Topics

اعضاء کی پیوند کاری

   

سوال  :  سوال یہ ہے کہ آج کل میڈیکل سائنس میں اعضاء کی پیوندکاری کے آپریشن عام ہوتے جارہے ہیں۔ جن افراد کے اعضاء تبدیل کئے جاتے ہیں انہیں ساری عمر ایک مخصوص دوا کھانی پڑتی ہے، تاکہ جسم ان اعضاء کو رد نہ کرے۔ اس دوا کی قیمت پاکستا نی روپے میں تین ہزار روپے ہے۔ براہ کرم اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ پیوندکاری کے بعد جسم اعضاء کو رد کیوں کرتا ہے۔ اور دوا کے استعمال سے جسم اعضاء کو رد کیوں نہیں کرتا؟

جواب  :  اللہ نور السمٰوات والارض سے مطابق ساری کائنات اور کائنات میں پائی جانی والی سب اشیاء اللہ تعالیٰ کے نور سے بنی ہوئی ہیں۔ ہمیں مادی خدوخال میں جو مختلف چیزیں نظر آتی ہیں وہ انہی روشنیوں کی مختلف مقداروں کی مظہراتی شکل و صورت ہے،  روشنی کی مقداریں ہر نوع کی اشیاء میں مختلف ہے۔ پتھر میں ایک طرح کی لہر کام کرتی ہے، دھاتوں میں ایک طرح لہریں کام کرتی ہیں، سیب ، امرود، ناشپاتی  میں کام کرنے والی روشنی کی یہی لہریں انہیں مختلف شکل و صورت ، ذائقہ اور اثرات عطا کرتی ہیں۔ شیر ، طوطا بکری، اور کبوتر وغیرہ میں بھی روشنی کی الگ الگ لہریں کام کرتی ہے، اسی طرح انسان میں بھی روشنی کی خاص لہریں کام کرتی ہے، یہی مخصوص لہریں انسان کو سب سے الگ اور منفرد تشخص اور مقام عطا کرتی ہیں

                سائنسی تحقیق نے انسان اور دوسری تمام چیزوں کے اوپر ایک اور روشنی کے جسم کی موجودگی کو دریافت کیا ہے۔ جس کو Aura  کا نام دیا گیا ہے۔ اس روشنی کے جسم نسمہ یا Aura  میں سر، ہاتھ، پیر ، آنکھ، ناک، کان ، دماغ، دل ، پھیپھڑے ، گردے سب ہوتے ہیں۔ پیوندکاری میں چونکہ روشنیوں کے بنے ہوئے جسم کی لہروں میں وہ مقداریں قائم نہیں رہتیں جن مقداروں کے اوپر انسان پیدا ہوتا ہے اور جن مقداروں میں بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے۔ اس لیے کامیاب آپریشن کے بعد بھی کسی عضو کی حرکت کو بحال رکھنے کے لیے مخصوص لہروں کو ادویہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور بیان کردہ قانون کے مطابق ہر دوا کی خاصیت بھی انہی لہروں کی وجہ سے ہے۔ پیوندکاری کے بعد جسم کا اِس عضو کو رد کرنے یا نہ کرنے پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔

Topics


Usoloo


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔