Topics
سوال : اس
دنیا میں ہر انسان زندگی کو بہترین بنانے کے لیے ہرطرح سے کوشش اور جدوجہد کرتا
ہے۔ مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر کسی کو دنیاوی آسائش میسر آجائیں تب بھی وہ بے
اطمینانی اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتا ہے، جو کہ عموماً بے اختیاری ہوتا
ہے۔ ہم اس بے سکونی ، بے اطمینانی ،
پریشان خیالی اور عدم تحفظ کی کیفیت کو کس طرح ختم کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں
کیا مذہب انسان کی مدد کر سکتا ہے؟ کیونکہ
مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت کو بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو بے سکونی اور عدم اطمینان
کا اتنا احساس انہیں بھی رہتا ہے جتنا دوسرے لوگوں کو ہوتا ہے۔
جواب :
کائنات میں بے شمار نوعیں ہیں، ہر نوع اور نوع کا ہر فرد، نوعی اور انفرادی
حیثیت میں خیالات کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں
اور یہ مسلسل اور پیہم ربط ہی افراد کائنات کے درمیان تعارف کا سبب ہے۔ خیالات کی
یہ لہریں دراصل انفرادی اور اجتماعی اطلاعات ہیں جو ہر لمحہ اور ہر آن کائنات کے
افراد کو زندگی سے قریب کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی خیالات کے دوش
پر سفر کررہی ہے اور خیالات کی کارفرمائی ، یقین اور شک پر قائم ہے، یہی نقطہ
آغاز مذہب کی بنیاد ہے۔
حقیقت
یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے اور ہمشہ اپنی کمزوریوں
کو چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود ہی
نہیں ہیں ۔ آدمی جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ
بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کرسکے۔ چنانچہ وہ
عقیدہ یقین کا مقام حاصل کرلیتا ہے۔ حالانکہ وہ محض ایک فریب ہے، کیونکہ آدمی جو
کچھ ظاہر کرتا ہے حقیقتاً ویسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے ۔ اس قسم کی زندگی
گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں،
ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہوتا۔ اب قدم قدم پر اسے یہ خطرہ
محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہوجائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہوگا۔ بعض وقت یہ شک
یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہورہی ہے اور
اگر تلف نہیں ہورہی تو سخت خطرے میں ہے ، یہ سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہوتا
ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے۔جب آدمی کی زندگی وہ نہیں جو وہ گزاررہا ہے
تو جیسے وہ پیش کررہا ہے ، جس پر اس کا عمل ہے، اس عمل سے وہ نتائج حاصل کرنا
چاہتا ہے جس اس کے حسب دل خواہ ہوں ، لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور
ردوبدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں کو بدلتی رہتی ہے اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت
ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے یا ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اٹھانے میں
رکاوٹ بنتا ہے۔ آدمی کے دماغ کی ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ،
اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہونا ہے۔ یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ دماغی
خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن جس قدر
شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہوگی اسی قدرآدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی، اور جس
مناسبت سے شک اور بے یقینی کی زیادتی ہوگی زندگی ناکامیوں میں بسر ہوگی۔
ارادہ
یایقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے ۔ جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا
، یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی۔
مظاہرہ اپنے وجود کے لیے یقین کا پانبد ہے کیونکہ کوئی خیال یقین کی روشنیاں حاصل
کرکے مظہر بنتا ہے۔مذہب ہمیں یقین کے اس پیٹرن میں داخل کردیتا ہے جہاں شکوک و
شبہات اور وسوسے ختم ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنی باطنی نگاہ سے غیب کی دنیا اور غیب کی
دنیا میں موجود فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھ لیتا ہے۔ غیب کی دنیا کے مشاہدات سے
بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک ایسا تعلق پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ خالق کی صفات کو اپنے
اندر محیط دیکھتا ہے۔ روحانی نقطہ نگاہ سے اگر کسی بندے کے اندر باطنی نگاہ متحرک
نہیں ہوتی تو وہ ایمان کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا ، جب کوئی بندہ ایمان کے دائرے
میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کے اندر سے تخریب اور شیطنت نکل جاتی ہے اور اگر بندے کے
اوپر یقین (غیب کی دنیا) منکشف نہیں ہے تو ایسا بندہ ہر وقت تخریب اور شیطنت کے
جال میں گرفتار رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ایجادات
، آرام و آسائش کے باجود ہر شخص بے سکون ، پریشان اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔
سائنس
جو کہ میٹر یعنی مادہ پر یقین رکھتی ہے اور مادہ عارضی اور فنکشن ہے اس لیے سائنس
کی ہر ترقی ، ایجاد اور ہر آرام و آسائش کے تمام سائل عارضی اور فنا ہوجانے والے
ہیں، جس شئے کی بنیاد ہی ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہو اس سے کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں
ہوسکتی۔ مذہب کے وہ پیروکار یا علما ء جو عبادات کی رسوم کی حد تک پابندی کرتے ہیں
اور ظاہر ی اعمال کو ہی اہم سمجھتے ہیں وہ ایمان یعنی غیب کی دنیا کے مشاہدے سے
محروم رہتے ہیں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔