ہمارے اوپر چا ر انفرا دی ذہن کا انکشاف کر تی ہیں او رہر انکشاف ایک دو سرے سے مختلف ہو تاہے ۔
جس طر ح ایک باپ کی اولاد مختلف رنگ و روپ اور مختلف خدو خال کی حامل ہو تی ہیں ، اسی طر ح ایک درخت کے لا کھوں پتے بھی مختلف ہو تے ہیں ۔ ہر پتے کے اندر نقش و نگار ایک دو سرے سے نہیں ملتے کسی درخت کے دو پتے سامنے رکھ کر تجر بہ کیجئے ۔
درخت بھی آپس میں با تیں کر تے ہیں ۔ اچھے یا برے کردار کے لوگوں سے متا ثر بھی ہو تے ہیں ۔ درختوں کے اوپر مدہم یا تیز مو سیقی اثر انداز ہو تی ہے اب یہ بات بھی پر دہ نہیں رہی کہ انسان کے اندر ہمہ وقت دو حواس کام کر تے ہیں ۔ حواس کی ایک طر ز زمان و مکان میں قید رکھتی ہے اور دو سری طر ز میں ہمارے اوپر سے زمان و مکان(Time & Space) کی حد بندیاں ختم ہو جا تی ہیں ۔اور انسان خلا کے اُس پار آباد دنیا ؤں کا مشاہدہ کر لیتا ہے ۔ کائنات کی ہر مخلوق میں حواس کی یہ دونوں طر زیں سرگرم عمل ہیں یعنی ہر مخلوق میں چھٹی حس موجود ہے ۔
پتے کے اندر چھٹی حس یا با طنی نگا ہ نے مجھے جب اپنے اندر تفکر کر تے دیکھا تو پتہ یوں گو یا ہو ا ۔ ’ ’اے آدم زاد ! میں نے اپنے اسلاف (درختوں )سے سنا ہے کہ آدم اشرف المخلوقا ت ہے ۔اسی قدرت کا ایک مخصوص انعام حاصل ہے ۔ا یسا انعام جس سے اللہ کی دو سری مخلوق محروم ہے اور یہ محرومی اُس کی خود ساختہ ہے ۔ ‘‘
کائنات کی تخلیق کے بعد خالق اکبر نے زمین آسمان میں تمام مخلوقات کو اپنا امین بنانا چا ہا تو اللہ تعالیٰ نے سما وی مخلوق اور ارضی مخلوق کو مخا طب کر کے فر ما یا ہے کہ ہےکو ئی جو ہماری اما نت کو اپنے نا تواں کندھوں پر اٹھائے ۔
سماوی و ارضی مخلوق نے یک زبان ہو کرعرض کیا ۔’’با ر الٰہا ! ہم بہت کمزور اور نا تواں ہیں ہم اس کے اہل نہیں ہیں ۔ لیکن آدم نے بغیر سوچے سمجھے اس امانت کو اپنے کا ند ھے پرا ٹھا لیا ۔ آج وہی آدم جو آسمانوں اور زمین میں تمام مخلوق سے معزز قرار دیا گیا ہے ۔ مصائب اورآلام میں سسک رہا ہے اور خوداپنا دشمن بن گیا ہے ۔ ‘‘
درخت جب آپس میں اس اعزاز کے با رے میں گفتگو کر تے ہیں تو آدم زاد کی اس جہا لت پر خوب ہنستے اور کہتے ہیں کہ آدم جو خود کو ہم سب سے بہت زیادہ با شعور سمجھتا ہے ۔ احمق تر ین مخلوق ہے ۔ ہمارے اسلاف آدم کے اسلاف سے زیادہ ہو شیار عقل و مند تھے کہ انہوں نے یہ جا ن لیا تھا کہ اللہ کی امانت قبول کر کے اس کی حفا ظت نہ کر نا اوراس سے فا ئدہ نہ اٹھا نا کفران نعمت ہے ۔جب کہ کفران نعمت نا شکری ہے اور ایسی قومیں جو شکر گزار نہیں ہو تیں ، صفحہ ءہستی پر بو جھ بن جا تی ہیں ۔ آسمانی بلا ئیں ان کی زندگی کو زہر یلہ کر دیتی ہیں ۔ ایسی قوتوں کی عزت نفس داغ دارہو جا تی ہے ۔ ایسی قومیں ذلت و رسوائی اور شکست کی علامت بن جا تی ہیں ۔
برگد کے پتے کی زبانی عقل و شعور کی با تیں سُن کر میں استغراق کے دریامیں ڈوب گیا زبان کو یا رانہ رہا کہ کچھ عرض حال کرے ۔ دماغی کمپو ٹر کر نے والے با رہ کھرب کل پر زے ساکت و جا مد ہوگئے ۔ آنکھوں میں رو شنی دھندلا گئی کہ فہم و فراست کا مشاہدہ کر سکے ۔
با لآخر احمقانہ سوال کر بیٹھا ۔’’کیا درختوں میں بھی اسی طرح عقل کام کر تی ہے جس طر ح آدم زاد عقل سے آراستہ ہے ؟‘‘
دونوں پتے کھدبد ہنسے ایک طنزیہ قہقہہ لگا کر بو لے ۔’’کسی چیز کا انکار اور اقرار ہی عقل و شعور کا ثبوت ہے ۔ اگر ہمارے اسلاف میں عقل نہ ہو تی تو وہ کہتے کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہیں ۔‘‘
درندگی ، خون ریزی ، قتل و غارت گری ، تعصب ، بد دیا نتی ، خود غر ضی اور حق تلفی پر مشتمل زمین کی کوکھ سے جنم لینے والی لاکھوں سال کی تا ریخ ہمیں بتا تی ہے کہ ہم انسان کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور با شعور ہیں ۔ہم یہ جانتے ہیں آدم زاد سے زیادہ پست عقل کو ئی دو سری مخلوق نہیں۔ کیا یہ اپنے اوپر ظلم اور نا دانی نہیں ہے کہ گھر میں غذا کا انبار لگا ہوا ہے اور آدمی فا قے کر رہا ہے کیا یہ جہا لت نہیں ہے کہ ساری کا ئنات آدم کے لئے مسخر کر دی گئی ہے اور آدم زاد قیدوبند کی زندگیوں میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے آدم زاد اپنی اندر کی رو شنی سے دنیا میں رو شنی پھیلا نے کے بجا ئے ساری دنیا کو اندھیر ہ کر دینا چا ہتا ہے ۔
بر گد کے درخت کے پتوں کی زبانی یہ مکالمہ سن کر آنکھیں نم ہو گئیں ۔جگر خون اور دل پاش پاش ہوگیا ۔ایک آہ نکلی اور کا نوں میں یہ آواز گو نجی :
کا ش میں درخت کا ایک پتہ ہو تا جس پر شبنم مو تی بن کر استرا حت کر تی اور پر ندے شاخوں پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر تے صبح دم پر ندوں کے یہ ترانے میری رُوح میں ایسی سر شاری پیدا کر دیتے کہ میں آسمان کی وسعتوں میں گم ہو کر اشرف المخلوقات ہو نے کا اعزازواپس لے آتا !۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔