Topics

نسبت

پیراسا ئیکالوجی  (نسبت)        

سوال   :    نسبت یاداشت کیا ہوتی ہے؟ اور روحانی تعلیمات میں یہ نسبت کیا کردار ادا کرتی ہے؟

جواب  :  اللہ تعالیٰ نے انسان کے نقطہ ذات میں چار عالموں کو یکجا کر رکھا ہے۔

 ۱عالم  نور،                ۲عالم تحت الشعور یا عالم ملائکہ مقربین،        ۳)  عالم امر،                  ۴)  عالم خلق

عالم خلق سے مراد ناسوت ہوتا ہے، یعنی جس مادی دنیا میں ہم اور آپ رہتے ہیں اسے عالم خلق بھی کہتے ہیں۔ عالم امر کی وضاحت اس طرح ہوسکتی ہے کہ ہماری کائنات اجرام سماوی ، موالید ثلاثہ( نباتات، جمادات اور حیوانات) وغیرہ کتنی ہی لاتعداد میں مخلوقات اور موجودات کا مجموعہ ہے۔ کائنات کے تمام اجزا اور افراد میں ایک ربط موجود ہے مادی آنکھ اس ربط کو دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں اس کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

                جب ہم کسی چیز کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اسے دیکھتے ہیں ۔ مثلاً ہم ستارہ کو دیکھتے ہیں ،  چاند کو دیکھتے ہیں ،  پتھروں اور پہاڑوں کو دیکھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ تمام اشیاء ہماری نوع سے تعلق نہیں رکھتیں مگر ہم ان چیزوں کو دیکھنے میں کوئی دقت نہیں اٹھانی پڑتی ہے۔ ہم ان تمام اشیاء کو اسی طرح دیکھتے ہیں جسے ہم اپنی نوع کے کسی فرد کو۔  یہ ایک عام بات ہے۔ ذہن کبھی اس طرٖف متوجہ نہیں ہوتا، آخر ایسا کیوں ہے؟ روحانیت میں یا پیراسائیکالوجی میں کسی چیز کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ درجہ کی چیز ہو۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں توہمیں اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ہم اس کی صفات ٹھیک طرح سمجھ لیتے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت ذہن کی گہرائی سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اِس کوزیادہ واضع طور پر ہم اس طرح کہیں گے ، شاہد (دیکھنے والا) جس وقت کسی چیز کودیکھتا ہے تو اس کی صلاحیت معرفت شئے نگاہ میں منتقل ہوجاتی ہے۔ گویا دیکھنے والا خود دیکھی ہوئی چیزبن کر اسکی معرفت حاصل کرتا ہے۔ یہ عالم امر کا قانون ہے۔ مثال کو پھر سمجھئے ہم نے گلاب کے پھول کو دیکھا،  دیکھتے وقت ہمیں خود کو گلاب کے پھول کی صفات میں منتقل کرنا پڑا۔ پھر ہم گلاب کے پھول کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس طرح ہمیں گلاب کے پھول کی معرفت حاصل ہوگی۔

                عالم خلق کا ہر فرداپنے نقطہ ذات کو دوسری شئے کے نقطہ ذات میں تبدیل کرنے کی ازلی صلاحیت رکھتاہے اور جتنی مرتبہ روزجس طرح چاہے وہ کسی چیز کو اپنی معرفت میں مقید کرسکتا ہے اس قانون کے تحت ہر انسان کا نقطہ ذات پوری کائنات کی صفات کا اجتماع ہے۔اس قانون کے تحت جب روحانیت یا پیراسائیکالوجی کا طالب علم اپنی توجہ اس سمت کی طرف مرکوز کرتا ہے جس سمت میں ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں، یعنی اللہ کے لفظ کن سے پہلے کے نقوش کی طرف جب روحانی طالب علم توجہ مرکوز کرتا ہے تو یہ نقش اس کے قلب پر بار بار وارد ہوتے ہیں۔ عارف کے مشاہدہ میں یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ کائنات کے ہر فرد ، ہر ذرہ میں اللہ بذات خود موجود ہے ، کوئی کام کوئی عمل کوئی بھی چیز ہو اسے اللہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ رفتہ رفتہ یہ عمل غیر اختیاری او راختیاری دونوں طرزوں میں سامنے آتا ہے اور اس کے ذہن میں اللہ کی وحدت کے علاوہ کچھ نہیں رہتا ۔ پھر نتیجتاً آدمی اپنی انّا، اپنی مرضی، اختیار، عقل و شعور سے دست بردار ہوجاتا ہے اور اس پر جذب طاری ہوجاتا ہے۔  یہ نسبت یا طرز فکر نسبت یاداشت کہلاتی ہے۔ حضرت خواجہ بہاء الحق نقشبندی  نے اس طرز کو نشان بے نشانی کا نام دیا ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔