Topics
لبنان کی سر زمین پرموت رقص کنان ہے ۔ منا فقت کادیوتا جا گ اٹھا ہے ،جبرو استبداد کا دور دورہ ہے معصوم بچوں کے خون سے صحرا کی آبیا ری کی جا رہی ہے ۔
وسائل سے معمور بڑی بڑی با دشاہتوں کے درمیان چھو ٹے سے ملک کے با سی تیس لا کھ اسرا ئیلوں نے ظلم و بر بربت کا ایسا المناک مظاہرہ کیا ہے کہ مظلوموں کی د لدوز ، چیخو ں ، جگر سوز آہ و بکا ، نا لہ و شیون سے نوے کروڑ مسلمانوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں ۔ محسوس ہو تا ہے کہ اللہ کے فر ستا دہ پیغمبروں کی سر زمین ہم سے رو ٹھ گئی اور ہمارے اندر حیا اور شرم کی لالی سے آسمان شفق آلود ہو گیا ہے ۔
یہ وہ اسرائیل جس کے با رے میں ہم سنتے آئے ہیں کہ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین سے مراد یہودی ہیں بچپن کا زمانہ جو شعور کی سطح پر حافظہ کے نا م سے نقش ہے ، یہ یاد دلا رہا ہے کہ چار کم ساٹھ سال ہر مسجد، ہر منبر ، ہر مکتب اور وعظ و نصحت کی ہر محفل میں اپنے پیشواؤں کو ہم نے یہ دعا کرتے سنا ہے کہ یا اللہ یہود کو نیست و نا بو دکر دے اورمسلمانوں کو فتح و کا مرانی سے ہم کنار کر۔ آج جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیت المقدس ہم سے چھین لیا گیا ہے، ہیکل سلیمانی کے پر دے میں اس کی بنیا دو ں پر کدال چلا دی گئی ہے، اور بیروت جل رہا ہے ۔وہاں کی مسلم آبادی زہر یلے بموں کے نر غے میں موت زیست کے دروازے پر کھڑی ظلم و ستم کےآہنی پنجے میں سسک رہی ہے تو یہ کہے بغیر کو ئی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نو ے کرو ڑ مسلمانوں کی آدھی صدی سے زیادہ کی دعا ئیں بے کار ثابت ہوئیں۔ یہ غلغلہ تو عام ہے کہ بیروت جل رہا ہے ۔ اسرائیل فتح و کامرانی کے نشے میں اپنے ضمیر کا گلہ گھونٹ رہا ہے ۔ معصوم نونہال ، نرم و نازک صنف لطیف خواتین کا کو ئی پر سان حال نہیں ہے ۔ بو ڑھے معذورمفلوج ہوچکے ہیں ۔مگر یہ صدا کسی گو شے سے سنائی نہیں دیتی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور وہ قوم جس سے قدرت نے فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا آج زمین پر بو جھ کیوں بن گئی ہے ؟
فتح و نصر ت اور کامرانی کی بشارت نبی بر حق اکرم ﷺنے دی تھی اور حصول نصرت کا راستہ بھی متعین کر دیا تھا ۔
کیوں ہم نے اپنے دلوں پر مہر لگا ئی ہے اور کیوں ہم نے اپنی آنکھوں پر دبیز پر دے ڈال دئیے ہیں ؟ ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ با عثِ تخلیق کا ئنات ﷺ نے عمل کے ساتھ دعا ؤں کا سہا را لیا ہے ۔مکے کی زندگی میں دعا اور عمل ساتھ ساتھ قائم رہے ہیں ۔یہ ذا ت اقدس ومکرم و محرم و محتشم ہے جس کے ایک اشارے سے چاند دولخت ہو گیا ہے یہ رب العالمین کی وہ محبوب ذات ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے رازو نیاز کی با تیں کیں ۔ اور اپنی قربت کا وہ اعزاز عطا فر ما یا جو نو ع انسانی میں کسی کو حاصل ہو ااور نہ ہو گا ۔ یہ وہی مسجود ملا ئکہ ذات ولاتبار ہے جس کے سامنے جبرئیل ؑ دوزانوہو کر بیٹھے ہیں ۔ یہی بعد از خدا بزرگ توہی قصہ مختصر شخص اکبر ہے جس کی امامت میں جلیل القدر پیغمبروں نےنماز اداکی اور ہر پیغمبر نے آسمانی کتاب میں اس نجات دہند ہ کے آنے کی بشارت دی ۔
عمل کے بغیر اگر دعاؤں سے کام ہو جا تے تو مکے سے مد ینے کی طر ف ہجرت کی کیا ضرورت تھی ؟ حضور پاکﷺ کا دندا نِ مبارک کیوں شہید ہو ا؟حضور ؐ نے مدینے سے مکے کی طر ف فو ج کشی کیوں کی ؟حضور ؐ نے شہری زندگی سے قطع تعلق کیوں منظور فر ما یا ؟حضور ؐ کی سیرت پاک ہمیں بتاتی ہے کہ حضور ؐ نے کبھی عمل اور تدابیر کو ہا تھ سے نہیں چھو ڑا تدابیر اور عمل کے مثبت نتا ئج کے لئے دعا ئیں کیں ۔
عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں رو ح نہیں ہے اور جب جسم میں سے رُوح نکل جا تی ہے تو اس کی حیثیت ایک لا ش کی ہو تی ہے جو کسی کام نہیں آتی ۔اسی طر ح وہ دعا جس کے پیچھے کو ئی عمل نہیں ہو تا قوموں کے لئے ادبار بن جا تی ہے ۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ کیا مسلمان ایسے ہو تے ہیں جس کا مظاہرہ آج ہو رہا ہے ؟ جب سے ہو ش سنبھالا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم دعاؤں کے ذریعے اپنے مسائل حل کر نے کی کوشش کر تے ہیں ہم عمومی دعا ئیں اور خصوصی دعا ئیں بھی ما نگتے ہیں ۔آدھی صدی سے زیادہ کا زمانہ ہمارے سامنے ہے ۔ ہم نے من حیث القوم کا فروں پر فتح و کامرانی کی کو ئی دعا قبول ہو تے نہیں دیکھی ۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟
دعا ئیں اس لئے قبول نہیں ہو تیں کہ ان کے ساتھ عمل نہیں ہے اور تخلیق کا راز یہ ہے کہ عمل بجا ئے خود تخلیق ہے ۔ ہم اپنی معاش کے لئے دھو پ کی تپش میں سر گرادں رہتے ہیں ۔اور سر دی کی یخ بستہ راتوں میں اپنی نیندیں خراب کر تے ہیں افزائش نسل کے لئے شا دیاں کر تے ہیں ۔جب دعا ئیں توپ و تفنگ ۔ میزائیل ، راکٹ اور بم بن کر اسرائیل کو تبا ہ کر سکتی ہیں تو زندگی کے ان سب ہنگا موں کی کیا ضرورت ہے؟کسان کو کیا ضرورت پڑی کہ زمین کے سینے کو چیر کر اس سے غذائی ضروریات پو ری کر ے ؟دھوپ کی تمازت اورژالہ با ری سے بچنے کے لئے آخر ہم مکان کیوں بناتے ہیں ؟جب عمل کے بغیر دعا سے ہر کام ہو سکتا ہے تو ہم زندگی سے متعلق معاملات میں جدوجہد اور کو شش کر نے کے بجا ئے مانگ لیا کر یں ۔ یا اللہ ! ہمیں اولاد دے ، یا اللہ ! ہمارا مکان بنا دے ، یا اللہ ! ہم سے محنت مزدوری نہیں ہو تی ہما رے منہ میں رو ٹی کے لقمے ڈال دے ۔
آخر یہ کس قسم کا مذاق ہے کہ جب انفرادی زندگی زیر بحث آتی ہے تو ہمارا عضو عضو مصروف ہو جا تا ہےاور جب اجتما عی زندگی درپیش ہو تی ہے تو ہم دعا کے لئے ہا تھ باندھ کربیٹھ جا تے ہیں اگر دعا سے ہی کا فر جہنم رسید ہو جا تے تو جہاد کس لئے فرض کیا گیا ؟
یادرکھئے ! جو لوگ دعائیں کرتے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ عملی اقدامات کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ ہر گز قوم کے دوست نہیں۔ بزعم خودیہ وہ نادان دوست جن کی تدبیریں ہمیشہ رُسو اور ذلیل کر تی ہیں۔ کو ن نہیں جانتا کہ بے عملی قوم کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے ہر فرد اپنی ذات میں بند ہو جا تا ہے ۔ بے عمل بندہ اللہ کی نا فر ما نی کا مر تکب بھی ہو تا ہے اس کے ہا تھ سے اللہ کی رسی چھو ٹ جا تی ہے ۔ اور سیسہ پلا ئی ہو ئی قومی دیوار میں درا ڑیں پڑ جاتی ہیں۔عمل سے جی چرانے والی قومیں نا کا رہ مفلوج او رمغضوب بن جا تی ہیں ۔
کو ئی ہے _____جو اس زہر ناک طرزِ عمل سے قوم کو آگا ہ کرے ؟کو ئی ہے جو عالم اسلام کو یہ بتا ئے کہ اسلام کی زندگی عمل، عمل اور عمل سے عبا رت ہے ؟خالق کا ئنات نے اس کائنات کو متحرک اور فعال بنا یا ہے چا ند ، سو رج ، ستارے ، زمین ، آسمان ، فر شتے ہر چیز اور ہر مخلوق مسلسل حرکت میں ہے ۔ اللہ کے فر ستا دہ پیغمبر وں اور اس راہ پر چلنے والے تمام اولیا ء اللہ نے ہمیشہ عمل کی تلقین کی ہے اور بے عمل سے اجتناب کی نصیحت کی ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ نا ری ہے
جب سے ہم نے عمل کو تر ک کیا اور دعا ؤں کا سہار ا لینا شروع کیا ہے ہمارے اندر سے نور نکل گیا ہے اور نار نے ہمیں اپنا لقمہء تر سمجھ لیا ہے ۔
اے واعظو! اے منبر نشینو! اے قوم کے دانشورو! برا ئے خدا ، سوتی قو م کو جگا ؤ اور بتا ؤ کہ بے عمل قومیں غلام بن جا تی ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔