Topics
سوال :
قرآن حکیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر چیز دو رُخوں سے بنائی ہے، سانس کا
عمل بھی دو رُخوں سے مرکب ہے، یعنی ایک رُخ سانس کا اندر جانا اور دوسرا رُخ سانس
کا باہر آنا ۔ نظریہ رنگ و نور سے اس کی
تشریح فرمائیں کہ زندگی میں سانس کی کیا حیثیت ہے ، سانس کا جسم سے باہر نکلنا اور
جسم میں داخل ہونا کن فارمولوں پر قائم ہے؟
جواب :
تخلیقی فارمولوں کا علم رکھنے والے بندے جانتے ہیں کہ کائنات اور کائنات کے
اندر تمام مظاہرات کی تخلیق دو رُخ پر کی گئی ہے اس حقیقت کی روشنی میں سانس کے دو
رُخ متعین ہیں، ایک رُخ یہ ہے کہ آدمی سانس اندر لیتا ہے دوسرا رُخ یہ ہے کہ سانس
باہر نکالا جاتا ہے۔ نظریہ رنگ و نور کی
اصطلاح میں گہرائی میں سانس لینا صعودی حرکت ہے اور سانس کا باہر آنا نزولی حرکت
ہے ۔ صعود اس حرکت کا نا م ہے جس حرکت میں مخلوق کا براہ راست خالق کے ساتھ تعلق
قائم ہو اور نزول اِس حرکت کا نام ہے جس حرکت میں بندہ غیب سے دور ہوجاتا ہے اور
ٹائم اینڈ اسپیس کی گرفت اس کے اوپر مسلط ہوجاتی ہے۔
تخلیق
کی بنیاد اللہ کا چاہنا ہے ، اللہ کا
چاہنا اللہ کا ذہن ہے یعنی کائنات اور ہمارا اصل وجود اللہ کے ذہن میں ہے، قانون
یہ ہے کہ شئے کی وابستگی اصل سے برقرار نہ رہے تو وہ شئے قائم نہیں رہتی ، اس وابستگی
کا قیام مظاہراتی خدوخال میں صعودی حرکت (اندر سانس لینا) سے قائم ہے۔ اس کے برعکس
جسمانی اور مادّی تشخص کی بنیاد نزولی حرکت ہے۔ کائنات اور اس کے اندر تمام
مظاہرات ہر لمحہ اور ہر آن ایک سرکل میں سفر کررہے ہیں اور کائنات میں ہر مظاہرہ
ایک دوسرے سے آشنا اور متعارف ہے۔ تعارف کا یہ سلسلہ خیالات کے تابع ہے سانس نے
آپس میں اس تبادلہ خیال اور رشتہ کو توانائی کا نام دیاہے۔
سائنس
کی رو سے کائنات کی کسی شئے کو خواہ وہ مرئی
(Visible ) ہو یا غیر مرئی
(Unvisible) کلیتاً
فناء نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مادّہ
مختلف ڈائیوں میں نقل مکانی کرکے توانائی بن جاتا ہے اورتوانائی روپ بدل بدل کر
سامنے آتی رہتی ہیں، پیراسائیکالوجی میں اس توانائی کو ’’ روح‘‘ کہا گیا ہے۔ روح کو جو علم ودیعت
کردیا گیا ہے وہی علم خیالات، تصورات اور محسوسات بنتا ہے۔یہ خیالات اور تصورات
لہروں کے دوش پر ہمہ وقت اور ہر آن اورہر لمحہ سفر میں رہتے ہیں۔ اگر ہمارا ذہن
ان لہروں کو پڑھنے اوران کو حرکت دینے پر قدرت حاصل کرلے تو ہم کائنات کے تصویر
خانوں میں خیالات کے ردوبدل سے وقوف حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن جب تک کائنات کی کنہہ
سے ہم واقف نہیں ہونگے کائنات کے قلب میں قدم نہیں رکھ سکتے ، کائنات اور آسمانوں
کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سانس کے اِس رُخ پر کنٹرول حاصل کریں
جس رُخ پر صعودی حرکت کا قیام ہے۔
سانس
کا گہرائی میں جانا لاشعور ہے اور سانس کا گہرائی سے مظاہراتی سطح پر آنا شعور ہے
۔ شعوری زندگی میں حرکت ہوتی ہے تولاشعور ی زندگی پردہ میں چلی جاتی ہے اور لاشعور
ی زندگی میں شعوری زندگی مغلوب ہوجاتی ہے۔ اس قانون سے واقف ہونے کے لیے شعوری اور
لاشعوری دونوں تحریکات کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب انسانی ذہن سانس کی صعودی حرکت کا احاطہ
کرلے تو ہمارے اندر مرکزیت اور توجہ کی صلاحیت بروئے کار آجاتی ہے۔ لاشعوری صلاحیتوں کو بیدار اور متحرک کرنے کے
لیے یقینی طریقہ مراقبہ نفس ہے۔ مراقبہ
نفس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے
اپنے رب کو پہچان لیا‘‘
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔