Topics
سوال : آپ
کے مضامین پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام کائنات پر نور کا تصرف ہے
اور نور ہی کائنات کی تخلیق بنتا ہے۔ نور ہی انسان بنتا ہے، نور ہی فرشتہ اور دیگر
مخلوق بنتا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ یہ فرمائیے کہ آخر وہ کونسا تخلیقی فارمولا
ہے جس کے ذریعے ایک ہی نورسے جبرائیل اور مکائیل اور دیگر ملائکہ عنصری بن جاتے ہیں
اور وہ ہی نور انسان بن جاتا ہے۔
جواب : کسی
نہ کسی طرح انسان کو اس نظریہ پر مجتمع ہونا پڑے گا کہ یہ محسوس کائنات ہرگز ہرگز
مادی ذرات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ صرف شعور کا ھیولیٰ ہے۔ کائنات کی تخلیق کی بنیا
د چار شعور وں پر ہے یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ محسوس کائنات چار شعورکا مرکب
ہے۔ پہلا شعورنور مفرد سے تعمیر ہوا، دوسرا شعور نور مرکب سے ، تیسرا شعور نسمہ
مفر د کی ترکیب ہے اور چوتھا نسمہ مرکب کی۔ ان چار شعوروں میں سے فقط چوتھےشعور سے
عوام متعارف ہے، عوام صر ف اس شعور کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ بقیہ تینوں شعورعوام
الناس کے تعارف سے بالاتر ہیں ۔ اب تک نفسیات کے ماہرین نے شعور چہارم سے ہٹ کرجس
چیز کا سراغ لگایا وہ شعور سوئم ہے جس کو یہ حضرات اپنی اصطلاح میں لاشعور کا نام
دیتے ہیں۔ لیکن قرآن پاک شعور اول اور شعور دوئم کا تعار ف بھی کراتا ہے۔ چنانچہ
ان دونوں کو بھی ہم لاشعور ہی شمار کریں گے۔اس طرح کائنات کی ساخت میں تین لاشعور
پائے جاتے ہیں۔پہلا لاشعور، شعور اول،
دوسرا لاشعور شعور دوئم، تیسرا
لاشعور شعور سوئم ہے۔ ان چاروں شعوروں میں اول شعور لامکان ہے اور باقی تینوں شعور
مکان ہیں ۔ اول شعور کو غیر متغیر ہونے کی وجہ سے لامکان کہا گیا ہے۔ ہم گلاس کی
مثال سے مزید وضاحت کرتے ہیں۔ جب گلاس پر ہماری نظر پڑتی ہے تو نزول و صعود کے چھ
دائرے طے کرجاتی ہے، ہمارے حواس کے اندر پہلے گلاس واہمہ کی صورت میں داخل ہوتا
ہے، پھر یہ ہی واہمہ گلاس کا خیال بن جاتا ہے اور بعد میں یہی خیال تصور کی شکل
اختیار کرکے احساس کا درجہ حاصل کرلیتا ہے پھر فوراً احساس تصور میں ، تصورخیال
میں اور خیال واہمہ کے اندر منتقل ہوجاتا ہے۔
یہ
سارا عمل ایک سکینڈ کے ہزارویں حصہ میں واقع ہوتا ہے۔ اور بار بار دور کرتا رہتا
ہے۔ اس دور کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم چیز کو اپنی آنکھوں کے سامنے ساکت
محسوس کرتے ہیں۔یعنی سب سے اول ہمیں واہمہ سے رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے، پھر خیال
اور تصور سے البتہ یہ تینوں حالتیں ہمارے شعور سے بالاتر ہیں ، فقط ھیولیٰ کی حالت
جس کو شعور یا ’’رویت‘‘ کہا جاتا ہے، ہم سے متعارف ہے، رویت کا شعور
باقی تینوں شعور وں کا مجموعہ ہے۔ ہم اول ورائے کائناتی شعور سے جو غیر متغیر ہے
اپنی حیات کی ابتداء کرتے ہیں یعنی صفات الٰہیہ میں ایک فوراہ پھوٹتا ہے اور وہ
فوراہ تیسرے قدم پر فرد بن جاتا ہے۔ پہلے قدم پر فوراہ کا ھیولیٰ کائنات کی شکل
میں منتقل ہوتا ہے۔ دوسرے قدم پر کائنات کی کسی ایک نوع ھیولیٰ بنتا ہے اور تیسرے
قدم پر وہ فرد بن کر رونما ہوجاتا ہے۔ اگر دنیا کی تمام موجودات میں ہر چیز کو ایک
ذرہ سمجھ کر اس کی ہستی کے اندر اور اس کے باہر کی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو اصل
میں ایک نور ملے گا۔ جس کے اندر زندگی کی تمام قدریں ملیں گی، تصوف کی اصطلاح میں
اس نور کی تحریک کا بداعت ہے۔
بداعت
ایک طرح کے حیاتی دباؤ کا نام ہے جو شعور
او ل سے شروع ہوکر شعور چہارم تک اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ شعور اول قرآن پاک کی
زبان میں اسمائے الٰہیہ یا صفات الٰہیہ کے نام سے موسوم ہے۔ جب اسمائے الٰہیہ اظہار
کی طرف میلان کرتے ہیں تو احکام وارد بن
کر بداعت(حیاتی دباؤ ) کا رنگ قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ جب بداعت شعور اول سے شعور
دوئم میں منتقل ہوتی ہے تو امر الٰہیہ کی صورت میں رونما ئی کرتی ہے، اور عام
اصطلاح میں ’’روح‘‘ کہلاتی ہے۔ جب روح
بداعت کے تحت اظہار کی ایک اور شرط پوری کرتی ہے تو رویاکی سطح میں داخل ہوجاتی ہے
اور بداعت کی آخری کوشش کا نتیجہ فرد ( شعور چہارم)کی حیثیت میں رونما ہوتا
ہے۔گویا فرد بداعت کی محدود ترین شکل ہے۔ اول شعور ’’نور مفرد‘‘ ، دوئم شعور ’’ نور مرکب‘‘
یہ دونوں نور کی قسمیں ہیں۔ اسی طرح شعور سوئم ــ’’نسمہ
مفرد‘‘ اور شعور چہارم ’’نسمہ مرکب‘‘
ہے۔ کائنات کی چار مکانیتوں میں پہلی دو مکانیتیں نور کی ساخت میں اورباقی
دو مکانیتیں نسمہ کی ساخت پر ہے۔ ان میں ہر مکانیت کی دو سطح ہیں۔
۱) نور مفرد کی دونوں سطح سے الگ الگ دوشعاعیں نکلتی ہے اور
صٖفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہوکر مظاہرہ کرتی ہیں وہ نورمفرد کی تخلیق
ہے۔ اس تخلیق کو ملاء اعلیٰ کہاجاتا ہے۔ ملاء اعلیٰ کے گروہ میں جبرائیل ، میکائیل
، اسرافیل اور عزرائیل شامل ہیں ۔
۲) نور مرکب کی دونوں سطح سے بھی الگ الگ دوشعاعیں نکلتی ہے
اور صٖفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہوکر مظاہرہ کرتی ہیں وہ نورمرکب کی
تخلیق ہے۔ اس تخلیق کو ملائکہ کہتے ہیں۔
۳) نسمہ مفرد کی دونوں سطح سے بھی الگ الگ دوشعاعیں نکلتی ہے
اور صٖفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہوکر مظاہرہ کرتی ہیں وہ نسمہ مفردکی
تخلیق ہے۔ اس تخلیق کا نام جنات ہیں۔
۴) نسم مرکب کی دونوں سطح سے بھی الگ الگ دوشعاعیں نکلتی ہیں اور صٖفاتی
تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہوکر مظاہرہ کرتی ہیں وہ نسمہ مرکب کی تخلیق ہے۔ اس
تخلیق کا نام عنصری مخلوق ہیں۔اس مخلوق کا ایک جزو ہمارا کرہ ارضی بھی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔