Topics

تصور شیخ

                                

سوال  :  (۱)  مجھے تصوّف کی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ، تصوّف میں  ’’ تصور شیخ ‘‘  پر بہت زور دیا جاتا ہے ، روحانی علوم سیکھنے کے لیے تصور شیخ کیوں ضروری ہے۔ اس کا آسان طریقہ کیا ہے؟

(۲)  بتایا گیا ہے کہ روحانیت میں ابدال ، ابرار، اخیار، قطب ارشاد، قطب مدار ، اوتار، مکتوبان، نجیبا، نقیبا عہدے ہوتے ہے۔ کیا یہ عہدے روحانیت میں سندیافتہ ڈگری ہوتی ہے؟۔ جیسے میٹرک ، ایم اے، پی ایچ ڈی وغیرہ یا ان ناموں کا کوئی اورمطلب ہے۔ براہ کرم تفصیل سے آگاہ کریں؟

جواب  :  روحانی علوم ہو یا مادی علوم ، دونوں منتقل ہوتے ہیں، مثلاً جب ہم اپنے بچے کو کسی استاد کی شاگردی میں دیتے ہیں تو استاد بچہ کو بتاتا ہے یہ الف ہے،  یہ ب ہے ،  یہ ج ہے ۔ براہ راست اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ استاد کے ذہن میں الف کا جو تصور یا خاکہ تھاوہ بچہ کے ذہن میں منتقل ہوگیا،  اگر کسی بچہ کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ الف ہے تو وہ کبھی بھی الف سے آشنا نہ ہوگا اور نتیجہ میں علم حاصل کرنے سے محروم رہ جائے گا۔

                اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق قانون یہ ہے کہ ساری کائنات  ’’روشنی ‘‘ ہے۔ ایسی روشنی جو ہر لمحہ ، ہر آن متحرک رہتی ہے۔ وہم ،  خیال، تصور، احساس سب روشنی کے تانے بانے پر رواں دواں ہے۔ ہم جب بات کرتے ہیں تو ہمارے منہ سے نکلے الفاظ روشنی کے دوش پر سفر کرکے ہمارے کانوں کے پردے سے ٹکراتے ہیں اور ہمارا دماغ ان کا مفہوم اخذ کرکے ان کی معنویت سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ جب کوئی آدمی بہرہ ہوجاتا ہے تو اسکے کانوں پر آلہ سماعت لگا دیا جاتا ہے،  سب جانتے ہے کہ اس آلہ میں بیٹری کے سیل لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ساتھ چھوٹا سا لاؤڈ اسپیکرہوتا ہے مخاطب جب بہرے آدمی سے بات کرتا ہے تو بجلی کے ذریعے آواز کا ویولینتھ (Wave Lenght)  بڑھ جاتا ہے اور اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ بہرا شخص آواز کے مفہوم اور معانی کو اسی طرح سمجھتا  ہےجس طرح ایک عام آدمی سُنتا اور سمجھتا ہے۔ اس مثال سے بتانا یہ مقصود ہے کہ آواز روشنی کی لہروں کے علاوہ کوئی اور حیثیت نہیں رکھتی۔  جب آواز روٹین سے کم ہوجاتی ہیں یا کانوں کے اندر اللہ کا بنایا ہوا اسپیکر خراب ہوجاتا ہے تو آدمی آواز یں نہیں سن سکتا۔ بعض مریض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بہت معمولی آواز جب ان کے کانوں کے پردے سے ٹکراتی ہے تو ان کے دماغ کے اندر دھماکا محسوس ہوتا ہے اور وہ اِس معمولی آواز سے بھی پریشان اور خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اِس کی وجہ بھی بجز اس کے کچھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کان کے اندر بنایا ہوا لاؤ ڈ اسپیکر کسی وجہ سے خراب ہوگیا ہے۔

                ہر شخص کے ساتھ کبھی نہ کبھی یہ بات پیش آتی ہے کہ وہ اپنے مخاطب کو اشاروں سے کوئی بات سمجھاتا ہے اور اِس کے دماغ کے اندر جو خیالات ہوتے ہیں ،  ان خیالات کو اِسی طرح قبول کر لیتا ہے جس طرح خیالات الفاظ کا جامہ پہن کر مخاطب کے دماغ میں منتقل ہوتے ہیں۔  آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں، وہاں آپ چند دوستوں کے ساتھ گفتگو کررہے ہیں ، ڈرائنگ روم میں کوئی بچہ آجاتا ہے ، آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ڈرائنگ روم میں نہ آئے۔ آپ الفاظ کا سہارا لیے بغیر اِس بچے کو آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں، دماغ میں یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ بچہ یہاں سے چلا جائے، آپ کے اس خیال کو بچہ پڑھ لیتا ہے اور اس کے معنی اور مفہوم سمجھ کر وہاں سے چلا جاتا ہے۔

                مختصر یہ کہ بہت سے خیالات روزانہ ہمارے اندر آپس میں ردوبدل ہوتے رہتے ہیں اور ہم ان سے اسی طرح خوش رہتے ہیں یا غمگین ہوتے ہیں جس طرح الفاظ کا تاثر ہمارے اوپر قائم ہوتا ہے۔ ہم کسی خوب صورت منظر کو دیکھ کر اپنے اندر سکون کی لہروں کا ایک ہجوم محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف کسی منظر کودیکھ کر ہمارا دماغ بوجھل ، پریشان اور افسردہ ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ منظر کے اندرجس قسم کی روشنیاں دور کررہی ہیں وہ ہمارے اندر منتقل ہو کر ہمیں پرسکون کردیتی ہے یا پریشان کردیتی ہے ۔  آج کل ماورائی علوم میں ٹیلی پیتھی کا علم بہت زیادہ قبولیت عام حاصل کرگیا ہے، ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی یہ ہے کہ الفاظ کے بغیر خیالات ایک دوسرے کو منتقل کردیئے جائیں، ٹیلی پیتھی نے اتنی کامیابی حاصل کرلی ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں بیٹھے ہوئے شخص کو خیالات منتقل کردیے جاتے ہیں۔

                ان مثالوں سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ دراصل ہماری زندگی اور زندگی کے سارے مقصدات روشنی کہ لہروں پر سفر کرتے ہیں ، تصوف میں تصور شیخ سے یہ مراد ہے کہ شیخ کی طرز فکر مرید کے اندر منتقل ہوجائے ۔ جیسے جیسے آدمی مراقبہ میں ذہنی یکسوئی کے ساتھ تصور شیخ قائم کرتا ہے۔ شیخ کے اندر کام کرنے والی روحانی صلاحیتیں بتدریج مرید کی روحانی صلاحیتوں کو طاقتور بنا دیتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شیخ کی ساری صلاحیتیں مرید کے اندر منتقل ہوجاتی ہیں۔ اس مقام کو تصوف میں  ’’فنا فی الشیخ ‘‘  کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی بندے کے اندر حضور علیہ الصلوۃ السلام کی محبت عشق کا درجہ حاصل کرلیتی ہے تو اس مقام کا نام تصوف  ’’فنا فی الرسول ‘‘  ہے،  تصور شیخ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائے اور یہ تصور کریں کہ شیخ اس کے سامنے ہے،  تصور قائم ہونے سے ذہنی یکسوئی کا حاصل ہونا ضروری ہے، ذہنی یکسوئی  کے لیے مراقبہ سے پہلے صاحب مراقبہ کو ناک پر چند منٹ نظر جمانی چاہے اس عمل سے بہت جلد ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔

                اب آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آدم کو زمین پر اپنا نائب بنایا ہے ،  نائب سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کو مالک کے اختیارات حاصل ہوں، مثلاً نائب صدر، نائب وزیر اعظم، ڈپٹی سکریڑی وغیرہ وغیرہ یعنی جتنے اختیار دئیے گے ہیں وہ ان کو استعمال کرتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم کو زمین پر نظام چلانے کے اختیارات دے دئیے ہیں۔ تصوّف میں دو شعبے کام کرتے ہیں۔ ایک شعبہ ترغیب اصلاح و احوال ، تبلیغ رُشدو ہدایت کا نام ہے۔ اس شعبے میں انسان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودگی کا باعث ہے اور یہ راستہ بندے کو اللہ سے دور رکھتا ہے، نیز زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمھارے اوپر یہ فرائض عائد کئے ہیں مثلاً راست بازی، حقوق العباد اور ارکان اسلام کی پیروی ۔ بندہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ زندگی پر عمل کرکے جنت کا مستحق ہوجاتا ہے اور نافرمانی کا مرتکب بن کر دوزخ اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

                دوسرا شعبہ نظامت کا ہے، اور اِس شعبے میں وہ لوگ کام کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر اس کے نائب ہیں اور ان بندوں کی نیابت کا فرض فرشتے انجام دیتے ہیں۔ اس کا تذکرہ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ کے واقعہ میں کیا گیا ہے۔جب حضرت موسیٰ نے اس بندے سے یہ پوچھا کہ تم نے کشتی میں سوراخ کردیا ہے جبکہ کشتی والوں نے عزت واحترام سے کشتی میں بٹھایاتو نے ان کے احسان کا یہ بدلہ دیا؟یہ کشتی ایک بیوہ عورت کی تھی او راِس کشتی پر اس عورت کے معاش کا انحصار ہے، بادشا ہ یہ چاہتا ہے کہ اچھی اور نئی کشتیاں بیگار میں لے جائیں، میں نے اس کشتی میں سوراخ کردیا تاکہ بادشاہ کے لوگ اسے نہ اس کشتی کو ساتھ نہ لے جائے۔ یہ نظامت سے متعلق ایک واقعہ ہے ، اس شعبے میں کام کرنے والے بے شمار حضرات الگ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، اور عہدے کی مناسبت سے ان کے الگ الگ نام ہوتے ہیں۔ اگر ان حضرات کے عہدے اور عہدوں کی مناسبت سے اس ان کی تعداد اوران کے فرائض منصبی کی وضاحت کی جائے تو یہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔