Topics

اسم رحیم نوری مجموعہ

   

سوال  :  مذہب کی کتابوں بشمول قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ کو مردہ زندہ کرنے ، کوڑھی اور اندھے کو اچھا کرنے اور مٹی سے جانور بنا کر اس میں جان ڈالنے کا معجزہ درج ہے۔  یہاں تک تو یہ بات ہم پیغمبروں کے عظیم درجات کہہ کر سمجھ جاتے ہیں مگر تصوف کی کتابوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم سیدنا عبدالقادرجیلانی  ؒ نے بھی مردے زندہ کرنے کی کرامت دکھائی اور بیسویں صدی کے عظیم بزرگ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کی کرامات میں بھی مردہ کو زندہ کرنے کی کرامت درج ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیضان پیغمبروں کے علاوہ عام بندوں پر بھی جاری کیا ہے۔ برائے مہربانی آپ وضاحت فرمائیں کہ روحانی علوم میں وہ کون سے علوم ہے جنہیں اگر انسان حاصل کرلے تو ایسی کرامات کا اظہار کرسکتا ہے۔

جواب  :  تدّلیٰ اللہ تعالیٰ کی ان مجموعی صفات کا نام ہے جن کاعکس انسان کے ثابتہ یعنی تحت لاشعور کو حاصل ہے ۔ قرآن پاک میں جس نیابت کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء کی حیثیت میں جو علم آدم کو تعوفیض کیا تھا اس کے اوصاف اور ا ختیار کے شعبے تدّلیٰ ہی کی شکل میں وجود رکھتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی نیابت کے اختیارات کو سمجھنا چاہے تو اسے تدّلیٰ کے اجزا کی پوری معلومات فراہم کرنی پڑیں گی۔ پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کا نام ہے اور وہ صفت جزوی طورپر اللہ تعالیٰ کے نائب یعنی انسان کو ازل میں حاصل ہوئی تھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے  ’رحیم ‘  ۔ اس کی صفت ہے تخلیق یعنی پیدا کرنا، چنانچہ پیدائش کی جس قدر طرزیں موجودات میں استعمال ہوتی ہیں ان سب کا محرک اور خالق رحیم ہے۔ اگر کوئی شخص رحیم کی جزوی صفت کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کو اسم رحیم کی صفت کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے باطن میں کرنا ہوگا۔ اس کا طریقہ مراقبہ ہے۔ ایک وقت مقرر کرکے سالک کو اپنی فکر کے اندر یہ محسوس کرنا ہوگا کہ اس کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمی کا ایک جز حاصل ہے۔

                قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا تذکرہ کیاہے وہاں یہ بتایا ہے کہ میں نے عیسیٰ کو روح پھونکنے کا وصف بخشاہے۔ یہ وصف میری طرف سے منتقل ہوا ہے۔ اوراس کے نتائج میں نے عطا کئے ۔ ترجمہ :اور جب تو بناتا مٹی سے جانورکی صورت میرے حکم سے ،  پھر دم مارتا اس میں تو ہوجاتا جانور میرے حکم سے ۔ اور چنگا کرتا ماں کے پیٹ کا اندھااور کوڑھی میرے حکم سے اور جب نکال کھڑے کرتا مردے میرے حکم سے  : سورۃ المائدہ ۔۱۱،

                الفاظ کے معانی میں اسم رحیم کی صفت موجود ہے، اب اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی اور لفظ کن فرمایا، اس وقت اسم رحیم کی قوت تصرف نے حرکت میں آکر کائنات کے تمام اجزا ء اور ذرات کو شکل و صورت بخشی۔ جس وقت تک لفظ رحیم اسم اطلاقیہ کی حیثیت میں تھا اس وقت تک اس کی صفت صرف علم کی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کن فرمایا اور رحیم اسم اطلاقیہ سے تنزل کرکے اسم عینیہ کی حدود میں داخل ہوگیا اور رحیم کی صفت علم میں حرکت پیدا ہوگئی جس کے بعد حرکت کی صفت سے تعلق سے لفظ رحیم کا نام اسم عینیہ قرار پایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے موجودات کو خطاب فرمایا  ’الست بربکم  ۔ پہچان لو میں تمھارا رب ہو‘  ۔  روحوں نے جواباً کہا بلیٰ (جی ہاں ہم نے پہچان لیا)۔

                جب روحوں نے رب ہونے کا اعتراف کرلیا تو اسم رحیم کی حیثیت اسم عینیہ سے تنزل کرکے اسم کونیہ ہوگئی، تصوف کی زبان میں اسم اطلاقیہ کی حدود  تدّلیٰ کہلاتی ہے، اسم عینیہ کی صفت ابداء کہلاتی ہے  اور اسم کونیہ کی صفت خلق کہلاتی ہے۔  اسم کونیہ کی صفت کے مظہر کو تد بیر کہا جاتا ہے ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ ؑ کے روح پھونکنے کا بیان فرمایا ، وہاں اسم رحیم کی ان تینوں صفات کا اشارہ فرمایا ہے اور تیسری صفت کے مظہر کو روح پھونکنے کا نام دیتے ہیں، یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کو ثابتہ (تحت لاشعور ) کی حیثیت میں اسم رحیم کی صفت تدّلیٰ حاصل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اس وصف سے مردوں کو زندہ کرنے یا کسی شئے کی تخلیق کاکام سرانجام دے سکتا ہے۔ پھر اس ہی اسم رحیم کا تنزل صفت عینیہ کی صورت میں اعیان (لاشعور) کے اندر موجود ہے۔ جس کے تصرف کی صلاحیتیں انسان کو پوری طرح حاصل ہیں۔ اسم رحیم کی صفت کونیہ انسان کے جویہ یعنی شعور میں پیوست ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صفت کے استعمال کا حق بھی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی ٰ کی مثال دے کر اس صفت کی وضاحت کردی ہے اگر کوئی انسان اس صفت کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہے تو اسے اپنے ثابتہ یعنی تحت لاشعور اور اپنے اعیان یعنی لاشعور اور اپنے جوّیہ یعنی شعور میں مراقبہ کے ذریعے اس فکر کو مستحکم کرنا پڑے گا کہ میری ذات اس رحیم کی صفات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس فکر کی مشق کے دوران میں وہ اس بات کا مشاہدہ کرے گا کہ اس کے ثابتہ یعنی (لاشعور) اعیان یعنی لاشعور اور اس کے جویہ یعنی شعور سے اسم رحیم روح بن کر مردہ میں منتقل ہورہی ہے۔ جس کو وہ زندہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودات کی جس قدر شکلیں اور صورتیں ہیں وہ سب کی سب اسم رحیم کی صفات کا نوری مجموعہ ہیں ۔ یہ مجموعہ انسان کی روح کو حاصل ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے حضور قلندر بابا اولیا کی تصنیف لوح و قلم کا مطالعہ کیجئے ۔

Topics


Usoloo


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔