Topics
جواب : ہر
ذی روح بقول ہمارے ہر غیر ذی روح کی تخلیق کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست ایک رشتہ
قائم ہے، ’’ نور ‘‘ جب تنزل کرکے لوح محفوظ میں آتا ہے تو صفات کا روپ دھار لیتا
ہے، یہی صفات الگ الگ خدوخال بن کے تخلیق کی درجہ بندی کرتی ہیں۔ صفات کے نزول سے تخلیق میں حواس اور زندگی کی
حرکات کا تعین ہوتا ہے، صفات دو رخ پر سفر کرتی ہیں، ایک نزولی دوسرا صعودی۔
نزولی رُخ سے مراد یہ ہے کہ تخلیق میں زمین کے حواس پیدا ہوتے ہیں اور
صعودی رُخ کا مطلب یہ ہے کہ نزول کے بعد پھر صفات یعنی پوری تخلیق واپس لوٹتی ہے
اور صفات نور میں گم ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک
میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اس طرح ارشاد کیا ہے ’’ انا اللہ واناالیہ راجعون‘‘ ہرچیز اللہ کی طر ف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ
جاتی ہے۔یہ بات محل نظر ہے کہ ہر لمحہ ازل اور ابد ہے ، نزول ازل ہے اور صعود ابد ہے،پیدائش نزول ہے
اور بچپن کا اختتام صعودہے اسی طرح جوانی نزول ہے اور جوانی ختم ہونا صعودی حالت
ہے وغیرہ وغیرہ
زیادہ ورد و ظائف سے کوئی آدمی نزولی کیفیت سے نکل
کر صعودی حالت میں چلا جاتا ہے، چونکہ دماغ اتنا طاقتور نہیں ہوتا کہ روٹین کے
خلاف صعود کو برداشت کرسکے، اس لیے دماغی توازن خراب ہونے لگتا ہے یا بالکل خراب
ہوجاتا ہے یا شدید جھٹکے لگنے سے کوئی آدمی دوروں کا مریض بن جاتا ہے۔ سائنس کی
زبان میں اس بات کو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کسی آدمی کے اندر لائن اسٹریم اعتدال
سے زیادہ ہوجاتی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔