Topics

مراقبہ کیوں ضروری ہے ؟ خواب اور مراقبہ میں کیافرق ہے؟

مراقبہ اور خواب                        

سوال  :  روحانیت کی تعلیم میں مراقبہ کیوں ضروری ہے ؟ خواب اور مراقبہ میں کیافرق ہے؟  ایک مبتدی کو مراقبہ کی مشق میں عبور ہونے تک کن کن درجوں سے گزرنا پڑتا ہے؟

جواب  :  روحانیت ہمیں بتاتی ہے کہ ذہن کو دنیاوی علائق اور دنیاوی معاملات سے یکسو کرنے کے لیے ایسی مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے جن مشقوں سے ذہن دنیا کو عارضی طور پر چھوڑ دے اور ان مشقوں سے جب ذہن یکسو ہوجاتا ہے اور دنیا وی معاملات روٹین کی طور پر پورے ہوتے ہیں تو آدمی کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ جب ان بیدار صلاحیتوں میں ذہن انسانی بہت زیادہ متوجہ ہوجاتا ہے تو شعور کے اوپر سے زمان و مکان کی حد بندیاں اس طرح ختم ہوجاتی ہیں کہ بیدار ہوتے ہوئے بھی ایسے عمل کرنے لگتا ہے جس طرح کے عمل یا جس طرح کے کام وہ خواب کی زندگی میں کرتا ہے ۔ اسے مراقبہ کے اندر آنکھیں بند کئے ہوئے پوری طرح یہ احساس ہوتا ہے کہ میں جسمانی طور پر موجود ہوں ، جسمانی طور پر زمین پر بیٹھا ہوا ہوں اور اس کے باوجود چل پھر رہا ہوں، اُڑ رہا ہوں اور فاصلوں کی نفی کرکے دور دراز چیزوں کو دیکھ رہا ہوں۔

                مراقبہ اور خواب میں فرق یہ ہے کہ خواب میں دماغ یا شعور جسمانی اعضاء کو نظر انداز نہیں کرتا ۔ مراقبہ کرنے والا بندہ جس کی آنکھ کھلی ہو(آنکھ سے مراد باطنی آنکھ ہے) ٹائم اینڈ اسپیس یا زمان و مکان کو حذف کرتے ہوئے جسمانی کیفیات سے آشنا رہتا ہے۔ مراقبہ کو ہم خواب کا پہلا درجہ کہتے ہیں یعنی ایسا خواب جس میں آدمی کے اوپر نیندغالب نہ ہو اور وہ مکمل طور پر بیدار ہو۔ماورائی دنیا کو دیکھنے کا عمل ابتدائی درجوں میں چار طریقوں پر قائم ہے۔ روح حیوانی دو نقطوں سے مرکب ہے۔ ایک نقطہ کانام نفس ہے اور دوسرے نقطے کا نام قلب ہے۔ شعور انسانی جب تک نفس کے اندر دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے یا دنیا کو دیکھتا ہے تو زمان و مکان میں پابند رہتے ہوئے بیداری میں دیکھتا ہے ۔ اس سے ترقی کرکے آدمی روح حیوانی سے اوپر قلب میں دیکھتا ہے تو ٹائم اینڈ اسپیس کی گرفت ٹوٹنے لگتی ہے اور مادی دنیا اور غیب کی دنیا ایک ساتھ نظروں میں آجاتی ہے۔ لطیفہ نفسی اور لطیفہ قلبی کی دوسڑھیوں سے گزر کر جب آدمی تیسری سیڑھی پرقدم رکھتا ہے یعنی لطیفہ روحی میں دیکھتا ہے تویہ دیکھنا مراقبہ میں دیکھنا ہے۔

                مراقبے کی بہت سی قسمیں ہیں ، مراقبہ کی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتا ہے ، اسے ذہنی یکسوئی نصیب ہوجاتی ہے کوئی چیز اس کی نظروں کے سامنے آتی ہے ، لیکن بندہ دیکھی ہوئی چیز میں معانی اور مفہوم نہیں پہنا سکتا دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ جس وقت کوئی چیز نظر آتی ہے اس وقت شعور اور حواس معطل ہوجاتے ہیں اور جب وہ اس کیفیت سے نکلتا ہے تو اس کے ذہن پر تاثر قائم ہوتا ہے کہ اِس نے کوئی چیز دیکھی ہے، کیا دیکھی ہے؟ کس طرح دیکھی ؟ یہ بات اِس کے حافظے پر نقش نہیں ہوتی اور اس کو روحانیت میں  ’’ بیداری میں خواب دیکھنا‘‘ کہتے ہیں ،  اور بیداری میں خواب دیکھنے کا اصطلاحی نام  ’’غنود‘‘  ہے ۔ اِس کے بعد دوسری اسٹیج یہ ہے کہ آدمی نے مراقبہ میں ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے کوئی چیز دیکھی اس کو جھٹکا لگا اور یہ بات ذہن میں آئی کہ میرا وجود ہے، وجود کی موجودگی کے ساتھ ساتھ دیکھی ہوئی چیز کچھ یاد رہی کچھ بھول میں پڑگئی۔اس کیفیت کو روحانی اصطلاح میں  ’’ورود‘‘ کہا جاتا ہے۔بیداری کے حواس میں اس طرح کسی چیز کو دیکھنا کہ وہ یاد بھی رہے اور اس کے معانی و مفہوم ذہن نشین ہوجائیں ، جسمانی وجود کا احساس بھی باقی رہے اور ٹائم اینڈ اسپیس کی گرفت بھی ٹوٹ جائے تو اس کیفیت کا نام  ’’مراقبہ ‘‘ ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔