Topics
ذکر کے لغوی معنی یاد
کرنے کے ہیں، تذکرہ کرنے کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اس لئے کہ تذکرہ کرنا کسی کو یاد
کرنے کا اظہار ہے۔ انسان جب کسی کا نام لیتا ہے و اس کی صفت بیان کرتا ہے تو یہ
عمل اس کے ذہنی تعلق مذکور کے ساتھ قائم کرتا ہے۔ یاد کرنا اور زبان سے تذکرہ کرنا
ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ اگر ایک شخص کسی سے قلبی لگا ؤ رکھتا ہے تو اس کا اظہار
اس طرح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زبان سے تذکرہ کرتا ہے بلکہ دل پر بھی اسی کا خیال
غالب رہتا ہے۔
بعض صوفیاء کرام کے نزدیک
جب معاملات قلوب تک پہنچ جاتے ہیں تو اعضاء کو آرام مل جاتا ہے اور مرید اس وقت
عمارت باطن کی طرف مشغول ہو جاتا ہے اور احوال کو برتنا اور اسرار کی نگہداشت اور
انفاس کا شمار اس کا مشغلہ ہو جاتا ہے۔ دین کی تعلیمات کا مدار اللہ کی ذات ہے اور
دین کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کا قلبی رشتہ اللہ کی ذات اقدس سے قائم ہو جائے اور یہ
رشتہ اتنا مستحکم ہو جائے کہ قلب اللہ کی تجلی کا دیدار کرے۔ لہٰذا تمام اعمال و
افعال چاہے وہ جسمانی ہوں یا فکری ان کا رخ اللہ کی طرف موڑ دینا چاہئے۔
مرید کو اس بات سے اچھی
طرح ڈرتے رہنا چاہئے کہ وہ اپنی ابتداء کو لوگوں کی تعریف و توصیف سے خراب نہ کرے
بلکہ اسے اپنے نفس کی معرفت کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔ مرید کے لئے واجب ہے کہ اس
کا ظاہر اوراد سے خالی نہ رہے اور اس کا باطن ارادت (شوق و محبت) سے، یہاں تک کہ
اس پر واردات (تجلیات) کا نزول ہونے لگے۔ اس وقت اسے واردات کے ساتھ وابستہ رہنا
چاہئے نہ کہ اوراد سے۔ بعض مشائخ نے ایک شخص کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو اس سے
پوچھا کہ اس سے تم کیا کرتے ہو تو اس نے کہا کہ میں تسبیحات کو اس سے گنتا ہوں تو
انہوں نے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ اپنی برائیوں کو گنو۔
مرید کے لئے ضروری ہے کہ
شیخ اسے ذکر و فکر کی جو ہدایات دیں انہیں پورا کرے اور شیخ کی اجازت کے بغیر کوئی
بھی اعمال اذکار یا وظائف نہ کرے۔ بہتر ہے کہ شیخ سے اس کی اجازت طلب کر لی جائے
تا کہ شیخ اس کی سکت اور ضرورت کے مطابق اسے پڑھنے کو بتائے۔
بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ
حرکات قلب کا عمل حرکت اعضاء کے عمل سے زیادہ اشرف ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے
کہ اگر ابوبکرؓ کے ایمان کو تمام دنیا کے لوگوں کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو
ابوبکر کے ایمان کا پلڑا بھاری رہے گا۔ نیز آپﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کو نماز اور
روزوں کی کثرت کی وجہ سے فوقیت نہیں ہے بلکہ ایک ایسی چیز کی وجہ سے ہے جو ان کے
دل میں گھر کی ہوئی ہے چنانچہ اس کا ظہور اس وقت ہوا جب کہ آپﷺ نے وفات پائی اور
جو بات حضرت ابوبکرؓ سے ظاہر ہوئی وہ دوسروں سے ظاہر نہ ہوئی وہ اس موقع پر منبر
پہ چڑھے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:
‘‘جو لوگ تم میں سے حضرت
محمدﷺ کی پرستش کرتے تھے وہ سن لیں کہ حضرت محمدﷺ وفات پا گئے ہیں اور جو لوگ حضرت
محمدﷺ کے خدا کی پرستش کرتے تھے وہ جان لیں کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔’’
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی