Topics

انبیاء کی طرز فکر

   

سوال  :  عرض ہے کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالاہے یہی دیکھتے آرہے ہیں کہ ہر انسان کی طرز فکر میں دنیا کا عنصر شامل ہوتا ہے۔  اگر غیرجانبدار نہ طرز فکر پر دیکھا جائے تو دنیا کی پرستش کی جاتی ہیں۔ غریب انسان کے حواس پر دولت سوار ہے ، امیرہے تو وہ شہرت اور اقتدار کی پوجا کرنے میں مصروف ہے ۔  جبکہ ہم انبیاء علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی طرز فکر انسانوں کی عام طرز فکر سے بالکل جدا نظر آتی ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ یہ فرمائیے کہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے معاملات میں مشغول رہتے ہوئے ہم کس طرح انبیاء علیہ السلام کی طرز فکر کو حاصل کرسکتے ہیں۔

جواب  :   لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی فرد دوسرے فرد سے روشناس ہوتا ہے تو اپنی طبعیت میں اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح دو افراد میں ایک اثر ڈالنے والا اور دوسرا اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اصطلاحاً ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام احساس اور دوسرے کا نام محسوس رکھتے ہیں۔ احساس محسوس کااثر قبول کرتا ہے اور مغلوب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مثلاً زید جب محمود کو دیکھتا ہے تو محمود کے متعلق اپنی معلومات کی بناء پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔یہ رائے محمود کی صفت ہے جس کو بطور احساس زید اپنے اندر قبول کرتا ہے یعنی انسان دوسرے انسان یا کسی چیز کی صفت سے مغلوب ہوکر اور اس چیز کی صفت  کو قبول کرکے اپنی شکست اور محکومیت کا اعتراف کرتا ہے، یہاں چیز سے مراد کچھ بھی ہو چاہے دولت ، شہرت ہو، زمین جائیداد ، اقتدارکچھ بھی ہو اس اسٹیج پر انسان حیوانات ، نباتات جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور انسانوں کی افضلیت کم ہو کر رہ جاتی ہے۔

                اب یہ سمجھنا ضروری ہوگیا کہ آخر انسان کی وہ کونسی حیثیت ہے جو اس کی افضلیت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کا حاصل کرنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے انبیاء علیہ السلام اس حیثیت کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ جب وہ کسی چیز کے متعلق سوچتے اس چیز اور اپنے درمیان براہ راست کوئی رشتہ قائم نہیں کرتے تھے ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات ، تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہوجاتی تھی اور ان کا ذہن ایسے رحجانات پیدا کرلیتا تھا جب وہ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاًہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔ جب ان کی یہ فکر ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مد نظرقرار پاتا تھا اور قانون کی رو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھی۔ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی صفات اُن کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کرلیتی تھی یا یوں کہنا چاہے کہ ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا، یہ مقام حاصل ہونے کے بعد ان کے ذہن کی حرکت اللہ تعالیٰ کی صفات کی حرکت ہوتی تھی۔

                جب انسان اپنی زندگی کا مقصد دنیا کو بنا لیتا ہے ۔ دولت،شہرت کے حصول کو اپنی زندگی کی معراج سمجھنے لگتا ہے تویہ طرز فکر انسانی ذہن کو غلیظ اور پراگندہ کردیتی ہے کیونکہ دنیا یعنی دولت، شہرت، اقتدار وغیرہ خود غرضی اور غلاظت کا سمبل ہیں۔ اِس طرز فکر سے ذہن اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے ۔ انبیاء کی طرز فکر یہ ہی ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دے۔ وہ زندگی کے ہر عمل کو اپنی ذات کے لیے نہ کرے۔  بات بہت آسان ہے محض سمجھنا ہے کہ انسان دل لگا کر محنت و کوشش کرے ، نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے اگر وہ رزق کما رہاہے تو اس کی فکر یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ چاہتے کہ ہر انسان وسائل کو حاصل کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ کپڑے پہنیں تو ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان اچھا لباس پہنے، تعلیم حاصل کرے تو ذہن میں یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کے بندے علم حاصل کریں، صاف ستھرا لباس پہنیں ، اچھا کھانا کھائیں، غرض کہ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کو ہی کفیل اور مددگار سمجھے ، رفتہ رفتہ یہ طرز فکر مستحکم ہوجاتی ہے اور انبیاء کی طرز فکر کے خدوخال پیدا ہونے لگتے ہیں۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔