Topics
سوال :
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم ہر چیز کو دو دو قسم میں
بنایا ہے۔ ہم انسانوں اور حیوانوں میں دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں ذیا دہ تر نرمادہ
نظر آتے ہیں۔ لیکن جب ہم اور اشیاء یعنی لوہا اور دیگر دھاتو ں کو دیکھتے ہیں تو
وہاں ہم اس آیت کو سمجھ نہیں پاتے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہر چیز
دودو قسموں میں بنی ہے۔ نیز اِسی طرح روح اور روح کی دنیا بھی ہے۔ وہ بھی دو دو
قسموں میں ہونی چاہئے مگر کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ روح نہ نر ہوتی ہے نہ مادہ۔
آخر اس آیت کے مطابق دودو قسموں سے کیا مراد ہے؟ کیا نراور مادہ مراد ہے یا کچھ
اور ہے۔ براہ کرم اس کی تشریح روحانی علوم کی روشنی میں فرمادیجئے۔
جواب ؛ ہم دیکھتے
ہیں کہ نوع انسان اور تمام نوعیں دو رُخوں پر قائم ہیں ۔ ایک مذکر اور ایک مونث،
اسی طرح ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔ مثلاً مرد میں اِس کا ظاہری رُخ مرد ہے اور
باطنی رُخ عورت ، اسی طرح عورت میں اس کا
ظاہری رُخ عورت ہوتا ہے اور باطنی رُخ مرد ہوتا ہے۔ یعنی ایک پرت ظاہر اور غالب
رہتا ہے دوسرا پرت مغلوب اور چھپا ہوا ہوتا ہے۔
جہاں تک ان دونوں پرتوں مذکر اور مونث کا تعلق ہے یہ دونوں پرت جنس کی حد
تک متعلق ہیں۔ اصل مقصدیہ ہے کہ ہر چیز کا ایک رُخ ظاہری ہے اور دوسرا رُخ باطنی
ہوتا ہے۔ ظاہر کو ہم مادہ اور باطن کو روح کہتے ہیں۔ روح بھی دورُخ (قسم)پر قائم
ہے ، روح کا مظاہر ایک روح کے بنائے ہوئے لباس سے ہوتا ہے اور روح کا دوسرا مظاہرہ
خود ’’روح‘‘ہے
واضح
ہوکہ جس چیز کا نام ’’حس‘‘ رکھا جاتا ہے۔ اِ س کے دو اجزاء ہوتے ہیں۔ ان
دو اجزاء کو ہم دورُخ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کسی ایسے جسم میں جس کو مادی کہا جاتا ہے
یہ دونوں رُخ ایک دوسرے سے ملحق ہوتے ہیں۔ عام نظریات میں کوئی چیز ان دونوں رُخوں
کا مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ لوح محفوظ کا بھی یہ ہی قانون ہے۔ کوئی چیز مجّرد ہو،
مادی ہو، غیر مرئی یا مرئی ، بہرحال اِ س قانون کی پابند ہے۔ یہ دونوں رُخ کسی بھی
چیز میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ مرئی اشیاء میں چیز مشاہدہ میں ہوتی ہے۔ لیکن غیر
مرئی اشیاء میں اگرچہ جسمانی آنکھ اِس حالت کا مشاہدہ نہیں کرتی پھر بھی حقیقت
اِس کے سوا نہیں ہے ، چنانچہ غیرمرئی چیزوں کا جب مشاہدہ کیا جاتا ہے تو یہی قانون
وہاں بھی جاری و ساری نظر آتا ہے ، مرئی چیزوں میں جس طرح یہ دونوں رُخ ایک دوسرے
سے ملحق ہوتے ہیں اِسی طرح غیرمرئی چیزوں میں بھی یہ دونوں رُخ ایک دوسرے سے
وابستہ پائے جاتے ہیں۔ خواہ وابستگی کی نوعیت کچھ بھی ہو اِس قانون کے تحت ’’احساس‘‘ یا ’’حس ‘‘ کے بھی دورُخ یا دو مراتب
ہیں۔
ایک
رُخ یا ایک مرتبہ وہاں پایا جاتا ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت موجود ہے اور محسوس
کرتی ہے اور دوسرا رُخ وہاں پایا جاتا ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت کی نگاہ پڑرہی
ہیں یعنی جہاں محسوس کرنے والی حس مرکوز ہے۔ لوح محفوظ کے قانون کی رو سے یہ دونوں
مراتب ملا کر کسی ماہیت کافعل یا حکم بنتے ہیں اور ایک ہی قالب میں گنے جاتے ہیں۔
مثلاً ہم سیاہ رنگ کو تختہ سیاہ پر دیکھتے ہیں ، اس کا تجزیہ اِس طرح ہوسکتا ہے کہ
تختہ سیاہ = چکنا + سخت سطح۔ اس مثال میں
تختہ سیاہ رنگ ’’حس‘‘ کا ایک مرتبہ ہے اور دیکھنے والی آنکھ کا
احساس ’’حس ‘‘ کا دوسرا مرتبہ ہے۔ اس طرح یہ دونوں مرتبے ملکر
ایک مخصوص ماہیت کا فعل ایک حکم یا ایک حرکت بنتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں حِس کے ان
دونوں مرتبوں کی یکجائی کا نام تمثل ہے۔ مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ کوئی چیز مرئی ہو
یا غیر مرئی بغیر شکل و صور ت کے نہیں
ہوسکتی کیونکہ بغیر شکل و صورت کے کسی چیز کا قیام حقیقت کی رو سے ناممکن ہے۔ اِس
وجود کو جس کا نام تمثل دیا گیا ہے اگرچہ جسمانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن روح کی
آنکھ اِ س وجود کو اِسی طرح دیکھتی ہے جس طرح جسمانی آنکھ کسی مادی قالب کو دیکھتی
اور محسوس کرتی ہے۔
کسی
چیز کی موجودگی پہلے ایک تمثل یا ہیولیٰ کی شکل و صورت میں وجود پذیر ہوتی ہے۔ یہ
ہیولیٰ جب دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اِس کی حرکت میں انتہائی سُستی اور
جمود پید ا ہوجاتا ہے اس ہی سُستی اور جمود کا نام ’’ٹھوس حس‘‘
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے ترجمہ ــ’’اور
ہم چیز کو دو دو قسم بنایا تاکہ تم سمجھو‘‘
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس حرکت کی تخلیق میں دو دو قسم کی کیا نوعیت ہے۔ اِس نوعیت کے تجزیہ میں ’’احساس‘‘
یا ’’حس‘‘ کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے۔ ہم نے تختہ سیاہ
کی مثال میں ’’حس‘‘ کے دونوں رُخوں کا تذکرہ کیا ہے۔ دراصل وہی
دونوں رُخ یہاں زیر بحث آتے ہیں ۔ جس چیز کو ہم حرکت کا نام دیتے ہیں وہ محض ایک
حس ہے جس کا ایک رُخ خارجی سمت میں اور دوسرا رُخ داخل کی طرف ہے۔ جب نسمہ کے اندر
ایک نقش خاص طرزوں کے تحت تخلیق پاتا ہے تو ایسی حرکت کا مجموعہ بنتا ہے جو ایک
رُخ پر خود نقش کا احساس ہے اور دوسرے رُخ پر نقش کی دنیا کا احساس ہے۔
کائنات
کی ساخت میں نسمہ (نظر نہ آنے والی روشنی) ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، احاطہ
کرنے سے مراد ہر مثبت اور منفی زندگی کی بساط کا محیط ہونا ہے گویا ہر چیز کم ترین
اورلانشان جزو ’لاتجزاء‘ کی بنیاد دو قسموں پر ہے ۔ ایک اِس کی منفیت
اور دوسری اِس کی اثباتیت۔ ان ہی دونوں صلاحیتوں کی یکجائی کا نام نسمہ ہے۔ ہم عام
گفتگو میں لفظ پیاس استعمال کرتے ہیں لیکن اس لفظ کے جو معنی سمجھتے ہیں وہ غیر
حقیقی ہیں ۔ اصل میں پیاس اور پانی دونوں مل کر ایک وجود بناتے ہیں۔ منفیت پیاس
اور اثباتیت پانی ، واضح طور پر اس طرح کہنا چاہے کہ پیاس روح ہے پانی جسم ۔ پیاس ایک رُخ ہے اور پانی دوسرارُخ۔ اگرچہ یہ
دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں تاہم ایک ہی وجود کے دو اجزا ہیں ۔ پیاس سے پانی اور
پانی سے پیاس کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک دنیا میں پیاس موجود ہے پانی موجود
ہے۔ یعنی پیاس کا ہونا پانی کے وجود کی روشن دلیل ہے ۔ روحانیت میں یہ دونوں ملکر ایک وجود ہیں لیکن
ان کی پیوستگی ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح نہیں جس طرح ایک ورق کے دو صفحات کی، ایک
ورق کے دو صفحات ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہوسکتے ۔ لیکن پیاس اور پانی کا وجود
ایک ایسا ورق ہے جس میں صرف مکانی فاصلہ ہے زمانی فاصلہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف
کاغذ کے ورق جس میں زمانی فاصلہ ہے مکانی فاصلہ نہیں۔ اشیاء کی ساخت میں اللہ تعالیٰ نے دو رُخ رکھے
ہیں۔
کسی
شئے کے دو رُخوں میں یا تو مکانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے یا زمانی فاصلہ نمایاں ہوتا
ہے۔ ایک آدمی کرہ ارض پر پیدا ہوتا ہے اور رحلت کرتا ہے۔ ان دونوں رُخوں کے
درمیان زمانی فاصلہ ہے اِس زمانی فاصلہ کے نقش و نگار اس کی زندگی ہیں جو حقیقتاً
مکانیت ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔