Topics
سوال :
خواجہ صاحب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اطمینان قلب کیوں نصیب
نہیں ہوتا اور عدم تحفظ کا احساس کیوں ہمارے اوپر مسلط ہے؟ یہ بھی فرمائیے کہ آج کل منفی سوچ اتنی زیادہ
عام کیوں ہے کہ آدمی ان چیزوں سے خوش نہیں ہوتا جو اسے حاصل ہیں ، ان خواہشات کے
پیچھے کیوں سرگرداں ہے جن کے حصول میں اعتدال کی زندگی سے روگردانی پر مجبور ہے؟
جواب : جب
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص خیالات میں غلطاں و پیچاں ، ارد گرد سے بے نیاز ، چہروں
پر غم وآلام کی تصویر سجائے اپنی دنیا میں مست و مگن ہے تودل بے قرار ہوجاتا ہے۔
یہاں وہ بھی پریشان ہے جس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ بھی دل گرفتہ ہے جس کے کچھ نہیں
ہے۔ بیماریوں ، پریشانیوں ، خود نمائی اور احساس کمتری کے دبیز سایوں نے ہمیں اپنی
گرفت میں لیا ہو ا ہے، غرض جتنے لوگ ہیں اتنے ہی مسائل ہیں ۔ مگر ایک بات سب میں
مشترک ہے کہ سکون کسی کو حاصل نہیں ہے۔ سب کے ماتھوں پر بے اطمینانی ، عدم تحفظ
اور محرومی کی شکنیں پڑی ہوئی ہیں۔ سب شکست خوردہ، اور نفرت وحقارت کی تصویر بنے
ہوئے ہیں۔ دولت کی ہوس اور معیار زندگی بلند سے بلند ہونے کے تقاضوں نے اولاد آدم
کے لیے دنیا کو دوزخ بنا دیا ہے۔ اقوام عالم میں اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے
انسانی فلاع و بہبود کے نام پر اربوں کھربوں روپے آسمانی سیاروں اور ستاروں پر
کمند ڈالنے پر تباہ کردئیے ، جبکہ نوع انسانی
کی بڑی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔
سب
کچھ ہونے کے باوجود آدمی نعمتوں سے اس لیے خوش نہیں کہ ہم صبر و استغناء سے محروم
ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اللہ صبر
کے والوں کے ساتھ ہے ‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے
کہ جولوگ صابر و شاکر اور مستغنی نہیں ہیں وہ اللہ سے دور ہوجاتے ہیں۔ اللہ سے
دوری سکون عافیت اور اطمینان قلب سے محرومی ہے۔ یہ محرومی صبر واستغناء کی لذت سے
نا آشنا کردیتی ہے۔ صبر و استغنا ء وہ تلوار ہے جس سے ہم مسائل و مشکلات اور عدم
تحفظ کی زنجیریں کاٹ کر پھینک سکتے ہیں۔ جب کسی فرد کو صبر واستغناء کی دولت مل
جاتی ہے، اس پر سے مصائب و مشکلات کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ او رجب من حیث القوم صبر و
استغنا ء قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو معاشرہ سدھر جاتا ہے قومیں حقیقی فلاح
و بہبود کے راستوں پر گامزن ہوجاتی ہے۔
یاد
رکھنے کی بات یہ ہے کہ سکون دل اور خوشی کوئی خارجی شئے نہیں ہے۔ یہ اندرونی کیفیت
ہے۔ جب اس اندرونی کیفیت سے ہم وقوف حاصل کرلیتے ہیں تو ہمارے اوپر اطمینان و سکون
کی بارش برسنے لگتی ہے۔ بندہ اس ہمہ گیر طرز فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں ،
پریشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رُستگاری حاصل کرکے اِس حقیقی مسرت و شادمانی سے
واقف ہوجاتا ہے۔ جو اِس طرز فکر کے حامل بندوں کا حق اور ورثہ ہے۔ قرآن پاک کی
تعلیمات اور سیدنا حضور ﷺ کی حیات طیبہ نوع انسانی کے لیے مشعل راہ ہے۔ انبیاء
کرام کا یہ مشن رہا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی ذہنی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان کے
اندر آپس میں بھائی چارہ ہو، ایثار و خلوص ہو اور وہ ایک دوسرے سے محبت کریں۔جس
معاشرے میں محبت کا پہلوں نمایاں ہوتا ہے وہ معاشرہ ہمیشہ پرسکون رہتا ہے اور جس
معاشرے میں بیگانگی اور نفرت کا پہلوں نمایا ں ہوتا ہے،اِس معاشرہ کے افراد ذہنی
خلفشار اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں، محبت کیوں کہ پرسکون زندگی اور
اطمینان قلب ایک ذریعہ ہے اس کے لیے کوئی انسان جس کے اندر محبت کی لطیف لہریں دور
کرتی ہیں، وہ معاشرہ مشکلات اور پیچیدہ اخلاقی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اس کے
برعکس نفرت کی کثیف لہریں انسانی دل و دماغ پر ایسا تاریک عکس چھوڑ تی ہیں کہ
انسان اطمینان قلب جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔