Topics

علم واجب

پیرا سائیکالوجی   (علم  واجب)                   

سوال  :  واجب کا لفظ پیراسائیکالوجی میں استعمال ہوتا ہے۔ کتابوں میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے عکس کو واجب کہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں آپ اس کی تشریح فرمائیں کہ فی الواقع روحانی طرزوں میں کیا مراد ہوتی ہیں کیونکہ تفصیل کے ساتھ کتابوں میں اس کا مفہوم نہیں ملتا۔

جواب  :  جب کچھ بھی نہیں تھا یعنی ایک ایسا دور تھا جب کائنات کا وجود ہی نہیں تھا۔ تو صرف اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اب ظاہر ہے کہ کسی ہستی کو اس وقت پہچانا جاسکتا ہے جب اس کے پہچاننے کے لیے کوئی ہستی موجود ہو۔  توچنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا  جاؤں تو کائنات کی تخلیق کا ارادہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے کائنات کی ایک ترتیب بنائی مگر یہ ترتیب ابھی سامنے نہیں آئی تھی یعنی یہ ابھی صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی۔ گویا کائنات کی ہر مخلوق کی نوع ہرفرد کی ایک ایک حرکت اپنی مکمل شکل وصورت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس علم میں کائنات کی موجودگی تھی اللہ تعالیٰ کے اس علم کو روحانیت میں واجب یا علم القلم کہاجاتاہے۔ علم واجب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بھی ہے جس کو ذات کا عکس بھی کہتے ہیں۔

                علم واجب کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی صفات یعنی کائنات ایک قدم اور نیچے اترتی ہے تو عالم واقعہ یا عالم ارواح کاظہور بن جاتی ہیں یہی وہ عالم ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ظہور تخلیق کا ارادہ فرمایا اور لفظ کن کہہ کر اپنے ارادے کو کائنات میں شکل و صورت بخشی ۔  یہاں سے دو حیثیتیں قائم ہوجاتی ہیں ۔ ایک حیثیت اللہ تعالیٰ کے علم کی اور دوسری حیثیت اللہ تعالیٰ کے ارادے کی۔ دراصل ارادہ ہی ازل کی ابتداء کرتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے لفظ کن سے پہلے یہ تمام کائنات اور کائنات کا ایک  ایک ذرہ اپنی ایک ایک حرکت کے ساتھ اللہ کے جس علم میں تھا اس کو  ’’ واجب‘‘ کہتے ہیں ۔ واجب ہی کو علم القلم اور اسیِ کو ذات کا عکس کہتے ہیں۔

Topics


Usoloo


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔