Topics
تمام مذاہب کی یہ تعلیم عام ہے کہ دنیا ایک امتحان گا ہ ہے ۔ امتحان میں کا میابی فر د اور قوم کے لئے سکون و راحت کے ذریعہ ہے۔ جو فر د یا قوم امتحان میں فیل ہو جا تی ہے ۔ نار جہنم اس کا ٹھکانا ہے ۔
دنیا عالم نا سوت ہو ، دنیا عالم نور (جنت ) ہو دونوں میں انسان کے لئے آسائش و آرام کے سامان مہیا ہیں ۔ گھر اور بالا خانے جس طر ح دنیا میں لوگوں کے لئے پنا ہ گا ہ ہیں اسی طر ح جنت میں بھی محلات اپنے با سیوں کے لئے منتظر ہیں۔ مٹی کے بنے ہو ئے پھل فروٹ جس طر ح یہاں ہمارے لئے لذت کام و دہن ہیں جنت میں بھی انگور، انار اور سیب بکثرت پا ئے جا تے ہیں ۔ اس عالم آب و گل میں عورت مر د کے لئے اور مر د عورت کے لئے جس طر ح سکون قلبی، راحت دماغ بنے ہو ئے ہیں، رنگ ورو شنی کے عالم جنت میں بھی حورو غلما ں کا وجود ہمارے سا منے ہے ۔ آبِ شریں اگر عالم سفلی میں ہمارے لئے آب حیات ہے تو جنت بھی آب کو ثر ہمارے سامنے پیش کر تی ہے ۔ کیف مستی اور رنج و غم زمان و مکان(Time & Space) کے بند پنجیرے میں ہمارے اوپر وارد ہو تے ہیں ۔ یہی دونوں رخ اس عالم میں جنت اور دو زخ کے نام سے پہچانے جا تے ہیں ۔
ہر انسا ن کے اندر سطحی اورگہری سوچ موجود ہے ۔ تفکر جب گہرا ہو تا ہے تو بجز اس کے کو ئی بات سامنے نہیں آتی کہ ہر آدمی جنت اور دو زخ اپنے ساتھ لئے پھر تا ہے ۔ اور اس کا تعلق طر زفکر سے ہے۔طرزِ فکر آزاد اور انبیا ء علیہم السلام کے مطا بق ہے تو آدمی کی ساری زندگی جنت ہے ۔ طر زفکر میں ابلیست ہے تو تمام زندگی دو زخ ہے ۔
جس کے پاس زرو جواہرات کے انبار ہیں وہ بھی دو رو ٹی کھا تا ہے اور ستر پو شی کے لئے دو کپڑے پہنتا ہے جس کے پاس دو لت نہیں ہے وہ بھی دو رو ٹی کھا تا ہے اور دو کپڑے زیب تن کر تا ہے۔ جس کے پاس دس کمروں کا محل ہے وہ ایک چا ر پا ئی کی جگہ سوتا ہے۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ محل میں سونے والا آدمی سوتے وقت اتنا پھیل جا تا ہوکہ سونے کے لئے ایک چار پا ئی سے ز یادہ جگہ کی ضرورت اسے پیش آئے ۔
وسائل کی تقسیم میں فر ق واضع کیا جا سکتا ہے لیکن زندہ رہنے کے لئے سب کی ضروریات یکساں ہیں ۔ خوردو نوش کے لئے سامان کا انبار ہو ، رو پے کی ریل پیل ہو، اس کے بر عکس وسائل کمی کے ساتھ موجود ہوں ۔دو نوں حالتوں میں یہ ضروری نہیں کہ آپ سکوں آشنا زندگی سے ہم کنا رہوں ۔ سکوں آشنا زندگی سے ہم آغوش ہو نے اور اطمینان قلب کے لئے ایک الگ طر ز فکر ہے اور وہ طرزِ فکر یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے واقف ہو۔ خود سے وقوف حاصل کر نا حقیقت پسندانہ عمل ہے اور حقیقت سے فرار فکشن اور مفرو ضہ زندگی ہے ۔
آج ہم ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر رو زنت نئے انکشافات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ کھوج کی اس دنیا میں انسان سمندر کی تہہ میں جا کر وہاں کے راز ہا ئے سر بستہ عام کرنے کی فکر میں سرگرداں ہے۔رازہائے سربستہ کامتلا شی انسان ستاروں پر کمند یں ڈال چکا ہے ۔ نئی تحقیق کی راہ ، مر یخ اب اس کے سامنے ہے۔ ان سب مشاہدات کے بعد انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ تحقیق و تلاش کا عمل اس وقت تک پا یہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا جب تک انسان خود کو تلاش نہ کر ے ۔ ضرورت ہے کہ اپنے اندر ما ورا ئی صلا حیتوں کو دریافت کیا جائے۔ غیر مسلم اقوام نے اسی ارادے کے ساتھ اپنے شعور کی گہرائیوں میں سفر شروع کر دیا ہے ۔ انہیں ایک نئی بصیرت کی تلاش ہے جو آدم زاد کی پر آلام زندگی کی تشکیل نو کر سکے ۔
بے قرار ی اور اضطراب سے رستگا ری حاصل کر نے کے لئے، اسلاف سے جو ہمیں ورثہ ملا ہے اس کا نام مرا قبہ ہے۔ مرا قبہ کے ذریعے ہم اپنے اندر مخفی صفات کو منظر عا م پر لا سکتے ہیں ۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جو انبیا ئے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور تمام اولیا ء اللہ کا معمول رہا ہے ۔ آخری نبی ﷺ نے بعثت سے پہلے غار حرا میں ایک عرصہ تک مر اقبہ کیا ہے ۔
وجدانی کیفیات کے حصول کی غرض سے ایک سر وے پو رٹ کے مطا بق امریکہ میں مر اقبہ کر نے والوں کی تعداد دس لا کھ سے زیادہ ہے ۔ان اعدادو شمار سے واضح ہو تا ہے کہ امر یکہ جیسے خود کفیل ملک میں بھی سکون قلب حاصل کر نے اور زندگی کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارنے کے لئے لو گ اولیا ء اللہ کی طر ز فکر کی طرف لو ٹ رہے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔