Topics
سوال :
اسلامی تصّوف میں( جس کو آپ نے پیراسائیکالوجی کا نام دیا ہے) تخلیقی فارمولوں کے ضمن میں تدّلیٰ کی اصطلاح
بیان ہوئی ہے ۔ تدّلیٰ سے کیا مراد ہے؟
تدّلیٰ اور اسم الاسماء میں کیا فرق ہے؟
جواب :
قرآن پاک میں جہاں آدم کی نیابت اور خلافت کا تذکرہ کیاہے وہاں بنیادی
بات یہ بیان ہوئی ہے کہ آدم کو علم الاسماء عطا کیا گیا ہے۔ جوکائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہے۔ علم الاسماء
ہی کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا، علم الاسماء کی حیثیت میں جو علم آدم
کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اس کو روحانی زبان میں تدّلیٰ کہتے ہیں
۔ انسان کا شرف یہ ہے کہ وہ اللہ کریم کا
نائب ہے اور وہ نیابت کے علوم سے واقف ہے، اسے بحیثیت انسان کے اللہ تعالیٰ سے
اختیارات حاصل ہیں، جب کوئی روحانی علوم
کا طالب علم اپنے مرشد کی ہمت اور نسبت سے نیابت کے اختیارات کو جاننے اور سمجھنے
اور استعمال کرنے کے علوم حاصل کرتا ہے تو اِسے علم ہوجاتا ہے کہ اللہ کریم کا ہر
اسم دراصل اللہ کی ایک صفت ہے اوریہ صفت ہر بندے کو اللہ کی طرف سے ازل میں حاصل
ہوئی تھی۔ بندے سے مراد نوع انسان اور نوع انسان کے تمام افراد ہیں۔
آدم کی اولاد جب صفت
تدّلیٰ کو حاصل کرنا چاہے تو اس کے علم میں یہ بات ہونی چاہے کہ اللہ رحیم ہے اور
رحیم صفاتی اعتبار سے تخلیق کرنے والی ہستی ہے،
روحانی طالب علم اگر مراقبہ کے ذریعے اسم رحیم کی صفات کازیادہ سے زیادہ
ذخیرہ اپنے لاشعور میں کرلے تو اِس کے اوپر وہ علوم منکشف ہوجاتے ہیں جو تخلیق میں
بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے اسی اسم رحیم کی صفت کا یا
تخلیقی علم کا تذکرہ حضرت عیسیٰﹼ
کی نسبت سے کیا ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰﹼ
مٹی کے جانور میں پھونک مار کر اُڑا دیتے
تھے یا پیدائشی کوڑھی یا اندھے کو اچھا کردیتے تھے۔ اِ س عمل میں ان کے اندر اسم
رحیم سے متعلق اللہ کی تخلیقی صفت متحرک ہوجاتی تھی یا وہ اللہ کے دئیے اختیارات
سے اسم رحیم کی صفت کو عملاً جاری فرمادیتے تھے۔
اللہ کریم نے حضرت عیسیٰﹼ
کے اِس معجزے کا تذکرہ کرکے تخلیق کا ایک فارمولہ بیان کیا ہے، تخلیقی فارمولہ یہ
ہے کہ انسان کے اندر یا آدم زاد کے اندر اللہ کی روح کام کررہی ہے، جب تک انسان کے اندر یا آدم زاد کے اندر روح
موجود نہیں ہے ، آدم کا وجود بے حرکت مٹی کا پتلا ہے، یہی بات اللہ نے حضرت عیسیٰ سے کہی ہے ’’ اور
جب تو بناتا ہے مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے ‘‘ یعنی میری مرضی اور میری
منشاء اور میرے دئیے ہوئے علوم سے ’’پھر
اس میں پھونک مارتا ہے تو ہوجاتا ہےـــ
جانور‘‘ یعنی مٹی کے جانور میں حضرت عیسیٰﹼ
تخلیقی فارمولے کے تحت یا اسم رحیم کی صفت کے تحت مٹی کے جانورمیں پھونک مارتے تھے
تو وہ اُڑجاتا تھا۔ پیدائشی اندھے یا
کوڑھی کے اوپر دم کرتے تھے یا پھونک مارتے تھے تو بھلا چنگا ہوجاتا تھا۔ اللہ کریم کا یہ فیضان قرآن حکیم کے ذریعے نوع
انسانی کے لیے عام ہے۔ کوئی بھی انسان قرآن میں تفکر سیدنا حضور علیہ الصلواۃ
السلام کی نسبت سے اللہ کریم کے دئیے ہوئے تخلیقی اختیارات یا ’’تدّلیٰ‘‘ سے
مستفیض ہوسکتا ہے۔ اِسی بنیاد پر انسان اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔