Spiritual Healing
سوال : ایک
غم مسلسل تین برس سے مجھے کھائے جارہا ہے، جس کی وجہ سے میرے چہرے کی رونق ختم
ہوگئی ہے، میرے ابو جان ۴ سال سے سات لاکھ کے
مقروض ہیں، والد صاحب ۲
سال سے گھر نہیں آئے ہیں، گھر کا خرچا اور بہن بھائیوں کا بوجھ مجھ پر آن پڑا
ہے، دن رات کی مشقت اور یہ غم میری صورت کو دیمک بن کر چاٹ گیا ہے۔
جواب : مرشد
کریم حضور قلندر بابا اولیاؒ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بچے کو عالم اروا
ح سے عالم دنیا میں بھیجتا ہے تو زندگی گزارنے کے لیے جو روشنیاں اس کے اندر ہوتی ہیں
اگر ان کا بروقت اور صحیح استعمال کیا جائے تو یہ روشنیاں 10,000سال تک کام کرتی ہیں
، یعنی جب کوئی بچہ اس دنیا میں پیدا ہوتا
ہے تو اس کے اندر دس ہزار سال کے لیے لائف اسٹریم Life Stream
موجود ہوتی ہے۔ پہلے زمانے میں آدم زاد یہ 10,000سال
کا ذخیرہ بارہ سو سال ، نوسو سال میں خرچ
کرتا تھا۔ جیسے جیسے انسان وسائل اورمصائب
میں گرفتار ہوتا رہا اسی رفتار سے طبعی عمر کم ہوتی گئی، یہاں تک کہ ڈیڑھ سو سال پر آکر رک گئی
پھر اور مصائب اور مسائل کے اژدھے انسان کے سامنے آکھڑے ہوئے اور عمر طبعی گھٹ کر
سوسال رہ گئی، پھر ترقی کے پُرفریب پردوں
میں انسان کاشعور سسکنے لگا اور لرزنے لگا تو اوسط عمر گھٹ کر ۴۰ اور ۴۵ سال رہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ آج کا دور علم اور فن کی ترقی
کا دور ہے ۔ انسان کی ترقی کا یہ عالم ہے
کہ ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں امریکہ با ت کرتاہے، لیکن جب وہ صبح اٹھ کر یہ
خبر پڑھتا ہے کہ ہائیڈروجن بم وجود میں آگیا ہے تو اس کے اندر سینکڑوں سال کی انرجی
بھک سے اڑ جاتی ہے۔ اس لئے کہ اسے خبر مل گئی ہے کہ ہائیڈروجن بم بن گیا ہے اور وہ
اسے ختم نہیں کرسکتا، ختم نہ کرنے کا مطلب
یہ ہے کہ ہائیڈروجن بم ایک دن ضرور شعلے اگلے گا اور دنیا بھسم ہوجائے گی۔ میرے عزیز سات لاکھ کا قرضہ آپ کے ابا نے لیا
، وہ سب چھوڑ کر فرار ہوگئے ، آپ غم میں اپنی انرجی ضائع کررہے ہیں، سب طرف سے
ذہن ہٹاکر محنت مزدوری کریں ، اللہ برکت دے گا، کوئی وظیفہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔