Topics
پر یشان حالی اور درماندگی نے ہشت پا بن کر نوع انسانی کو اپنی گر فت میں لے لیا ہے۔ درآنحالے کہ اللہ تعا لیٰ کی تخلیق میں نوع انسانی وہ مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی حامل ہے جن کے متحمل ہو نے سے سماوات ، ارض اور جبال نے عاجزی کا اظہار کر دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطا بق جب کو ئی قوم صراط مستقیم سے بھٹک جا تی ہے تو وہ امتحان کی چکی میں پسنے لگتی ہے تا کہ صعوبتوں ، پر یشانیوں اور عدم تحفظ کے زہر یلے احساس سے محفوظ رہنے کے لئے وہ راستہ تلاش کر لے جو فلاح اور سلامتی کا راستہ ہے ۔
یہ دنیا ایک امتحان گا ہ ہے۔ یہاں ہر ایک کسی نہ کسی امتحان میں دانستہ یا نا دانستہ مصروف عمل ہے مقصد یہ ہے کہ آدمی امتحان میں کا میاب ہو کر اپنی زندگی کا کو ئی رخ متعین کر لے ۔ کو ئی دولت مند ہے کو ئی غریب نا دار اور بیمار ہے اور کو ئی ایسا بھی بدبخت ہے جس کے ذہن میں بزرگوں اور ماں باپ کی عزت وتو قیر نہیں ۔ یہ سب با تیں امتحان کا درجہ رکھتی ہیں ۔
کا ئنات کی تخلیق دو رخوں پر کی گئی ہے ایک رخ سے دو سرا رخ ایک مر حلہ سے دو سرے مر حلہ میں قدم رکھنا ایک امتحان ہے ۔ آپ ذرا اس بچے کا تصور تو کیجئے جو کمرہ امتحان میں بیٹھ کر جب پر چہ سامنے آئے تو بجا ئے پر چہ حل کر نے کے رو نا شروع کر دے ، فر یاد کرنے لگے اور احتجاج کر ے کہ میرا امتحان کیوں ہورہا ہے ۔
نشوونما اور انسانیت کی فلاح و ترقی کندن ہو ئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ امتحان کی بھٹیوں سے گزر کر ہی سونا کندن بنتا ہے ۔
نوع انسا ن ان بھٹیوں سے نہ گزری ہو تی تو آج بھی لوگ غاروں کے مکیں ہو تے ۔
کو ئی مسئلہ اس وقت تک قابل حل نہیں ہے جب تک صاحب مسئلہ خود اس مسئلے کو حل کر نے پر آمادہ نہ ہو۔ ساری دعائیں ، وظیفے اور دوائیں صرف ایک ہی کام انجام دیتی ہیں وہ یہ کہ سائل بیمار ہو یا پر یشان حال اس کے اندر قوت ارادی میں اضا فہ ہواور اس کے اندر اتنی ول پاور (خود اعتمادی ) پیدا ہو جائے کہ وہ مسائل و معاملات کی بھول بھلیوں سے نکل کر ذہنی یکسوئی کے ساتھ آزاد ہو سکے ۔
دنیا میں جتنے عظیم لوگ پیدا ہو ئے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی مسئلے سے دور چار رہے ہیں لیکن وہ اس نقطے سے با خبر ہو تے ہیں کہ مسائل اس وقت تک مسائل ہیں جب تک انسان ذہنی یکسوئی اور سکون کی زندگی سے نا آشنا ہے۔ ان لوگوں کے اوپر سے مسائل و تکالیف کی گر فت ٹوٹ جا تی ہے جو اللہ کی مخلوق کی خد مت کو اپنی زندگی کا نصیب العین بنا لیتے ہیں کسی ایسے شخص کی خدمت کیجئے جو نادار ہے ، ضرورت مند ہے پھر دیکھئے کہ آپ کو کتنا سکون ملتا ہے دوسروں کی مدد کر نا اور ان کے کام آ نا انسانیت کی معراج ہے اور یہی وہ مشن ہے جس کو عام کر نے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لا کھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ہیں جن کا پیغام ہے :
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا مثل بنایاہے ۔ اور انسانیت کی خدمت اللہ کی خدمت ہے۔‘‘
ہستی کے مت فر یب میں آجا ئیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
زندگی کی چھان بین کر نے سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ آدمی کی تصویر مختلف النّوع خیالات کے رنگوں سے مر کب ہے۔ خیال ہمیں مسرت آگیں سے قریب کرتا ہے اور یہی خیال ہمیں غم ناک زندگی سے آشنا کر دیتا ہے ۔ کہاجا تا ہے کہ سائنس تر قی کے عروج پر پہنچ گئی ہے ۔ لیکن آج کے سائنسداںوہی کہہ رہے ہیں جو ہزاروں سال پہلے رو حانیت کے علم برادار کہہ چکے ہیں اور جس کا پر چار آج بھی ان کے پیرو کار حضرات مشن ہے۔۔۔۔ وہ یہ کہ ما دہ کو ئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ زندگی کا قیام لہروں پر ہے اور لہریں خیالات کا جامہ پہن کر ہر شئے کا وجود بن رہی ہیں ۔ ما دے سے بنی ہو ئی تصویروں میں ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے وہ مفروضہ اور محض فریب نظر آتا ہے ۔
نو ع انسانکے نجات دہند ہ، محسن انسا نیت حضور رحمتہ للعالمین ﷺ نے چو دہ سو سال پہلے اس کی عقدہ کشائی اللہ کے کلام میں اس طر ح فر ما ئی ہے اللہ نور سمٰوات ولارض ''اللہ آسمانوں اور زمین کی رو شنی (لہر ) ہے'' ۔
آدمی جو خود کو اشرف المخلوقات کہتا اور سمجھتا ہے اگر اپنی ابتدا اور انتہا ء پر غور کرے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس تعمیر کی پہلی اینٹ سڑاند اور تعفن سے بنی ہے ۔اور انتہا ء یہ ہے کہ اس کا خوبصورت جسم کیڑوں کی خوراک بن جا تا ہے ۔ با وجود اس واضح اور کھلی حقیقت کے کتنے لوگ ہیں جو اپنی ابتداء اور انتہا ء پر غور کر تے ہیں ؟تخیل کی پر واز کامطا لعہ کیا جا ئے تو نظر آتا ہے کہ ہر شخص ذاتی منفعت کی خیا لی دنیا میں مگن ہے ۔ایک ہی خیال اس کی طلب اور مقصد حیات بن گیا ہے ۔ دولت ۔ دولت اور صرف دو لت ۔ وہ دولت جو بذاتہ ایک ایسی لا انتہا ء دلدل ہے جس میں گر کر کو ئی آدمی اشرف حواس میں زندہ نہیں رہ سکتا ۔
جو لوگ سو نا چا ندی جمع کر تے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر ڈالتے ایسے لوگ با لآخر درد ناک عذا ب میں مبتلا رہتے ہیں۔دو لت کا حصول بری بات نہیں ہے المیہ یہ ہے کہ ہم نےسب کچھ دولت ہی کو سمجھ لیا ہے اور اس سے پیدا ہو نے والی خرا بیوں کا زہر معاشرے کی رگوں میں خون کی طر ح دوڑ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم سکون کے ایک لمحے کو بھی تر ستے ہیں اور عدم تحفظ کا احساس ہمارے اوپر مسلط ہے ۔رشتو ں کے تقدس پردولت کی چھا پ لگ گئی ہے ایک دوڑہے جو ہمیں حوس پر ستی کے خیالی گھوڑے پر آگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔
ہر زمانے میں عقل مندوں نے ہوس زر کی مخالفت کی ہے ۔ قرآن نے اسے حطمہ کہا ہے جس کی آگ ستون کی مانند دلوں پر چڑھ جا تی ہے ۔ اور آدمی کو بھسم کر ڈالتی ہے ۔ جو دولت ’’حطمہ ‘‘ نہیں ہے وہ روشن سورج ، تاروں بھری رات ، چاند کی ٹھنڈک ، عطر بیز ہوا ئیں ، اور ایک پر سکون دل ہے جس میں طمع اور لا لچ نہیں ہو تا جو جھو ٹ سے بچتا ہے ۔ جس میں دو سروں کے کام آنے کا جذبہ بھی کار فر ما ہو تا ہے اور جو اللہ کی مخلوق کے لئے زندہ رہنے کی تمنا کر تا ہے ۔ ایسے ہی صاحب دل لوگ ہیں جن کو اطمینان قلب نصیب ہو تا ہے اور ان کی تخلیقی سوچ اللہ کی سوچ ہو تی ہے ان کی نظر میں سب اپنے ہو تے ہیں ۔ انہیں سب میں اللہ کا نور نظر آتا ہے ۔ ان کی زندگی ایسے روشن اور پا کیزہ خیالات کا مر قع ہے جن میں کو ئی کثافت نہیں ہو تی ۔ لا لچ اور گمراہی کے عقوبت خانوں کے دروازے ان کے اوپر بند ہو جا تے ہیں ۔ ان کی زندگی میں ایسی حلاوت ہو تی ہے جیسی حلا وت شیر خوار بچے کو ماں کی گود میں ملتی ہے ۔ آپ ذر ا لالچ اور طمع اور ہوس ز ر کی بند شوں کو توڑ کر تو دیکھیں کتنا سکون ملتا ہے ۔دنیا کا کو ئی آدمی برا نہیں ہو تا ۔ خیالات اچھے یا برے ہو تے ہیں آپ کے پاس اگر دولت ہے اسے اللہ کی راہ میں سسکتی، روتی اور کراہتی ہو ئی انسانیت پر خرچ کیجئے ۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر شکر بجا لا یئے ۔ جو نہیں ہے اس پر کڑھئے نہیں ۔ احساس کمتری سے خود کو دور رکھئے ۔ قدرومنزلت ، شرافت و نجابت کا معیار دولت نہیں ہر آدمی کے پا کیزہ اور زندہ خیالات ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔